ہمارے دانشوردوست فرخ سہیل گوئندی نے سوال اٹھایا ہے کہ جماعت اسلامی ہند سیکولرازم کو بھارتی مسلمانوں کے حقوق کی ضمانت سمجھتی ہے جب کہ جماعت اسلامی پاکستان سیکولرازم کو ملحدانہ نظام قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت پر ہمہ وقت کمر بستہ ہے آخر اسکی کیا وجہ ہے ؟ ایسی بات نہیں کہ فرخ اس تضاد کے محرکات کو نہیں سمجھتے یا انھیں یہ نہیں معلوم کہ جماعت ایسا کیوں کرتی ہے کہ ایک ملک میں سیکولرازم کی ہمنوائی اوردوسرے ملک میں سیکولرازم کی مخالفت اور وہ بھی سر توڑ۔فرخ کا تعلق داشوروں سے اس گروہ ہے جو سیاست ، سماج اور نظریات کے باہمی تعلق اور ان کی ڈائنامکس سے بخوبی واقف ہے۔ ایک ایسا گروہ جوبظاہر نظر آنے والے پراسس کے پس پشت مصروف کارعوامل پر گہری نظر رکھتا ہے۔ فرخ دراصل چاہتے یہ ہیں کہ بھارت اور پاکستان میں جماعت اسلامی کے نظریاتی تضاد کو نہ صرف اجاگر کیا جائے بلکہ یہ بھی آشکارا ہو کہ مشترکہ مذہبی عقائد کے باوجودقومی ریاستوں کی حدود میں رہتے ہوئے سیاست کرنے والی مذہبی جماعتیں اپنے اپنے جغرافیئے، مادی ومعاشی حالات اورسیاسی صورت حال کی تابع رہ کر اپنی سیاسی حکمت عملی وضح کرتی ہیں۔
جماعت اسلامی اس وقت تین ممالک پاکستان،بھارت اور بنگلہ دیش اور پاکستان کے زیر انتطام کشمیر اور بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں منظم و متحرک ہے۔ پاکستان کی جماعت اسلامی کا دعوی ہے کہ جماعت اسلامی کے نطریہ دان اور بانی کی تحریریں ہی تھیں جنھوں نے قیام پاکستان کی راہ ہموار کی تھی اور بعد ازاں یہ جماعت اسلامی کی قیادت ہی تھی جس کی پیہم جدو جہد کی بدولت پاکستان سیکولرازم کی راہ پر چلنے کی بجائے اسلام کے دامن سے وابستہ رہا حالانکہ مسلم لیگ ہو یا اس کی قیادت پر اسلامی فکر و نظر سے عاری تھی۔ اس کے برعکس جماعت اسلامی مولانا مودودی کی شخصیت کا وہ پہلو اجاگر کرتی ہے جو تحریک اور قیام پاکستان کے مخالف کا ہے۔ وہ کہتی ہے کہ مولانا مودودی نے قیام پاکستان کو درندے کی پیدائش سے تشبیہ دی تھی۔ جماعت اسلامی ہند کے مطابق ان کی جماعت روز اول سے قیام پاکستان کے خلاف تھی۔ جماعت اسلامی ہند سیکولر ڈیموکریٹک فرنٹ بناتی ہے اور بھارت کے مسلمانوں کو سیکولر ازم کے بھرپور دفاع کی تلقین کرتی ہے۔ جماعت اسلامی ہند مودی کو بھارت کے مسلمانوں کا خیرخواہ بتاتی ہے جب کہ جماعت اسلامی پاکستان مودی کو مسلمانوں کا قاتل اور دشمن گردانتی ہے۔جماعت اسلامی ہند بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں علیحدگی کی تحریک کو تحریک آزادی کے بجائے محض شور وغوغا قرار دیتی اور اسے بھارت کے مسلمانوں کے وسیع ترمفادات سے متصادم قرار دیتی ہے۔ اس کے برعکس جماعت اسلامی پاکستان کشمیر کی آزادی کو تکمیل پاکستان کی جدوجہد قرار دیتی اور اس کے لئے جہاد کرنے کو عین اسلام قرار دیتی ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان نے بے نظیر کے اقتدار کو عورت کی حکمرانی قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کی تھی جب کہ بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی خالدہ ضیا کی روز اول سے حمایتی اور اس کی کولیشن پارٹنر رہی ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان کا موقف ہے کہ بنگلہ دیشں کا قیام بھارت کے ہندووں کی سازش تھی جب کہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی موجودہ قیادت اس کو لبریشن سٹرگل کہتی اورتسلیم کرتی ہے اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی وہ قیادت جس نے بنگلہ دیش کی تحریک آزادی کی مخالفت کی تھی اس کی مذمت کرتی ہے۔ بھارتی کشمیر کی جماعت اسلامی جماعت اسلامی ہند سے کسی قسم کے تنظیمی روابط رکھنے کی روادار نہیں ہے۔ وہ پاکستان میں مصروف کار جہادی کمانڈر سید صلاح الدین کو بالکل اون نہیں کرتی بلکہ اس نےکئی سال ہوئے گیلانی کو اپنی صفوں سے نکال دیا ہوا ہے گو جماعت اسلامی پاکستان انھیں اب بھی جماعت اسلامی کشمیر کا رہنما قرار دے کر یہاں پرموٹ کرتی ہے۔ بھارتی کشمیر کی جماعت اسلامی تحریک آزادی کشمیر میں بالکل متحرک نہیں ہے بلکہ وہ اقامت دین کا فریضہ سرانجام دینے میں مصروف کار ہے۔
پاکستانی کشمیر کی جماعت اسلامی ن لیگ کی کولیشن پارٹنر ہے جب کہ جماعت اسلامی پاکستان ن لیگ کی مخالفت میں پیش پیش ہے اور اس کی کرپشن کے خلاف جلسے جلوس اورریلیاں کرتی ہے۔
کچھ کہہ سکتے ہیں کہ مختلف ممالک میں جماعت اسلامی کی سیاسی حکمت عملی میں پائے جانے والے تضادات قدرتی ہیں کیونکہ ہر ملک کی اپنی مخصوص سیاسی صورت حال اور سیاسی تقاضے ہیں بات بالکل درست ہے کہ کوئی نظریہ خواہ اس کے پیروکار اس جتنا مرضی بین الاقوامی ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہ اپنے جغرافیہ، معاشی و سماجی صورت حال کے تابع ہوتا ہے۔ دنیا میں اسلام کے پیروکاروں کی عبادات ایک جسی ہوسکتی ہیں لیکن ان کے معاملات مختلف ہوں گے۔میرے نزدیک تو پنجاب کی جماعت اسلامی اور خیبر پختون خواہ کی جماعت اسلامی بھی بہت سے حوالوں سے ایک دوسرے سے مختلف اور متضاد ہیں۔جماعت اسلامی کوئی پٹھان لیڈر یہ جرات نہیں کرسکتا کہ خیرپختون خواہ میں پختون عوام سے اردو میں خطاب کرئے حتی کہ لالہ سراج الحق پختونوں سے جہاں بھی ملتا ہے اس کی اولین ترجیح پشتو زبان میں بات کرنا ہوتی ہے اس کے برعکس جماعت اسلامی کے پنجابی لیڈروں کو اردو کا بخار چڑھا رہتا ہے اور وہ کبھی بھول کر بھی پنجابی نہیں بولتے۔ دراصل پختون اپنی زبان کے بارے میں حساس ہیں وہ اردو کو ثانوی حیثیت دیتے ہیں اس لئے جماعت اسلامی ان کی اس حساسیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے پشتو کو ترجیح دیتی ہے جب کہ پنجابیوں نے اپنی زبان و ادب کو تیاگ دیا ہوا ہے اس لئے جماعت اسلامی کی پنجابی قیادت اردو کی گود میں بیٹھنے کو ترجیح دیتی ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...