جلسے اور کمرشل میڈیا
کل 22 اکتوبر کو چار بڑی پارٹیوں نے جلسوں کا انعقاد کیا۔ پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی نے پشاور، جماعت اسلامی نے لاھور اور تحریک انصاف نے سیہون شریف، سندھ میں جلسوں کا انعقاد کیا۔ تقریبا تمام میڈیا نے ان کو لائیو بھی دکھایا اور بعد ازاں خبروں میں بھی نشر کیا۔ آج کے تمام اخبارات کے فرنٹ صفحات ان چاروں جلسوں میں راھنماؤں کے خطابات سے بھرے پڑے ہیں۔
اس قسم کے جلسے منظم کرنا آج ایک بڑی کمرشل سرگرمی بن چکا ہے۔ ان پر کروڑوں روپے کا خرچہ ہوتا ہے۔ سب سے اہم بات جو جلسہ منظم کرنے والی پارٹی سوچتی ہے وہ یہ کہ اسے میڈیا پر کسطرح پیش کرنا ہے؟
کل جماعت اسلامی کے لاھور کے جلسے میں کرسیاں کم از کم دس دس فٹ دور کی قطاروں میں لگائی گئی تھیں۔ اس کا مقصد تھا کہ جب میڈیا اس جلسے کی کوریج کرے گا تو ایک بڑا جلسہ نظرآئے۔ یعنی اتنے بندے نہ ہوں جتنا میڈیا دکھا رھا ہو۔ یہ عوام کو دھوکہ دینے کی ایک حکمت عملی ہے کہ آپ وہ دکھائی دیں جو آپ نہیں ہیں۔
یہ سلسلہ تحریک انصاف نے شروع کیا تھا۔ وہ جلسوں کو اس طرح میڈیا میں پیش کرنے کی سٹریٹیجی اختیار کرتے تھے کہ کرسیاں بھی دور دور ہوں، سٹیج مہنگے ترین بنیں، عوام کو جلسوں میں لانے کا پورا بندوبست ہو، جلسہ ایک شہر کا بھی تو تمام صوبے کو موبیلائز کرنا ہے۔ میڈیا کوریج کےخصوصی انتظامات ہوں۔ شہر کے ہر کھمبے پراور سرکاری اورغیرسرکاری عمارت پر سینکڑوں بینر اور جھنڈے کمرشل بنیادوں پر لگائے جائیں۔ ساونڈ سسٹم وہ ہو جو پورے علاقے کو سنائی دے، خصوصی طور پر ان افراد کو بک کیا جائے جو ڈی جے ہوں اور موسیقی کی محفلوں کے ایکسپرٹ ہوں چاھے انہیں لاکھوں میں کیوں نہ بک کرنا پڑے۔
مرکزی لیڈر کی تقریر کے دوران اسے سانس لینے کا موقع دینے کے لئے درمیان میں خاص گانے یا میوزک چلایا جائے تا کہ لوگ پیغام پرغور نہ کریں بلکہ میوزک میں مست رھیں، جلسوں کو محفل موسیقی بنانے کی پوری جستجو کی جاتی ہو۔ مشہور گلوکاروں کو جلسوں میں گانے کے لئے بلانا ایک لازمی جزو بن گیا۔
ماضی میں بڑے جلسوں میں شاعر اپنے ریڈیکل پیغام کے زریعے عوام کو شعور دیتے تھے اور عوامی مسائل کو عوامی شاعری میں اجاگر کرتے تھے۔ اب شاعروں کی جگہ گلوکاروں نے لے لی ہے جو شعور کی بجائے لفنگ پن پرموٹ کرتے ہیں۔ شاعروں کی چھٹی اور گلوکاروں اور ڈی جے کی آمد ہو گئی ہے۔ اس قسم کے جلسوں نے مشاعروں اور صوفی محفلوں کی جگہ لے لی ہے۔
میڈیا کی لائیوکوریج بھی جلسوں پر اٹھنے والے اخراجات کا ایک اہم حصہ ہے۔ پرائیویٹ ٹی وی چینلز کو مختلف طریقوں سے نوازا جاتا ہے، ان کو اپنی بڑی کمپنیوں کے اشتہارات کے علاوہ براہ راست بھی بک کیا جاتا ہے۔ زیادہ تو اینکرز حضرات کی تو چاندی ہو گئی ہے۔ وہ یا تو ان جلسوں میں خودشریک ہوتے ہیں یا پھر وہ ان جلسوں پر تبصروں کے ذریعے جلسوں کے منتظمین سے ملنےوالی مراعات کو جائز ثابت کرتے ہیں۔ جو نقد بھی ہو سکتی ہے یا پلاٹ، کار، فارن ٹور اور دیگر مراعات کی صورت بھی۔
میڈیا کے کیمرہ مین جو بھی کریں اندر سے اڈیٹنگ اس طرح کی ہوتی ہے کہ سینکڑوں، ہزاروں نظر ائیں اور ھزاروں، لاکھوں بن جائیں۔
جلسوں کے منتظمین جلسوں میں عوامی شرکت کی تعداد کو بڑھا چڑھا کرپیش کرتے ہیں۔ پانچ ھزار کرسی لگی ہو اور دور دور لگی ہو تو تو کہتے ہیں کہ بیس ہزار تو کرسی لگی ہے۔ بیس ہزار تو آرام سے پچاس ہزار بن جاتی ہے۔ میڈیا تو کبھی بھی اپنے اندازے نہیں لگاتے وہ تو منتظمین کے بڑھا چڑھا کر پیش کئے دعووں کو نشر اور پرنٹ کرتے ہیں۔ اگر کسی اخبار نویس نے حقیقی تعداد لکھنے کی جرات کر بھی لی تو اس کو دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ اور خبردار کیا جاتا ہے۔
یہ دھوکہ دھی اور جھوٹ ہے کہ آپ کے جلسے میں دس ہزارسے بھی کم لوگ آئیں اور آپ یہ لکھ کر اخباروں اور میڈیا کو دیں کہ ایک لاکھ سے زیادہ افراد نے شرکت کی ہے۔ اندازے میں ایک دو ھزار کا نہیں ھزاروں کافرق شعوری دھوکہ دھی پر مبنی ہوتا ہے۔ اپنے جلسے سے ہی آپ جھوٹ اور دھوکہ دھی کا آغاز کر دیتے ہیں، سیاسی اخلاقیات کا جنازہ تو یہیں سے اٹھنا شروع ہوتا ہے۔
کمرشل الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کے ایڈیٹر حضرات تو اکثر اوقات بیلنس کرنے کے چکروں میں رھتے ہیں۔ فرنٹ صفحے پر پیپلز پارٹی چھپےگی اور مسلم لیگ ن بھی، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی بھی۔ فوجی اداروں کی پریس ریلیزیں اور بیانات تو فرنٹ صفحات کے علاوہ کوئی اور جگہ پا ہی نہیں سکتے۔ اب تو ان کا بھی تقریبا روزانہ بیان ہوتا ہے۔ یہی صورحال سیاسی ٹی وی پروگراموں اور بحثوں پر مبنی پروگراموں کی ہے۔ حکومت، اپوزیشن اور ایک "دفاعی" تجزیہ کار تو لازمی ہے۔ چوتھا کوئی مولوی ہوتا ہے۔ ویسے تو مولویوں کے نقطہ نظر کو تقریبا تمام بڑی سیاسی جماعتیں ان سے بہتر ہی پیش کر رھی ہوتی ہیں۔
بڑے جلسوں کی یہ کیمسٹری اب بہت مہنگی ہو گئی ہے۔ یہ اب ارب پتیوں کا کھیل بن گیا ہے۔ ٹریڈ یونینوں، کسانوں مزارعوں اور سماجی تحریکوں کی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ مگر کمرشل میڈیا کو نظر نہیں آتیں۔ کہتے ہیں یہ بکتا نہیں، تعداد کم ہے، عمران کے دھرنے میں بعض اوقات وہ بیس تیس کو ہی ابتدا میں اور بعض اوقات کرسیوں کوخطاب کرتےبھی اس طرح دکھایا جاتا کہ کیمرہ صرف ان پر ہی رھتا اور ان کی ہی تقریر جاری رھتی۔ وہ ہی پورے پاکستان اور دنیا کو دکھائے جاتے۔ یہ سلوک کبھی محنت کش طبقات کی تنظیموں کی طرف نہیں ہوتا۔ حتی کہ فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کی خبریں اخباروں میں کم ہی دکھائی دیتی ہیں۔
یہ وہ برا وقت ہے کہ اخباروں کے باھر والے صفحات بڑی پارٹیوں اور وزیر اعظم، وزیر اعلی اور وزیروں کے بیانات سے بھرے ہوتے اور اندر والے صفحات مولویوں کے بیانات یا دھمکیوں سے، مزدور طبقات اور انکی تنظیمیں اخباروں اور ٹی وی سے شعوری طور پر دور کر دی گئی ہیں۔ دکھاوے کے لئے یوم مئی پر مزدور اور انکے نمائندے ان میں سے بعض کو یاد آجاتے ہیں۔
اسی کو ہم کہتے ہیں کہ ایک رد انقلابی دور جاری ہے، دائیں بازو کی جماعتیں اور مذھبی تنظیمیں جلسے جلوسوں اور میڈیا پر چھائی ہوئی ہیں۔ بائیں بازو اور محنت کش طبقات اس دوڑ سے تقریبا باھر ہیں اور شعوری طور پر انہیں باھر کر دیا گیا ہے۔
لیکن وقت اور حالات بدلتے زیادہ ٹائم نہیں لگتا۔ آج ہمارا ٹائم نہیں تو کیا، یہ آئے گا اور پھر جلسے جلوسوں اور میڈیا کوریج کے لئے پیسے کی طاقت نہیں حقیقی انسانی طاقت حاوی ہوگی۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔