آج – 6/جنوری 1946
مقبول ترین مابعد کلاسیکی شاعروں میں نمایاں۔ امیرؔ مینائی کے شاگرد۔ داغؔ دہلوی کے بعد حیدرآباد کے ملک الشعراء اور جلیل القدر شاعر” جلیل مانک پوری صاحب “ کا یومِ وفات…
جلیل حسن نام ، جلیلؔ تخلص۔ ۶۷؍ ۱۸۶۶ء میں مانک پور(اودھ) میں پیدا ہوئے۔ طالب علمی کا زمانہ لکھنؤ میں گزرا جہاں فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کی۔ ابتدا ہی سے سخن گوئی کا شوق تھا۔ بیس سال کی عمر میں امیر مینائی کے شاگرد ہوگئے۔ ۵؍ستمبر۱۹۰۰ء کو حضرتِ امیر مینائی کے ہمراہ حیدرآباد دکن پہنچے۔ حضرتِ داغؔ کی وفات کے بعد میر محبوب علی آصف نے اپنی استادی کا شرف بخشا اور ’’جلیل القدر‘‘ کے خطاب سے سرفراز کیا۔جب نواب میر عثمان علی تخت پر بیٹھے تو انھوں نے بھی اپنی استادی کے شرف سے سرفراز کیا۔ آپ نے ’فصاحتِ جنگ بہادر‘ اور پھر ’امامُ الفن‘ کے لقب سے عزت افزائی کی۔ ۶؍جنوری۱۹۴۶ء کو حیدرآباد دکن میں انتقال کرگئے۔ ’’تاج سخن‘‘، ’’جان سخن‘‘ اور ’’روح سخن‘‘ ، تین دیوان ان کی یادگار ہیں۔ ’’معراجِ سخن ‘‘ نعتیہ کلام اور سلام وغیرہ کا مجموعہ۔ ’’معیارِ اردو‘‘ محاورات کا مجموعہ بھی ان کی تصانیف ہیں۔ ’’تذکیر وتانیث‘‘ ان کی مشہور تصنیف ہے۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
ممتاز شاعر جلیلؔ مانک پوری کے یوم وفات پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت…
آپ پہلو میں جو بیٹھیں تو سنبھل کر بیٹھیں
دلِ بیتاب کو عادت ہے مچل جانے کی
—
نگاہ برق نہیں چہرہ آفتاب نہیں
وہ آدمی ہے مگر دیکھنے کی تاب نہیں
—
محبت رنگ دے جاتی ہے جب دل دل سے ملتا ہے
مگر مشکل تو یہ ہے دل بڑی مشکل سے ملتا ہے
—
تصدق اس کرم کے میں کبھی تنہا نہیں رہتا
کہ جس دن تم نہیں آتے تمہاری یاد آتی ہے
—
جاتے ہو خدا حافظ ہاں اتنی گزارش ہے
جب یاد ہم آ جائیں ملنے کی دعا کرنا
—
کمالِ عشق تو دیکھو وہ آ گئے لیکن
وہی ہے شوق وہی انتظار باقی ہے
—
کچھ اس ادا سے آپ نے پوچھا مرا مزاج
کہنا پڑا کہ شکر ہے پروردگار کا
—
آنکھیں خدا نے دی ہیں تو دیکھیں گے حسنِ یار
کب تک نقاب رخ سے اٹھائی نہ جائے گی
—
سب کچھ ہم ان سے کہہ گئے لیکن یہ اتفاق
کہنے کی تھی جو بات وہی دل میں رہ گئی
—
تنہا وہ آئیں جائیں یہ ہے شان کے خلاف
آنا حیا کے ساتھ ہے جانا ادا کے ساتھ
—
دیکھی ہیں بڑے غور سے میں نے وہ نگاہیں
آنکھوں میں مروت کا کہیں نام نہیں ہے
—
اچھی صورت نظر آتے ہی مچل جاتا ہے
کسی آفت میں نہ ڈالے دلِ ناشاد مجھے
—
ادا ادا تری موجِ شراب ہو کے رہی
نگاہِ مست سے دنیا خراب ہو کے رہی
—
ایسے چھپنے سے نہ چھپنا ہی تھا بہتر تیرا
تو ہے پردے میں مگر ذکر ہے گھر گھر تیرا
—
درد سے واقف نہ تھے غم سے شناسائی نہ تھی
ہائے کیا دن تھے طبیعت جب کہیں آئی نہ تھی
—
سچ ہے احسان کا بھی بوجھ بہت ہوتا ہے
چار پھولوں سے دبی جاتی ہے تربت میری
—.
دید کے قابل حسیں تو ہیں بہت
ہر نظر دیدار کے قابل نہیں
—
قاصد پیامِ شوق کو دینا بہت نہ طول
کہنا فقط یہ ان سے کہ آنکھیں ترس گئیں
—
تم جو پردے میں سنورتے ہو نتیجہ کیا ہے
لطف جب تھا کہ کوئی دیکھنے والا ہوتا
—
تجھ کو شکوہ ہے کہ عشّاق نے بد نام کیا
سچ تو یہ ہے کہ ترا حسن ہے دشمن تیرا
—
اٹھ اے نقابِ یار کہ بیٹھے ہیں دیر سے
کتنے غریب دیدۂ پُر نم لیے ہوئے
—
نہ اشارہ نہ کنایہ نہ تبسّم نہ کلام
پاس بیٹھے ہیں مگر دور نظر آتے ہیں
—
ان سے اظہارِ محبت جو کوئی کرتا ہے
دور سے اس کو دکھا دیتے ہیں تربت میری
—
نہ وہ آئیں کہ راحت ہو نہ موت آئے کہ فرصت ہو
پڑا ہے دل کشاکش میں نہ غم نکلے نہ دم نکلے
—
وعدے پہ تم نہ آئے تو کچھ ہم نہ مر گئے
کہنے کو بات رہ گئی اور دن گزر گئے
—
نگاہِ لطف و عنایت سے فیضیاب کیا
مجھے حضور نے ذرے سے آفتاب کیا
—
مشکل ہے ترے ساتھ رقیبوں کو بھی چاہوں
عالم کی سمائی تو مرے دل میں نہیں ہے
—
جلیلؔ اک شعر بھی خالی نہ پایا درد و حسرت سے
غزل خوانی نہیں یہ در حقیقت نوحہ خوانی ہے
◆ ▬▬▬▬▬▬ ✪ ▬▬▬▬▬▬ ◆
جلیلؔ مانک پوری
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ
آپ جلیلؔ مانک پوریکی کتب پنجند۔کام کے اس لنک سے پڑھ سکتے ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...