مسئلہ صرف جنوبی پنجاب کا نہیں، مغربی پنجاب کا بھی ہے اور اتنا ہی سنجیدہ جتنا کسی بھی محروم خطّے کا ہوسکتا ہے۔ انصاف کیا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ جتنی اہمیت ہزارہ کے علاقے کو خیبر پختونخوا میں حاصل ہے، مغربی پنجاب کے بارانی اضلاع کو اس کا عشر عشیر بھی اپنے صوبے میں نہیں حاصل۔ مغربی پنجاب کے عوام کو ابھی اس کا شعور نہیں، اتنے تیز اتنے باشعور اگر وہ ہوتے تو فرنگی حکومت انہیں مارشل ایریا کا بے معنی نام دے کر ترقی سے محروم نہ کردیتی۔ ان کے کھیتوں کے لیے آب پاشی کا انتظام کیا گیا نہ ہی صنعت کو ان کے نزدیک جانے دیا گیا ۔ اور آج پنجاب کے وہ علاقے جہاں نہروں کے جال بچھے ہیں اور جہاں کارخانے شمار سے باہر ہیں، پنجاب کے تخت پر قابض ہیں اور مغربی پنجاب کے اضلاع آسمان کی طرف منہ اٹھائے زبان حال سے کہہ رہے ہیں ؎
عدو کو بادۂ خوش رنگ دے کے کہتے ہیں
ولیؔ ولی ہے ولی نے پیا پیا، نہ پیا
آخر سندھ سے بھی تو نہریں نکالی جاسکتی تھیں۔ جنڈ، پنڈی گھیب اور میانوالی کے وسیع علاقے ان نہروں سے سیراب ہوسکتے تھے لیکن اگر زمینیں سونا اگلنے لگتیں تو فوج میں بھرتی کون ہوتا؟ فرنگی سوسال آگے کا سوچتے تھے۔ انہوں نے علاقے تقسیم کرلیے۔ یہ فوجی بھرتی کے لیے۔ وہ گندم اُگانے کے لیے اور وہ کپڑا بنانے کے لیے۔ یُوں آب پاشی اور کارخانوں کے لیے علاقے مخصوص ہوگئے۔ مگر اب تو فرنگی حکمرانوں کو گئے ہوئے بھی ساڑھے چھ دہائیاں ہوگئی ہیں۔ اب تو تبدیلی آجاتی! لیکن یہاں کون سی تبدیلی شرافت سے آئی ہے؟لاتوں کے بھُوت باتوں سے نہیں مانتے۔ ع اپنا حق شہزادؔ ہم چھینیں گے مانگیں گے نہیں !مغربی پنجاب کے محروم اضلاع کو کوئی بابا حیدرزمان، کوئی محمدعلی درانی کوئی نواب عباسی مل جاتا تو حالات مختلف ہوتے ؎
می رسد مردی کہ زنجیر غلامان بشکند
دیدہ ام از روزن دیوار زندان شما
لیکن حدِّنگاہ تک کوئی مرد ایسا نظر نہیں آرہا۔
اوباما دوسری بار امریکہ میں الیکشن جیتا تو کئی امریکی ریاستوں نے وفاق سے علیحدگی کا مطالبہ کردیا۔ ہزاروں شہریوں نے انٹرنیٹ پر مہم چلائی ۔کسی نے انہیں غدّاری کا طعنہ دیا نہ بے وقوفی کا! اگر جنوبی پنجاب اور بہاولپور الگ صوبہ بنانا چاہتے ہیں تو ضرور بنائیں۔ اس سے کوئی قیامت نہیں آجائے گی ۔ اور ٹھیک اسی اصول کے تحت مغربی پنجاب کو بھی الگ انتظامی اکائی بننا چاہیے۔ سیاست اور بیوروکریسی کے طاقت ور افراد جو لاہور میں رہتے ہیں، اور جن کی اکثریت وسطی پنجاب سے ہے، اس مسئلے کو کبھی نہیں سمجھیں گے۔ پنجاب سے شریف برادران کی کچن کیبنٹ میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو وسطی پنجاب سے باہر کا ہو۔ چودھری نثار علی خان لیڈر آف اپوزیشن ضرور ہیں لیکن معاف کیجیے، قومی اسمبلی میں ہیں، لاہور میں نہیں! وہ بہرحال شریف برادران کی کچن کیبنٹ یا ’’کورکمیٹی‘‘ میں نہیں۔ خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف ، رانا ثناء اللہ، احسن اقبال سب لاہور یا نواحی علاقوں سے ہیں۔ رہے اسحاق ڈار اور عابدشیر علی تو وہ شاہی خاندان کے افراد ہیں۔ مسلم لیگ (ن) میں میاں صاحبان کے رشتہ دار اگر اتنی تعداد میں نہیں جتنے بہادر شاہ ظفر کے رشتہ دار لال قلعے میں تھے تو اتنے کم بھی نہیں !جہاں تک راجہ ظفرالحق کا تعلق ہے وہ پوٹھوہار کی ترقی کے لیے کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ وہ ضیاء الحق کی دریافت تھے۔ بالکل اسی طرح جیسے مشرقی پاکستان کے گورنر عبدالمنعم خان ایّوب خان کی دریافت تھے۔ راجہ ظفرالحق اور عبدالمنعم خان میں یہ قدر مشترک تو ضرور ہے کہ دونوں فوجی آمروں کی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی رہے لیکن یہ قدر مشترک بھی کم نہیں کہ دونوں وکیل تھے اور ایسے کہ وکالت کو دونوں میں سے ایک پر بھی ناز نہ تھا۔ راجہ صاحب نے ضیاء الحق کے دور آمریت میں وزارت کے مزے لوٹے اور سفارت کے بھی۔ اب نون لیگ میں وہ تبرک سے زیادہ کچھ نہیں ؎
نہ پُوچھ حال مرا، چوبِ خشک صحرا ہوں
لگا کے آگ جسے کارواں روانہ ہوا
بات محروم علاقوں کی ہورہی تھی۔ راولپنڈی، اٹک ،چکوال، جہلم، میانوالی، آخر ان اضلاع کی لاہور میں کیا وقعت ہے؟(میانوالی کے عوام اور خواص نے جنوبی پنجاب کے مجوزہ صوبے میں میانوالی کی زبردستی شمولیت کو رد کردیا ہے اور اس دھڑلے اور شورشرابے کے ساتھ کہ کسی شک یا ابہام کی گنجائش ہی نہیں!) شریف برادران میں اتنا ادراک ہے نہ وژن کہ وہ یہ بات سمجھ سکیں کہ ان کے اردگرد جو سیاست دان اور بیوروکریٹ فصیلِ اقتدار کی برجیوں پر قابض ہیں، وہ سبھی لاہور اور نواح لاہور سے ہیں۔ بیوروکریسی کی زمام انہوں نے ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ کے ہاتھ میں دی ہوئی ہے جس کو جنوبی پنجاب کی حرکیات کا علم ہے نہ مغربی پنجاب کے مسائل کا۔ ہمارے چالیس چالیس سالہ پرانے دوست جو کبھی گجرات کے چودھریوں کے ساتھ ہُوا کرتے تھے، اور اب ریٹائرہوکر بھی پنجاب حکومت سے وابستہ ہیں اور خوب طاقت ور ہیں ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ جن دنوں وہ دوست ہوا کرتے تھے، لاہور سے باہر کے دوستوں کی ، بالخصوص مغربی اور جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والوں کی کس طرح تحقیر کیا کرتے تھے۔
مغربی پنجاب کے ان محروم اضلاع میں اگر مسلم لیگ (ن) جیتی بھی تو صرف اس لیے جیتے گی کہ امیدوار ہوں گے ہی جیتنے والے۔ حنیف عباسی ہی کو لے لیجیے، جماعت اسلامی میں تھے، تب بھی جیتے۔ پھر جماعت نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تو حنیف عباسی ایک ثانیہ سوچے بغیر نون لیگ میں چلے گئے۔ فرض کریں آج نون لیگ انتخابات کا بائیکاٹ کردے یا انہیں ٹکٹ نہ دے تو وہ اپنی روایت برقرار رکھتے ہوئے پھر پارٹی بدل لیں گے لیکن جس پارٹی میں بھی ہوں گے جیت جائیں گے۔ اس پر دوسرے اضلاع کو قیاس کر لیجیے۔ مسئلے کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ پنجاب حکومت کے موجودہ سربراہ ذہنی طورپر اور جذباتی لحاظ سے لاہور سے باہر نکل ہی نہیں سکتے۔ کہیں جاتے بھی ہیں تو وائسرائے کی طرح۔ یہی مثال لے لیجیے۔، فتح جنگ اور پنڈی گھیب کے گائوں گائوں اور بچے بچے کو معلوم ہے کہ اس علاقے کے ایک چھوٹے سے غریب گائوں میں ڈسپنسری نہیں بننے دی جارہی۔ ڈی سی او اٹک نے چارسال سے بیس لاکھ (صرف بیس لاکھ) روپے کا بجٹ مانگا ہوا ہے۔ نہیں دیا جارہا اس لیے کہ یہ گائوں لاہور میں ہے نہ نواح لاہور میں۔ یا پھر اس لیے کہ جس ناظم نے ڈسپنسری کی منظوری دی تھی وہ مسلم لیگ (ق) کا تھا یا شاید اس لیے کہ ایک کالم نگار کا تعلق اسی گائوں سے ہے اور وہ کالم نگار پنجاب حکومت پر کبھی کبھی جائز تنقید کرتا ہے۔ یہ صرف ایک مثال ہے ع
قیاسِ کن زِ گلستانِ من بہارِ مرا
بھارتی پنجاب پاکستانی پنجاب سے بڑا نہیں تھا لیکن اسے تین صوبوں میں بانٹ دیا گیا۔ 1966ء میں ہریانہ وجود میں آیا اور 1971ء میں ہما چل پردیش۔ تاریخ کا پانی نشیب سے بلندی کی طرف نہیں بہہ سکتا ۔ آج جنوبی پنجاب اور بہاولپور کے صوبوں کی بات ہورہی ہے، ہزارہ انگڑائیاں لے رہا ہے ، قبائلی علاقے جاگ رہے ہیں ۔ مغربی پنجاب کی انتظامی اکائی بھی جلد یا بدیر حقیقت کا روپ دھارے گی۔