جام ساقی، میرا دوست
5 مارچ کی صبح مجھے احمر عزیزی کا پیغام ملتا ہے کہ جام ساقی حیدرآباد میں انتقال کر گئے۔ بس اوہو کہا، بیوی نےروسی زبان میں پوچھا کہ کیا ہوا، میں نے بتایا کہ میرا دوست مر گیا۔ پھر اسے یاد دلایا کہ وہی وزیر (تب مجھے مشیر کی روسی نہیں آتی تھی، اسے یہی کہا تھا کہ چلو تمہیں اپنے ایک وزیر دوست سے ملاتا ہوں۔ جب اسے اطلاع ملی تھی تو وہ وہ سیڑھیاں کودتا ہوا دس قدم دور آ کر مجھے بانہوں میں لے چکا تھا۔ بیوی نے حیران ہو کر کہا تھا،"تمہارے وزیر تو بہت اچھے ہوتے ہیں" ) جس سے تم کراچی میں ملی تھیں۔ اس نے مجھے تسلی دینے کو حقیقت کہی،" ہماری عمر ہی ایسی ہے، اب تو اپنوں کے متعلق ایسے ہی پیغام ملتے ہیں"۔
ایک بار پھر یاد کرتا ہوں۔۔۔۔ ڈسٹرکٹ جیل ملتان کا ہسپتال، جہاں مجھے میری مرضی کے خلاف، کسی کی سفارش پر، زبردستی قید تنہائی سے نکال کر داخل کیا گیا تھا۔ بیڈ نہ ہونے کی وجہ سے زمین پر گدا ڈال کے اس پر ہسپتال کی سفید چادر بچھا دی گئی تھی۔ میں تکیے کا سہارا لے کر کسی کتاب میں مگن تھا کہ کسی کی بھاری آواز سنائی دی تھی جیسے کوئی کسی کو سمجھا یا ڈانٹ رہا ہو۔ آنکھ اٹھا کر دیکھا تو ہسپتال کے ایک خالی بیڈ کے کنارے پر موٹی عینک لگائے، گاڑھے کے شلوکے اور اٹنگی دھوتی میں ملبوس ایک بڑا سا شخص بیٹھا، آٹھ نو سال کے ایک بچے کو پڑھا رہا تھا۔ آدمی تو ظاہر ہے قیدی ہی تھا، یہ بچہ کہاں سے آیا؟ میں نے سوچا تھا۔ تھوڑی دیر میں اس شخص نے بچے کو آموختہ یاد کرنے کو کہا اور میرے پاس آ کر بڑے ادب سے بولا،" کیا میں آپ کی کتابیں دیکھ سکتا ہوں"۔ میں نے بیٹھے بیٹھے ایک کتاب یا رسالہ جو بھی تھا اسے دے دیا۔ گم نہ ہو جانے سے بچانے کی خاطر اس پر میرا نام تحریرتھا، جس سے متعلق مجھے یاد نہیں رہا تھا۔
اس شخص نے صفحہ پلٹتے ہی جھک کر میری بغلوں میں ہاتھ ڈال کر اٹھاتے ہوئے، بلند آواز میں " ارے کامریڈ " کہتے ہوئے مجھے گلے لگا لیا تھا۔ میں پریشان ہو گیا تھا کہ یہ شخص کون ہے۔ اس نے اپنا نام جام ساقی بتایا تھا، جس کئے بارے میں اخبارات میں پڑھا ہوا تھا کہ اسے ملک دشمنی اور غداری کی پاداش میں محبوس کیا ہوا ہے۔ اس نے مجھے میرے نام سے بقول اس کے یوں پہچانا تھا کہ پولیس کے ہاتھوں میری زبردست پٹائی کی تصویریں اس نے اخبار میں دیکھی تھیں اور میری گرفتاری سے متعلق پڑھا تھا۔
تو یوں جام ساقی سے میری جیل میں دوستی ہوئی تھی۔ اس نے مجھے بتایا تھا کہ کامریڈ یہ دھوتی اور شلوکے کا کپڑا میں نے خود، جیل کی مشقت گاہ میں کھڈی پر بنا ہے۔ دھوتی اس قدر مختصر تھی کہ اکثر ستر کھلنے کا خدشہ رہتا تھا۔ جام ساقی روز سہ پہر کو میرے پاس آتا، دھوتی کی ڈب سے کبھی ایک کبھی دو بگلے سگریٹ کے پیکٹ نکال کر مجھے دیتا، یہ سگریٹ اسے قیدی کی حیثیت سے ملتے تھے۔ میں حوالاتی تھا۔ پھر میں اور وہ مولوی اسلم کی ایک کوٹھڑی میں بیٹھ کر کبھی بحثیں کرتے، کبھی گپ لگاتے۔ مولوی اسلم وہ مذہبی جنونی فرد تھا جس نے قادیانی وزیر ایم ایم احمد کو چھری مار دی تھی۔ اسے جیل والوں نے دو کوٹھڑیاں دی ہوئی تھیں۔ ایک رہنے سونے کو، ایک مذہبی کتابیں رکھنے اور ان کے مطالعے کی خاطر۔ مولوی بھی جام ساقی کا دوست تھا۔ ویسے جیل میں سب اس کے دوست تھے۔ یہ سال غالبا" 1972 تھا۔
وقت گذرتا چلا گیا۔ 1980 کا اواخر آ گیا۔ میں تب تک کمیونسٹ پارٹی کا رکن بن چکا تھا۔ تب میں مریدکے میں رہتا تھا۔ جام ساقی کو دورے پر لاہور آنا تھا۔ ہم اتنے عرصے بعد ملے جب ہم واقعی ایک دوسرے کے کامریڈ بن چکے تھے۔ مگر ہم پرانے دوستوں کی حیثیت سے ملے۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے مل کر بے حد خوش ہوئے تھے۔ میں اسے اپنی گاڑی میں لیے لیے پھرا تھا۔ اس کا قیام بھی میرے ہاں رہا تھا۔ ان تین دنوں میں ہم نے بہت گپ لگائی تھی۔ نظریے پر کیا بات کرتے، اس پر تو متفق تھے ہی۔
پھر کراچی میں کمیونسٹ پارٹی کی کانگریس تھی۔ یہ کانگریس شہر سے دور ایک کھیت میں تنبو قناتیں لگا کر کی جا رہی تھی۔ پارٹی میں سوویت یونین میں جاری پیرسترائیکا کے حامی اور پیرسترائیکا کے مخالف افراد میں بٹ جانے کا خدشہ تھا۔ میں پیرسترائکا کا بہت حامی رہا تھا۔ تقریروں کے دوران بیٹھا بھی پارٹی کے جنرل سیکرٹری امام علی نازش کے ساتھ رہا تھا۔ انہیں یقین تھا کہ میں ان کی حمایت کروں گا۔ مگر میں روشن خیالی کے دعویدار رہنے کے باوجود کئی معاملات میں فیوڈل اقدار کا حامی ہوں جن میں حسب مراتب اور دوستی دو اہم چیزیں ہیں۔ کامریڈ شپ میں تو لینن ہو یا سٹالن، بادشاہوں کی طرح اپنے مخالفوں سے جان چھڑاتے رہے مگر میں جام ساقی کا کامریڈ ہی نہیں بلکہ دوست بھی تھا چنانچہ جب اکثریت نے جام ساقی کا ساتھ دیا جس کی سوچ سے میں اتنا ہم آہنگ نہیں تھا تو میں نے بھی جام ساقی کا ہی ساتھ دیا تھا۔ اس پر اقلیت کا ایک دوست جن کا نام لینا مناسب نہیں، تب مجھ سے شدید ناراحت ہوا تھا جس کا اظہار وہ اب بھی کرتا رہتا ہے۔ اگرچہ اب نہ تو وہ وہ رہا نہ ہی میں وہ رہا۔
جام ساقی ایک بار بھابی بچوں کے ساتھ آ کر ہمارے ہاں مقیم رہا تھا۔ پھر اور بہت سا عرصہ گذر گیا۔ اس کو ہوئے فالج کی اطلاع ملی مگر رابطہ نہیں تھا۔ بھلا ہو فیس بک کا کہ جام کی اہلیہ سے رابطہ ہوا۔ گذشتہ برس کراچی میں تھا۔ بخار سے پھنک رہا تھا لیکن مجھے جام سے ملنے جانا تھا۔ حسین سومرو کراچی سے اپنی گاڑی میں حیدرآباد لے گیا۔ رات اس کے ہاں ٹھہرا اور صبح ہم جام کے گھر تھے۔ جام ظاہر پے اب نیم مفلوج تھا۔ سہارے کے بغیر ٹانگیں لٹکا کے بیٹھ تو سکتا تھا مگر کھڑا نہیں ہو سکتا تھا۔ اب وہ ناستلجک ہو گیا تھا۔ اپنے زندہ بچ رہنے کو اپنی ہمت اور طاقت کا معجزہ خیال کرتا تھا۔ اس نے کم سے کم دو بار باور کرایا کہ اس کو بائیں جانب کا فالج ہوا تھا جس کا دل پر اثر ہوتا ہے۔ ڈاکٹروں نے بقول اس کے، اسے کہا تھا کہ ایسے فالج سے دس لاکھ میں سے ایک جانبر ہوتا ہے مگر اس کے دل کی طاقت تھی جس نے اسے ایک بار نہیں بلکہ فالج کے دو بار کے حملوں سے بچنے میں مدد دی۔
اللہ فالج سے سب کو بچائے۔ انسان دوسروں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ بھابی سکول میں ٹیچر تھیں اور بچے تو چاہے جتنے بڑے بھی ہوں، بچے ہوتے ہیں۔ میں اس کے کمرے کی ہائیجین سے مطمئن نہیں ہوا تھا۔ وہ کبھی گہری سوچ میں ڈوب جاتا۔ کبھی بھڑک کر خوش مزاج ہو جاتا۔ ایسے ہی ایک وقفے میں اس نے حسین سے کہا تھا،" مجاہد سے میری دوستی نہیں، مجاہد سے میرا عشق ہے، مجاہد میرا معشوق ہے"۔۔۔ یہ فقرہ تعلق کی گہرائی کا اظہار تھا۔
اسے اپنے بارے میں احمد سلیم اور نذہت عباس کی مرتب کردہ کتاب کا انتظار تھا۔ اس کا اس نے دو گھنٹے کی ملاقات میں کئی بار ذکر کیا۔ مجھے افسوس ہو رہا تھا کہ جام ساقی کتنا محدود ہو گیا ہے مگر میں نے اپنے کسی تاثر یا کسی بات سے اس کا اظہار نہیں ہونے دیا تھا۔ جام ساقی مفلوج تھا مگر بہت سوں کی طرح زندہ درگور نہیں تھا البتہ خاصا بجھ چکا تھا۔ وہ کوہ گراں تھا، جو رک چکا تھا مگر جاں سے گذرنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ مزاحمت کار تھا۔ اس نے موت کے خلاف بہت دیر تک مزاحمت کی مگر:
موت سے کس کو رست گاری ہے
آج تم ، کل ہماری باری ہے
عاصمہ جہانگیر فون پر بات کرتے ہوئے منجمد ہو گئیں۔ سری دیوی شادی خوشی سے بھگتا کر چپکے سے ڈوب گئیں مگر جام چند ہفتوں سے خاصا علیل تھا۔ ٹھیک ہونے لگا تھا، اس لیے سنا ہے گھر آ گیا تھا مگر موت تو پیچھا نہیں چھوڑتی۔ اسے لے گئی۔
سوویت یونین کے انہدام نے مخلص لوگوں کو زمین بوس کر دیا تھا۔ چاہے وہ لاکھ کہتے رہے کہ کوئی بات نہیں کامریڈ، تاریخی جبر ہے۔ جدلیات ہے مگر ان کا اخلاص انہیں اندر سے کھاتا رہا۔ وہ جو تب بھی موقع پرست تھے اور آج بھی موقع پرست ہیں وہاں بھی سربرآوردہ اور خوش تھے اور اب بھی سربرآوردہ اور خوش ہیں۔ ٹوٹے تو اعزاز نذیر، عزیز احمد، ملک انور اور جام ساقی جیسے لوگ۔ کوئی بات نہیں انہوں نے بہت سوں کو سکھایا کہ ظلم، ناانصافی، عدم مساوات کے خلاف لڑنا چاہیے۔ مرنے سے تو کوئی نہیں بچتا اب جوانوں کی باری ہے کہ اس شمع کو گرنے نہ دیں، اٹھائیں اور آگے کی جانب بھاگیں، بہت سوں کو اپنے ساتھ لے کر۔ یہی جام ساقی اور اس جیسے بہت سے دوسروں کی حیات نو ہوگی۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔