ہندوستانی عوام نے انگریزوںکے ظلم و بربریت سے نجات پانے کے لئے حصول آزادی کی کوششیں شروع کیں تو برٹش حکومت نے رولٹ ایکٹ پاس کیا کہ جس کے تحت کسی بھی شخص کوشک کی بنیاد پر بھی گرفتار کیا جا سکتا تھا اور اس پر مقدمہ چلا کر سزا دی جا سکتی تھی ۔اس رولٹ ایکٹ کی بھرپور مخالفت کی گئی لیکن 21 مارچ 1919کوقانون کو نافذ کر دیا گیا۔اس قانون کے نفاذ کی اطلاع ملتے ہی مہاتما گاندھی نے پورے ملک میں 30مارچ کو احتجاج کرنے کا اعلان کر دیا بعد میں بعض ناگزیر مجبوریوں کے سبب احتجاج اور جلوس نکالنے کی تاریخ تبدیل کی گئی 5اپریل کو بندے ما تر م ہا ل کٹرہ شیر سنگھ امرتسر میں خفیہ میٹینگ کی گئی جس میں یہ فیصلہ لیا گیا کہ6 اپریل کو پورے شہر میں ہڑتال اور مظاہرے کئے جائیں گے چنانچہ پورے ملک میں 6اپریل کو ہڑتال ہوئی۔
پنجاب کے 19شہروں میں انگریزوں کے خلاف تشدد اور نفرت کا محبان وطن نے جی بھر کر اظہار کیا ۔مہاتما گاندھی پنجاب کے لئے روانہ ہوئے لیکن ضلع گوڑگائوں کے پلول ریلوے اسٹیشن پر گرفتار کرکے انھیں احمدآبا د بھیج دیا گیااس کا رد عمل یہ ہوا کہ انگریزوں کے خلاف صدائے احتجاج میں اور شدت آگئی ۔یوں تواحتجاج میں پورا ملک شریک تھا لیکن امرتسر کی عوام نے اس احتجاج میں سرگرم حصہ لیا حالانکہ جنرل ڈائر نے ہر قسم کے اجتماعات پر پابندی عائد کر دی تھی جس کے نتیجے میں امرتسر کے بازار اور سڑکیں ویران تھیں ۔9اپریل کو امرتسر کے ہندئووں اور مسلمانوں نے رام نومی کا تہوار اخوت و محبت کے ساتھ اس طرح منایا کہ ہندو اور مسلمانوں نے جگہ جگہ لگی ہوئی شربت کی سبیلوں پر شربت پی کر چھوت چھات کی روایت کو ختم کر دیا جس سے انگریز سرکار کی پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو کی حکمت عملی کو شدید دھچکا پہونچا ۔
پنجاب کے اہم لیڈروں ڈاکٹر ستیہ پال اور ڈاکٹر سیف الدین کچلو کی تقاریر پرتو امرتسر کی ضلعی انتظامیہ نے پہلے ہی سے پا بندی عائد کر دی تھی لیکن اسی پر حکومت نے اکتفا نہ کیا بلکہ ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کو اندیشئہ نقض امن کے تحت گرفتار کرکے ڈپٹی کمشنر کے بنگلے میں رکھا ۔ اس خبر سے امرتسر کی عوام میں غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی 10اپریل 1919کو امرتسر میں دنگے بھڑک گئے غصہ میں عوام نے یوروپین کو قتل کر دیا اسی دوران لوگوں نے چرچ آف انگلینڈ کی عورت مشنری مارسولہ شیرووڈ پر ایک گلی میں قاتلانہ حملہ کیا لیکن کچھ لوگوں نے اس کی جان بچا لی۔ ہزاروں کی تعداد میں عوام ایڈورڈ برج ــ(موجودہ بھنڈاری پل )کی طرف بڑھے پل پر چڑھتے ہی جلوس کا سامنا انگریز فوجیوں سے ہوا گوروں نے کہا تم لوگوں کو پل سے پار جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی سن کر بھیڑ میں سے سترہ سال کا نوجوان بھولا نکلا اس کے آگے بڑھتے ہی گوروں نے ریوالور سے گولی چلا دی یہ دیکھ کر بھیڑ نے پولس پر خشت باری کی عوام کی طرف سے پتھرائو شروع ہوتے ہی انگریز افسروں نے فائر کرنے کا حکم دے دیا تین رائوند انگریز فوجیوں نے گولیاں چلائیں جس کے نتیجے میںپل پر ہی بائیس لاشیں بچھ گئیں یہ دیکھ کر عوام غم و غصہ میں مسجد سے باہر نکلی اور ٹائون ہال کی طرف چل پڑی بپھرے ہوئے نو جوانوں نے ریلوے اسٹیشن پر حملہ بول دیا۔ مال گودام کو جلاتے ہوئے نوجوانوں نے ریل آفیسر مسٹر رابنسن کو مار ڈالا ۔ ہال بازار میں ہجوم نے نیشنل بینک کے انگریز افسر مسٹر سوارٹ اور مسٹر اسکاٹ اور لائنڈز بینک کے مینیجر تھامسن کو ہلاک کر ڈالا گورا فوج کے سپاہیوں نے ہجوم کے جوش و خروش کو دیکھ کر فائرنگ کر دی جس میں دو اشخاص زخمی ہو گئے جس میں سے چوک فرید کا ایک مسلمان بھی تھا جس کا ذکر سعادت حسن منٹو نے ایک افسانہ میں بھی کیا ہے ۔ فائرنگ کے بعد بینک کے گودام کو لوٹ کر ہجوم نے آگ لگا دی عوام نے ٹائون ہال میں میونسپل کمیٹی کا ریکارڈ بھی خاکستر کر دیا اس کے علاوہ عوام نے سرائے سنت رام کی عمارت میں قائم تار گھر کو نقصان پہونچاتے ہوئے چھہ ہرٹہ پٹی اور قصور ریلوے لائن کو بھی نقصان پہونچایا ۔اس وقت امرتسر کی مجموعی آبادی ڈیڑھ لاکھ تھی لیکن شہر میں نظم و نسق برقرار رکھنے کے لئے 1475انگریز اور710 سپاہی تعینات تھے ۔ گورنر پنجاب نے جنرل ڈائر جو کہ اردو فارسی کا بھی عالم تھا طلب کیا ۔11اپریل 1919ء کو شہر امرتسر کو اس نے اپنی تحویل میں لیا اور دفعہ 144کا سختی سے نفاذ کیا ۔امرتسر میں پولیس فائرنگ کے نتیجے میں 120شخاص جاں بحق ہوئے جن میں متعدد مسلمان بھی تھے جن کی نماز جنازہ عطاء اللہ شاہ بخاری نے غسل و کفن دینے کے بعد ہال بازار مسجد خیر الدین میں پڑھائی ۔
12اپریل کو گورا فوج نے شہر میں گشت کرکے امرتسر کی عوام کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی لیکن 13اپریل کو بیساکھی کے دن جب کسان گیہوں کی پکی فصل کاٹنے کا انتظار کر رہے تھے تو ملک کی عوام گیہوںسے زیادہ انگریزوںکی غلامی کی زنجیر کاٹنے کو بے قرار تھی ۔امرتسر کے قرب و جوار کی عوام بیساکھی کے تیوہار پر شری ہرمندر صاحب کی زیارت کے ساتھ ساتھ اپنے رہنمائوں کی تقریروںکو سننے کے لئے جلیاں والا باغ میں جمع ہو گئی ۔
در اصل جلیاں والا باغ جلی ـنام کے شخص کی زمین تھی اس مناسبت سے اس باغ کا نام جلیاں والا باغ ہو گیا ،یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سکھوں کے پانچویں گورو گورو ارجن دیو صاحب نے جب دربار صاحب کا سنگ بنیاد رکھا تو سائیں میاں میر جی کو دربار صاحب کی سنگ بنیاد رکھنے کی دعوت دی اور ان کے قیام کا انتظام اسی جگہ پر رکھا تو ان کے ساتھ رہنے والے فقیر ذکر کے موقع پر سماع کی حالت میں پہونچ جاتے تھے جسے پنجابی میں ’’جلی پونا ‘‘کہتے ہیں غالبا اسی مناسبت سے اس باغ کا نام جلیاں والا باغ ہو گیا۔ (ظلم دی شکھر سی ساکاں جلیاں والے باغ دا،جوگیندر سنگھ،پنجابی ٹربیون جالندھر ،جمعہ۱۵ اپریل ۲۰۱۰ء)
سرکاری ممانعت کے باوجود اسی جلیاں والا باغ میں ساڑھے چار بجے جلسہ شروع ہوا جس کی صدارت کنہیا لال جی نے کی۔جب جنرل ڈائر کا قافلہ ہال گیٹ میں گھساتو دیکھا کہ عوام اکٹھا ہو کر انگریزوں کے حکم کومنھ چڑا رہی ہے اس وقت باغ میں درگا داس تقریر کر رہے تھے۔ جنرل ڈائر نے اہم داخلی راستے بند کروا کے ہندوستانیوں کو سزا دینے کی خاطرپانچ بج کر دس منٹ پر مجمع کو کوئی تنبیہ دئے بغیرگولیاں چلانے کا حکم دیا ،حکم کے ملتے ہی نہتے عوام پر گولیاں برسنے لگیں دس منٹ تک 1650گولیاںچلائی گئیں عوام بھاگنے لگی لیکن راستہ نہ ہونے کے سبب باغ کا کنواں لاشوں سے بھر گیا۔
سرکاری رپورٹ کے مطابق 379اشخاص اور کانگریس سمیتی کے مطابق تقریبا ایک ہزار افراد مارے گئے کچھ افسر بھی قتل کئے گئے نیز دو انگریزعورتیں بھی بری طرح زخمی ہوئیں لیکن امرتسرسیوا سمیتی نے مرنے والوں کی تعداد 501بتائی ہے اور جلیاں والا با غ یادگاری ٹرسٹ نے388افراد کی فہرست جاری کی ہے اور جلیاں والا باغ شہید خاندان کے سمیتی کے پاس 436افراد کے ناموں کا اندراج ہے اور پنجاب گورنمنٹ ہوم منسٹری نے فائل نمبر139میں 381ناموںکو درج کیا ہے۔ اس حادثہ میں 1208لوگوں کے زخمی ہونے کی تصدیق کی گئی ہے لیکن امرتسر کے سول سرجن ڈاکٹر اسمتھ کے مطابق1526 لوگ زخمی ہوئے ۔جلیاں والا باغ امرتسر میں فائرنگ کے دوران جنرل ڈائر کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ ذرا اور نیچے کی طرف فائرنگ کرو تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ مارے جا سکیں ۔
در حقیقت امرتسر میں محبان وطن نے جام شہادت کو نوش کرکے بیساکھی کی شان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دو بالا کر دیا ۔ جب بھی بیساکھی کا نام زبان پر آتا ہے تو شہیدان جلیاں والا باغ کا نام بھی زبا ن پر آجاتا ہے یہ دونوں اس طرح لازم و ملزوم ہیں کہ جب تک یہ دنیا آباد ہے یہ دونوں نام ساتھ ساتھ لئے جائیں گے ۔
امرتسر کے اس قتل عام کے بعد ذلت آمیز قوانین نافذ کئے گئے ۔شہر میں ہفتوں کرفیو لگا رہا لوگوں کو سر عام کوڑے مارے جاتے جس جگہ پر دو انگریز عورتوں پر حملہ ہوا تھاوہاں امرتسر کی عوام کو پیٹ کے بل رینگنے پر مجبور کیا جاتا تھا وہ اذیت گاہ آج بھی ’’چاہ کوڑیاں ‘‘کے نام سے جانی جاتی ہے جو انگریزوں کی بر بریت اور بہیمیت کی یاد دلا کر خون کے آنسورلانے پر مجبور کر دیتی ہے ۔ جلیاں والا باغ کے قتل عام کے بعد جو لوگ گرفتار کئے جاتے تھے انھیں پنجروں میں رکھا جاتا تھا، مال و اسباب کو ضبط کرنے کے ساتھ ساتھ ہندو اور مسلمان کوساتھ ساتھ ہتھکڑی لگا کر انھیں اتحاد کا مزہ چکھایا جاتا تھا ۔ پنجابی عوام کی یہ مظلوم داستان ملک کے گوشے گوشے میںپہونچی اور عوام کے دلوں میں اس طرز عمل سے انگریزوں کے خلاف نفرت میں مزید اضافہ ہوا ۔اس خونچکاں حادثہ کے خلاف مہاتما گاندھی نے قیصر ہند خطاب ،جمنا لال بجاج نے رائے بہادر خطاب اور رابندر ناتھ ٹیگور نے ’’سر‘‘کے خطاب کو واپس کر دیا ۔
سچ تو یہ ہے کہ جلیاں والا باغ کا یہ حادثہ ایسا تھا کہ جس نے پورے ملک کی عوام کو خواب غفلت سے بیدار کر دیا ۔جلیاں والا باغ میں نہتے عوام کو انگریزوں نے قتل کرکے خود انگریزی حکومت کے جابر و ظالم ہونے کا ثبوت فراہم کر دیا ۔انسانیت کو شرمسار کر دینے والے اس حادثہ نے صرف ہندوستان کی ہی عوام کو بیدار نہیں کیا بلکہ انگریزوں کے مردہ ضمیر کو بھی بیدار کر دیا چنانچہ اکتوبر1997 میں برٹین کی رانی ایلزابیتھ2 نے جلیاں والا باغ میں شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے بعد جنرل ڈائر کے ظلم و تشدد کے نشانات کو دیکھ کر آبدیدہ ہو گئیں ۔فروری2013میں برٹین کے وزیر اعظم ڈیود کیمرن نے ہندوستانی عوام سے معافی مانگتے ہوئے اظہار افسوس کیا ۔اس کے علاوہ وزیر اعظم تھریسا مئے نے بھی اظہار غم کرتے ہوئے تاریخ پر اسے بد نما داغ قرار دیا ۔برٹش سرکار کے ہندوستان میں موجودہ سفیر ڈامنیک اسکیو تھ نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ:
’’ یہ واقعہ ہندوستان کی تاریخ کا شرمناک واقعہ ہے جو ہوا اس کے لئے ہمیں بیحد افسوس ہے۔‘‘
انگریزی حکومت کا اس شرمناک واقعہ پر اظہار افسوس کرنا جلیا ں والا باغ میں مرنے والوں کے خون ناحق کی گواہی اور ہندوستانی عوام کی کھلی ہوئی فتح ہے۔
در اصل جلیاں والا باغ میں ملک کے لئے عوام کی دی ہوئی اس قربانی نے ملک کو آزاد کرانے کے جذبے کو مہمیز کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔صداقت تو یہ ہے کہ انگریزوں کی غلامی سے نجات پانے کے خواب کو شرمندئہ تعبیر کرنے کی طرف یہ پہلا قدم تھا ۔جلیاں والا باغ کا یہ واقعہ ہمیں درس دیتا ہے کہ گولیوں کی بوچھاروں میں بھی آزادی کے پرچم کو بلند رکھنا چاہئے ۔اس واقعہ کو سو سال پورے ہو چکے ہیں لیکن آج بھی اس کی یاد ہندوستانی عوام کے دلو میں تازہ ہے ۔امرتسر میں جلیاںوالا باغ آج بھی انگریزوں کے ظلم کی داستان کو بیان کر رہا ہے ۔اور یہ باور کرا رہا ہے کہ ہمیں جو آزادی حاصل ہوئی ہے وہ کس قدر قربانیوںکے بعد حاصل ہوئی ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ جلیاں والا باغ کے شہداء کی دی گئی قربانی ایسی بے مثال ہے کہ ہندوستانی عوام جسے کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔اسی لئے آزادی کے چودہویں برس سوا نو لاکھ روپئے سے شہیدان جلیاں والا باغ کی دائمی یادگار قائم کی گئی جس کی رسم نقاب کشائی کے لئے صدر جمہوریہ اور وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہروخود تشریف لائے ۔ 13اپریل2019 میں اس واقعہ کے سو سال پورے ہونے پرنائب صدر جناب وینکیا نائیڈو نے امرتسر جلیاں والاباغ میں پہونچ کر شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ڈاک ٹکٹ اور سو روپیہ کا سکہ جاری کیا ۔جلیاں والا باغ کا واقعہ اصلاََ سیف الدین کچلو کی گرفتاری کے سبب پیش آیاتھا لیکن افسو س کا مقام یہ ہے کہ جلیاں والا باغ کے حوالے سے اس تاریخی واقعہ کو یہاں سے جس طرح پیش کیا جانا چاہئے تھا وہ پیش نہیں کیا جاتا ۔ اس پورے واقعے میں سیف الدین کچلو کو مرکزی حیثیت حاصل ہے لہذا جلیاں والا باغ میں سیف الدین کچلو کی یادگار ضرور قائم کرنا چاہئے تاکہ اس باغ کے واقعہ کی تاریخی پس منظر سے بھی امرتسر میں آنے والے لوگ واقف ہو سکیں ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...