صحن کے ایک کونے میں اماں کی لگائی کیاری پہ بہار اتری تھی. مجھے سب پھول ایک سے لگتے تھے، ان کے مختلف نام مجھے یاد نہیں رہتے تھے، اماں نے جانے کون کون سے پودے اور پھول لگا رکھے تھے، اماں کو نئے پودے لگانے اور پھول اگانے کا بہت شوق تھا، کیاری کی صفائی بہت دل و جان سے کرتی تھیں
مجھے یاد ہے کہ جب میں چھوٹا تھا اور ہم سب گرمیوں کی راتیں کھلے آسمان کے نیچے صحن میں سوتے تھے، رات کو اچانک جب مُوتنے کی حاجت ہوتی تو میں بجائے ٹائلٹ میں جانے کے، جانے کیوں اماں کی لگائی کیاری کا رخ کرتا اور پودوں پہ مُوت دیتا تھا
پہلے پہل اماں بہت پریشان ہوئیں کہ اچھے خاصے بڑھتے پودے کس کارن جل جاتے ہیں، مرجھائے جا رہے ہیں. وہ نئی مٹی لاتیں کھاد ڈالتیں اور میں پھر کسی رات اٹھتا اور کاروائی ڈال آتا. میں اماں کی پریشانی سے قطعی واقف نہیں تھا. سکول، سکول سے گھر، گھر آ کے بھی سکول کے بستے میں ہی گھسے رہنا، یہی تمام دن تھے. لیکن جس دن اماں کی پریشانی کا علم ہوا تب میرے علم میں یہ اضافہ ہوا کہ پودے پانی سے جیتے ہیں مگر مُوتنے سے جل جاتے ہیں، مر جاتے ہیں. سو وہ دن اور آج کا دن، اماں کی لگائی کیاری پہ پودے جلنے بند ہوگئے، اب اماں کی لگائی کیاری پہ بہار اتری تھی ،بھانت بھانت کے رنگوں کے پھول جیسے کسی نے پچکاری چلا رکھی ہو
پھر ایک دن مجھ پہ یہ انکشاف ہوا کہ بہار، صرف اماں کی لگائی کیاری پہ نہیں آئی، رابعہ کے بدن پہ بھی اتری ہے. وہی رابعہ جس سے بچپن میں لڑائی بھی ہوا کرتی تھی اور واحد ساتھی ہونے کے ناطے ہر کھیل بھی ساتھ ہی کھیلا کرتے تھے. رابعہ پھوپھی زاد تھی اور ہمارے گھر کے پچھواڑے رہتی تھی
اس دن اچانک آندھی آنے پہ رابعہ اپنی چھت پہ سوکھنے کو ڈالے گئے کپڑے اتار رہی تھی اور تیز ہوا نے اس کی قمیض اس کے جسم سے چپکا دی تھی تو اچانک میری نظر نے بچپن کی ساتھی کی جسم کیاری پہ اتری بہار کو دیکھا. وہ تو کپڑے اکٹھے کر کے نیچے چلی گئی مگر میرے اندر آندھی چلتی رہی
کچھ مناظر آنکھوں میں یوں پیوست ہو جاتے ہیں کہ ہٹتے نہیں. میں بہار کا ڈسا ہوا تھا، مجھے ہر طرف وہی پھول لہراتے دکھائی دے رہے تھے. جسم میں جیسے کرنٹ دوڑتا تھا، ریڑھ کی ہڈی میں جیسے لہریں سی اٹھتی تھیں. ہر وقت بستے میں گھسا ہوا سر، بستے سے باھر آ چکا تھا، جوانی دہلیز پار کر آئی تھی اور دماغ میں منصوبـے چل رہے تھے
زبان اکثر گنگ رہتی مگر رابعہ نے آہستہ آہستہ میری آنکھوں کی بـے تابیاں پڑھتی شروع کر دی تھیں، بچپن کے ساتھی تھے، اس کی ہلکی شرماہٹ، پسندیدگی کے پیغام دینے لگی تھی. اب آمنا سامنا ہونے پہ وہ پہلے کی طرح بات نہیں کر پاتی تھی، دوپٹہ مستقل کندھوں پہ ٹکنے لگا تھا اور یہ دوپٹہ مجھے زھر لگتا تھا
پھر ایک دن وہ چھت پہ اکیلی مل گئی. یہ وہ دن تھا جس سے اگلے دن مجھے ماموں زاد بھائی کی شادی پہ ان کے گاؤں جانا تھا اور واپسی چار پانچ دن بعد تھی
وہ چھت کے ایک کونے میں بیٹھی کوئی ڈائجسٹ گھٹنوں پہ رکھے پڑھ رہی تھی، ایک چپل پاؤں سے اتری ہوئی تھی مگر دوسری چپل پہن رکھی تھی. دوپٹہ داہنی طرف چھت پہ پڑا تھا، وہ کسی کہانی میں ڈوبی ہوئی تھی کہ میں اچانک جا پہنچا، وہ اچھل کے کھڑی ہو گئی، ڈائجسٹ گر پڑا اور وہ دوپٹہ اٹھانے کو جھکنے ہی لگی تھی کہ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کے سیدھا کیا، اس کا داہنا کندھا میری چھاتی سے آ لگا. ایک پل کو میری طرف دیکھ کے اس کی نظریں نیچے پڑی چپل پہ گڑ گئی تھیں. اس کے گالوں پہ گلابی رنگ چھلک رہا تھا
"چھوڑو ہاتھ، عاطف ہاتھ تو چھوڑو" کہتے ہوئے اس کا داہنا کندھا مزید میری چھاتی میں گھس رہا تھا، میں نے دوسرا ہاتھ پیچھے سے گھما کے اس کے بائیں بازو کو پکڑا اور اس کے گال پہ اپنے ہونٹوں کی مہر لگا دی. اس کی جیسے جان ہی نکل گئی ہو، وہ کسمسائی، میں نے دایاں ہاتھ چھوڑا اور اس کے بدن کی کیاری کے کھلتے پھولوں کو پکڑ لیا، اس بـے جان سی رابعہ میں جیسے بجلی آ گئی، اس نے تڑپ کے خود کو مجھ سے علیحدہ کیا. وہی گال جو گلابی تھے، خون کی طرح لال ہو گئے، اس کی جھکی نظریں اب میری آنکھوں میں جھانک رہی تھیں اور ان آنکھوں میں تیرتا پانی جیسے مجھے چلو بھر میں ڈوبنے کو کہہ رہا تھا. میں نے"رابعہ" کہہ کے ہاتھ بڑھانے کی کوشش ہی کی تھی کہ وہ چنگھاڑی
"بسسس بسسس بسسس…. دوبارہ نہ میرا نام لینا کبھی اور نہ کبھی میری طرف آنکھ اٹھا کے دیکھنا"
اس کی آنکھیں تھیں کہ پتھر تھے کوئی، وہ چپل، دوپٹہ اور ڈائجسٹ وہیں چھوڑ کے نیچے جا چکی تھی اور میں… میں نے پھر سے بہار اتری کیاری پہ مُوت دیا تھا