ایک طرف ہند کی فضیلت واہمیت اس کے امتیازات وخصوصیات پر نظر ڈالتا ہوں اور دوسری طرف موجودہ دور کے ظالم حکمراں کی نقل و حرکت کو دیکھتا ہوں تو یہ یقین نہیں ہوتا کہ جو ملک اپنے دامن میں اتنی ساری فضیلتیں سمیٹے ہؤا ہو وہاں کبھی ظلم و بربریت، وحشیت و جبرویت کی شاخیں بھی پھلے پھولیں گی، لیکن تاریخ کے اوراق الٹتے پلٹتے رہتے ہیں، جب کوئی مؤ رخ ہند کی تاریخ لکھتا ہے تو ان فضیلتوں کو ضرور اپنے قلم سے ادا کرتا ہے جو اس ملک کے بارے میں وارد ہوئی ہیں، علامہ آزاد بلگرامی لکھتے ہیں۔ یہ شرف تمام عالم میں صرف ہندوستان کو حاصل ہے کہ خدا تعالیٰ کے سب سے پہلے پیغمبر حضرت آدم علیہ السلام اول ہندوستان میں اترے، وحی نبوت سب سے پہلے ہندوستان میں اتری، یا یوں کہۓ کہ اسلام سب سے پہلے ہندوستان میں آیا، ان خصوصیات کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان ایک روادار ملک ہے، یہاں ظالموں کی بستی کبھی آباد نہیں ہو سکتی، اور یہاں کے لوگ امن و امان کی زندگی گزاریں گے، لیکن زمانہ میں انقلابات آتے رہتے ہیں، حق و باطل کی کشمکش جاری رہتی ہے، ظالم طاقتیں ابھرتی ہیں اور فنا بھی ہو جاتی ہیں، اور حق آن بان شان کے ساتھ یونہی تازہ دم رہتا ہے، اور اسی طرح نظام عالم چلتا رہتا ہے، اس پاک سرزمین پر پہلے انگریزوں نے اپنا ناپاک قدم جمایا، اور یہاں کے مالک بن بیٹھے، یہاں کے لوگوں کو اپنا غلام بنا لیا، لیکن یہاں کی مٹی بہت خوددار ہے یہاں کے خوددار باشندوں نے ان نا پاک طاقتوں کو کھدیڑ دیا حالانکہ اس راہ میں بڑی قربانیاں دینی پڑیں، اس ناپاک طاقتوں کو کھدیڑ نے کے بعد،1975 میں پھر ایک طاقت نے اس ملک کو ظلم کا نشانہ بنا یا لیکن اسکی شاخ پھولنے سے پہلے ہی کاٹ دیا گی ،
اب موجودہ حکومت ان ناپاک تاریخوں کو دہرا رہی ہے، بلکہ اس سے بھی خطرناک ڈگر پر چل پڑی ہے، ایسا راستہ اختیار کر لیا ہے جو ملک کو زوال کی طرف لے جارہا ہے، تمام ترقیاتی کاموں کو چھوڑ کر، عوامی کاموں کو بالائے طاق رکھ کر، ملکی مفاد کو بھلا کر دستور ہند کو تہس نہس کرنے اس کو تبدیل کرنے میں سارا زور صرف کررہی ہے، جیسا کہ معلوم ہے کہ یہ ملک گنگا جمنی تہذیب کا ملک ہے، مختلف مسلک و مشرب کے لوگ یہاں رہتے ہیں، اور دستور ہند سب کو یہاں رہنے کی اجازت دیتا ہے، لیکن یہ راون راج،یہ ظالم حکومت اس گلدستہ کو پاش پاش کر رہی ہے اور دستور ہند سے دستبرداری کا اعلان کررہی ہے، یہاں کی مٹی یہاں کی فضا و گنگا کو خون سے رنگیں کرنا چاہتی ہے، ایسے ایسے قانون لا رہی ہے جس سے اس کے ناپاک منصوبوں کا پتہ چلتا ہے، اس حکومت کو راون کی تاریخ معلوم ہے رام کی نہیں، انہیں ہٹلر کی تعلیم یاد ہے گاندھی کی نہیں، میں نے پچھلی تحریر میں کچھ ان کے منصوبوں کا ذکر کیا تھا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ یہ حکومت انسانیت سے کتنی دور ہے، اور راون سے کتنے قریب، ہٹلر سے کتنے قریب ہیں اور گاندھی و نہرو سے کتنے دور ہیں، ملکی مفاد، عوامی ترقی ان کے مد نظر نہیں بلکہ ذاتی مفاد اور اپنی جیب ان کی مد نظر ہے، ظلم کی حکومت وسیاست ان کی مد نظر ہے، روز گاری، معیشت، جوانوں کی نوکری، غریبوں کی مسیحائی، ان سب چیزوں سے انہیں کوئی واسطہ نہیں، بلکہ بے جا چیزوں میں لوگوں کو الجھاۓ رکھنا اور ان کو اپنے کاروبار سے دور رکھنا اور غلط قوانین لا کر ان کی نظام زندگی کو متاثر کرنا ان کا بہترین شیوہ ہے، اس ظالم حکومت کی مثال اس بچہ کی طرح جو روٹی کیلئے تڑپ رہا ہو اور باپ سے فریاد کررہا ہو لیکن باپ روٹی دینے کے بجائے اس کو کسی اونچی جگہ پر بٹھا دے جہاں سے گرنے کا اندیشہ ہو، تو وہ بچہ روٹی چھوڑ کر بچانے کو کہے گا وہ روٹی بھول جاۓ گا، یہی حال موجودہ حکومت کا ہے کہ عوام کو بے جا قانون میں الجھا دیا جائے تاکہ وہ معیشت بھول جاۓ، روز گاری بھول جاۓ، خدا جانے اس کے کیا کیا منصوبہ ہیں اور کیا ہوں گے، فی الحال سارا چمن جل رہا ہے، ایک ایک کلی شعلہ زن ہے اس کا انجام خدا جانے کیا ہوگا،
اب ہمیں تیار رہنا ہوگا، اور اس کالا قانون کے خلاف ایک لمی جنگ لڑنی ہوگی اور آئندہ کیلئے ہمیں سبق سکھانا ہوگا تاکہ دوبارہ اس ملک کو زوال کی طرف نہ لیکر جا سکے، اس کے سارے منصوبوں کو ناکام بنا نا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے، ایک حالت سے دوسری حالت کیلئے ہمیں تیار رہنا ہوگا، ہماری ذرا سی غفلت راون راج کو اپنے منصوبہ میں کامیاب کردیگی،