دائیں ہاتھ کی آخری انگلیوں میں سگریٹ دبائے، بند مٹھی سے کش لگاتا وہ گھر کی طرف جا رہا تھا. گرمی کہتی تھی کہ میں آج ہی دوزخ سے نکلی ہوں. گلیاں چپ تھیں، کتے دیواروں کی چھاؤں میں آدھ موئے پڑے تھے. گھر کے دروازے کی کنڈی جیسے ابھی ابھی لوھار کے ہاں سے نکلی تھی. کنڈی بجانے پہ ثریا نے دروازہ کھولا اور پھر اس کے پیچھے دروازہ کو کنڈی لگا کے چھوٹا سا صحن پار کرتے برآمدے سے کمرے میں جا رکے. پنکھا چل رہا تھا اور وہ سر پہ باندھے کپڑے کو اتار کے چارپائی پہ ڈھے سا گیا. ثریا چھابڑی میں دو روٹیاں، ایک پلیٹ میں کھکڑی اور بڑے مگ میں لسی لے آئی. ساتھ والے کمرے میں ناہید اور رفاقت ، کالج اور سکول سے آنے کے بعد سو رہے تھے. سارا گاؤں ہی سو رہا تھا مگر وہ روٹی کا نوالہ منہ میں ڈالتے اور ساتھ کھکڑی کھاتے کسی حساب کتاب میں گم تھا
سب اسے استاد حسابی کہتے تھے گو کہ نام اس کا شوکت علی تھا. وجہ تسمیہ یہ تھی کہ وہ زندگی کا ہر چھوٹا بڑا کام بہت ناپ تول کے اور حساب کتاب لگا کے کرتا تھا. پڑھا لکھا وہ تھا نہیں مگر جوانی کے پہلے سال کنڈکٹری کرتے اور پھر آدھی سے زیادہ عمر ویگن کی ڈرائیوری کرتے وہ کافی سیانا ہو چکا تھا. اپنی ویگن ڈالتے بھی اس نے اِیچی بِیچی کا حساب لگایا تھا
اور آج….. آج اس کے حسابوں پہ عذاب اترے تھے
آج دن میں جب وہ شہر سے گاؤں کا روٹ لگانے کے بعد، اپنے کنڈکٹر جُورے کے ساتھ خالی گاڑی لے کے شہر کی طرف جا رہا تھا تو گاؤں سے باھر وہ پیشاب کرنے کے لیے کھڑی فصلوں می گھسا اور کچھ دور کھیتوں میں اسے ایک لڑکی اور لڑکا ایک دوسرے کی بانہوں میں گھسے نظر آئے. وہ تجسس میں دبـے پاؤں کچھ اور آگے بڑھتا گیا اور پھر اس کے پاؤں جیسے کسی بلا نے جھکڑ لیـے. وہ ناہید تھی، اسی کی بیٹی اور وہ لڑکا گاؤں کا سب سے لوفر اور بدمعاش لڑکا آصف تھا. دوپٹہ اور بیگ زمین پہ پڑے تھے اور آصف کے ہاتھ ناہید کے جسم پہ کہیں رک نہیں رہے تھے
وہ زمین میں گھڑا کھڑا تھا،آنکھیں دھندلا رہی تھیں، اس نے کندھے سے چادر اتاری آنکھیں صاف کیں اور بھاری قدموں سے واپس گاڑی کی طرف مڑ گیا
ثریا نے برتن اٹھائے اور وہ سر پہ چادر باندھتے صحن پار کر گیا. باقی کا سارا دن وہ گاڑی چلاتا رہا اور ذہن میں آندھیاں چلتی رہیں کہ چھوٹا سا گاؤں ہے، سارے گھروں کی چھتیں ایک دوسرے سے سر جوڑے کھڑی ریتی ہیں، چھوٹی سے چھوٹی بات بھی یوں لمحوں میں چھتیں پھلانگ جاتی ہے، ناہید والی بات جانے کس کس تک پہنچے گی، جانے کس کس تک پہنچ بھی چکی ہو.. اور آصف ،وہ تو سب دوستوں کو چسکے لگا لگا کے سنا رہا ہو گا.. سگریٹ انگلیوں میں دبتے رہے اور راکھ ہوتے رہے اور شام آٹھ بجے تک وہ گاڑی چوہدری رحم دین کے ڈیرے پہ کھڑی کر چکا تھا. ڈیرے پہ بھینسیں تھیں، چوہدری کے ٹریکٹر تھے گاڑیاں تھیں اور رکھوالی کے لیے دو کتے بھی تھے، سو گلی میں کھڑی کرنے کے بجائے استاد حسابی ڈیرے پہ ویگن کھڑی کرتا تھا
وہ بند مٹھی میں سگریٹ کے دھواں کھینچے اور ایک ہاتھ میں برفی کا شاپر لیے گھر گھسا ناہید کی تو جیسے جان برفی میں بند رہتی تھی .. ناہید نے برفی دیکھی تو لپک کے آئی اور شاپر اس کے ہاتھ سے لے کے اچھلتی رسوئی کی طرف چل پڑی. اس نے نلکے پہ جا کے پہلے مٹی سے اٹے جوتے اور پیر دھوئے، پھر ٹھنڈے پانی سے منہ دھویا اور گیلے ہاتھ آدھے گنجے سر پھیرے تو سر کو کچھ سکون ملا. چارپائی پہ بیٹھا اور ناہید روٹی سالن لے کے آ گئی. حسب معمول ناہید کھانا رکھنے کے بعد اس کے سر اور کندھے دبانے لگی. لقمے اس کے حلق میں اٹک رہے تھے. ناہید اس کی پہلی اولاد تھی، رفاقت ناہید سے چھے سال چھوٹا تھا اور وہ چھوٹی سی تھی تب سے وہ ہر شام اس کے گھر آنے پہ اپنے چھوٹے چھوٹے نرم ہاتھوں سے اس کا سر دباتی اور وہ کھانا کھاتا، وہ ناہید کو اپنی جمع پونجی کہتا تھا
صحن میں چار چارپائیاں پڑی تھیں، درمیان میں ثریا اور رفاقت کی چارپائیاں تھیں جبکہ مشرق میں استاد حسابی اور مغرب کی طرف ناہید سوئی ہوئی تھی. چاند کہیں نہیں تھا اور کالے آسمان پہ تارے ہی تارے تھے. استاد حسابی سیدھا لیٹا تاروں کو گھورتا کسی حساب میں گم تھا. رات گہری ہو چکی تھی اور سونے والوں کی نیندیں بھی گہری تھیں
وہ حساب کتاب لگا چکا تو بـے آواز اٹھا، پائنتی پہ پڑی چارد کو لپیٹ کے رسی سی بنا لی اور دبـے پاؤں ناہید کی چارپائی کی طرف چلا. ناہید بائیں طرف لیٹی ، بایاں بازو سر کے نیچے دیـے، سو رہی تھی.. اس نے رسی بنی چادر اس کی ٹانگوں کے اوپر سے ڈال کے چارپائی کے گرد گرہ لگا کے باندھ دی. پھر دبـے پاؤں اپنے بستر سے سرھانا اٹھایا اور اسے ناھید کے منہ پہ رکھتے ہوئے اس پہ اپنا سارا وزن ڈال کے ڈھے گیا. ناہید اس کے وزن کے نیچے اور بندھی ٹانگوں کے ساتھ زیادہ ہل جل بھی نہ سکی، بس مدھم سی غر غر کی آوازیں نکلتی رہیں اور پھر وہ بھی بند ہو گئیں. وہ ناہید کے اوپر سے اٹھا اور سرھانا بغل میں دبایا، بندھی ٹانگیں کھولیں اور رسی لے کے اپنی چارپائی کے پاس پہنچا. اس نے پلٹ کے ناہید کی طرف دیکھا اور پھر سرھانا اور چادر رکھ کے واپس ناہید کی طرف گیا، اس کی قمیص درست کی اور اس پہ چادر دے کے اپنی چارپائی پہ اس رسی کو چادر بنا کے لیٹ گیا
وہ تاروں کو گھورتا گھورتا غنودگی میں گیا ہی تھا کہ ہڑبڑا کے اٹھ بیٹھا
اس نے ناہید کی سانسیں بند کرنے کے سب حساب کتاب کر لیـے تھے مگر آگے کی پریشانی نے اس کے ماتھے پہ پسینہ چھوڑ دیا تھا کہ صبح جنازے پہ، پھر گھر افسوس پہ آنے والوں کے لیے، پھر ناہید کے قل، پھر چار جمعراتوں کے ختم اور چالیسویں تک، اس کی ساری جمع پونجی ختم ہو جانی ہے بلکہ بات ادھار مانگنے پہ جا پہنچے گی