جماعت اسلامی کے قیام کواسی برس ہونے کوآئے ہیں۔ جماعت مولانا مودودی کے تصوراسلام کے گرد قائم ہوئی تھی۔ مولانا ابتدائی طور پر ہندوستان کے پڑھے لکھے مسلمانوں کی اسلامی طرزفکرکےحوالےسےذہن سازی کرتے ہوئے سماج میں تبدیلی لانے پریقین رکھتے تھے۔ مولانابہت اچھےانشاپردازتھے اورانھیں زبان و بیاں پرمکمل عبورحاصل تھا۔ّکوثرو تسنیم سے دھلی ہوئیٗ اپنی نثری تحریروں کے ذریعے مولانا درمیانے اورنچلے درمیانے طبقے کے پڑھے لکھے افراد کواپنی تحریروں سے متاثرکرنےمیں کامیاب رہے اوراپنےگردانھوں نےاپنےمداحین کا ایک اچھا خاصا حلقہ بنالیا تھا۔قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان تشریف لےآئے۔ یہاں انھیں چوہدری محمدعلی جیسے مربی میسرآئے جو پاکستان کواسلامی نظام کی لیبارٹری بنانا چاہتے تھے۔ چوہدری محمد علی پاکستان کے ابتدائی سالوں میں بیوروکریسی کےاعلی ترین عہدیدار تھے۔ ان کے لئے سیکرٹری جنرل کا خصوصی عہدہ تخلیق کیا گیا تھا۔ انھوں نے مولانا مودودی کو ریڈیو پاکستان سے تقاریرنشر کرنےکی ذمہ داری سونپی تھی۔ اس وقت تک ریڈیو ہی ابلاغ کا سب سےبڑاورموثرذریعہ تھا۔ مولانا اپنی ان تقاریرکی بدولت بہت سے افراد کومتاثرکرنےاورانھیں اپنے حلقہ فکرمیں شامل کرنےمیں کامیاب ہوئے تھے۔ مولانا کی یہ نشری تقاریر دینیات کے عنوان سے جماعت اسلامی نے شائع بھی کی تھیں۔اس وقت تک مولاناعملی سیاست بالخصوص انتخابی سیاست میں حصہ لینے پریقین نہیں رکھتے تھے کیونکہ مولانا کے ذہن میں اسلامی انقلاب کا جو تصورتھا اس کوانتخابات کے ذریعےعملی شکل دیناممکن نہیں تھا
قیام پاکستان کے بعد حکمران اشرافیہ اورمولانا مودودی کا نظریاتی اورفکری بیانیہ ایک ہی تھا۔ دونوں پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کو اپنا مقصد بتاتے تھےگوتفصیلات میں اختلافی پہلوموجود تھے۔
جماعت کو پہلا سیاسی چیلنج جنرل ایوب خان کے مارشل لا کے دوران پیش آیا تھا۔جنرل ایوب خان خود بھی اسلامی نظام کے داعی تھے لیکن ان کا اسلامی نظام مولویوں کی بجائے کلین شیو فوجی افسروں نے نافذ کرنا تھا۔ وہ مولوی بالخصوص کو فساد کی جڑ سمجھتے تھےاوران کو مطعون کرتے تھے۔ جنرل ایوب خان کا تصور اسلام غلام احمد پرویز کے قریب تھا اوروہ ان کے سر پر اپنا دست شفقت بھی رکھتے تھے۔
۔جنرل ایوب خان نے مارشل لا نافذ کرکے اقتدارپر قابض سول بیوروکریسی جس کی اکثریت یوپی اور بہارسے تعلق رکھتی تھی، کو دوسرے درجے پردھکیل دیا تھا دوسرا کام انھوں نے یہ کیا کہ دارالحکومت کو کراچی سے اسلام آباد منتقل کردیا۔ یہ دونوں اقدامات کراچی اورسندھ کے دیگر شہروں میں ہندوستان کے مسلم اقلیتی صوبوں سے نقل مکانی کرکے آنے والے درمیانے اور تعلیم یافتہ طبقات کے لئے بہت بڑا دھچکا تھا۔ یہی وہ طبقات تھے جو جماعت اسلامی کے نظریاتی رفیق تھے۔ چنانچہ جماعت ہمیں جنرل ایوب خان کے خلاف اگلی صفوں میں نظر آتی ہے۔ جنرل ایوب خان کے بعد جب جنرل یحیی خان نے مارشل لا نافذ کیا تو جماعت نے فوری طور پر اس کی حمایت کردی تھی اور میجر جنرل نوابزادہ شیر علی خان کے وساطت سے مارشل لا حکام سے قریبی روابط بھی قائم کرلئے تھے۔ جنرل یحیی خان کے دوران فوج سے قائم ہونے والے جماعت کے تعلقات بعد کے سالوں میں اس کے بہت زیادہ کام آئے۔ستر کے الیکشن میں جماعت نے بڑے جوش وخروش سے حصہ لیا تو لیکن اسے قومی اسمبلی میں صرف چار نشستیں مل سکیں۔ ان میں سے بھی دو کراچی سے تھیں۔پنجاب سے اسے قومی اسمبلی کی صرف ایک نشست ملی تھی۔ جماعت اسلامی نے بنگالی عوام کے قتل میں فوج کی بھرپورمدد اورتائید کی اوراس کےبدلے میں فوجی حکومت کی نوازشوں کی حقدار ٹھہرائی گئی تھی۔بھٹو کاعہد جماعت کے لئے دور ابتلا تھا۔جماعت نے دیگر مین سٹریم سیاسی جماعتوں کی ہمراہی میں بھٹو کے خلاف قومی اتحاد کے پلیٹ فارم سے تحریک میں بھرپور حصہ لیا تھا اور جب جنرل ضیا نے مارشل لا نافذ کیا تو جماعت نےغیرمشروط طورپرجنرل ضیا سےاظہاروفاداری کردیا۔ جنرل ضیا کا دور جماعت کی تاریخ کا سنہری دور کہا جاسکتا ہے۔ جماعتی نمائندے وفاقی کابینہ کا حصہ رہے۔ پلاننگ کمیشن کے چئیرمین پروفیسر خورشید احمد مقرر ہوئے تھے۔ جماعت اسمبلیوں اور سینٹ میں نمایاں طور پرنظرآنے لگی تھی۔ جنرل ضیا کی موت جماعت اسلامی کے لئے بہت بڑا دھچکا ثابت ہوئی ایسا دھچکا جس سے جماعت تین دہائیاں گذرنے کے باوجود سنبھل نہیں سکی۔اسلامی جمہوری اتحاد، اسلامی ڈیموکریٹک فرنٹ اورمتحدہ مجلس عمل کا حصہ ہونے کی بنا پر اس کو اقتدار میں بھی حصہ ملا لیکن یہ حصہ جزوی تھا۔ گذشتہ چند سالوں سے جماعت زوال کی راہ پر تیزی سے گامزن ہے۔ صارفیت نے جس زبردست طریقے سے ہر قسم کی نظریاتی سیاست کو جونقصان پہنچایا ہے اس سے جماعت اسلامی بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ سیلف فنانس سکیموں کی بدولت تعلیمی اداروں میں جماعت اسلامی کی حمایت بہت حد تک سکڑ گئی ہے۔ سیلف فنانس سکیم کے تحت تعلیم حاصل کرنے والا طالب علم کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ لینے کی بجائے جلد از جلد فارغ التحصیل ہونا چاہتا ہے تاکہ اس کےوالدین پرمالی بوجھ جتنی جلدی ہوسکے کم ہو۔ اس لئے تعلیمی اداروں میں نظریاتی سیاست اور سیاسی جماعتوں سے وابستگی رحجان بہت حد تک کم ہوگیا ہے۔نئی نسل کے لیے جماعت اسلامی کا بیانیہ اپنا اہمیت کھو چکا ہے۔ انتخابات میں جماعت اسلامی کو عوام کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ جماعت اسلامی کی پوری قیادت ماسوائے امیر جماعت سراج الحق پارلیمنٹ سے باہر ہے۔ قرائن سے لگتا ہے کہ جماعت قائم تو بہر حال رہے گی کیونکہ اثاثے اتنے زیادہ ہیں کہ ان کے گرد بہت سے اکٹھے رہ سکتے ہیں لیکن سیاسی میدان میں جماعت اسلامی کے آپشنز بہت محدود ہیں۔
مضمون کیسے لکھا جائے؟
مضمون کیسے لکھا جائے؟ بطور مڈل اسکول، ہائی اسکول یا پھرکالج اسٹوڈنٹ ہر کسی کا واسطہ ایک نہیں بلکہ بیشترمرتبہ...