کشمیر کے علاقے فتح پو ر تھکیالہ،کگیالی کے مقام پر آبادی میں پنگولین گھس آیا۔ مقامی آبادی کے افراد نے پنگولین کو خطرناک عجیب الخلقت شے سمجھ کر مارڈالا۔
۔
پنگولین ایک نایاب جانور ہے اور دنیا میں اس کی نسل اب نایاب ہوتی جا رہی ہےاس جانور کے اوپر مھچلی کی طرح کے چھلکے ہوتے ہیں وہ اس مادے کے بنے ہوتے ہیں جس سے ہمارے ناخن اور بال بنے ہوتے ہیں ۔یہ انسان دوست جانور ہے ۔بعض افریقی ممالک میں پنگولین کی نسل کو محفوظ بنانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں ۔لاعلمی کی بدولت ہم اس ماحول دوست جانور کی نسل کُشی کر رہے ہیں جو کہ ہمارے ماحول کے لیے بھی دُرست نہیں اور نایاب نسل بھی ختم ہوتی جا رہی ہے۔پچھلے سال ھری پور میں بھی مقامی آبادی نے پینگولین کو مارڈالا تھا۔ اکثر ھمارے علاقوں میں لوگ اس بے ضرر اور معصو م جانور کو مار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ " گور کح می مڑ کو" اسے ھم جہالت کیوجہ سے مردے کھانے والا سمجھتے ہیں۔
پینگولین جسے عام زبان میں چیونٹی خور یا مُورخور کہتے ہے۔ یہ ایک بےضرر ممالیہ اور ماحول دوست جانور ہے۔ بدقسمتی سے یہ جانور بعض اوقات غلطی سے آبادی کی طرف آجاتاہے۔ یہ عام طور پر قبرستانوں میں نظر آتا ہے جس کو عام لوگ قبر سےمردے نکالنے والا جانور مردہ خور (گورگخ) سمجھ کرماردیتے ہے۔۔۔ شاید آپ کےسامنےبھی اس طرح کا واقعہ ہوا ہو۔ پاکستان میں تو اس کی نسل قریبا'' معدوم ہونے کے قریب ہے۔ہمارے یہاں ہر وہ جانور جو عام نہ ہو اسے بلا سمجھ کر مار دیا جاتا ہے۔
جبکہ اس کی قبرستانوں میں موجودگی وہاں پائ جانے والی چیونٹیاں ہیں جو اس کی خوراک ہیں۔ یہ ایک دن میں پینتیس ہزار کے قریب چیونٹیاں کھا جاتا ہے۔ اس کا منہ بہت پتلا تھوتھنی نما ہوتا ہے جس میں انتہائی لمبی زبان ہوتی ہے۔ تو بھلا یہ مردہ یا ھڈیاں کیسےکھا چبا سکتا ہے؟ یہ دودھ پلانے والا جانور ہے جو Myrmecophagidae خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کی غذا چیونٹی اور دیمک ہے۔ تحقیق کے مطابق چیونٹی خوروں کی نسل میں اب تک دریافت کئے جانے والے جانوروں میں سب سے بڑے جانور کی جسامت 4 فِٹ (1.2 میٹر) ہے جو دُم کے علاوہ ہے اور 2 فِٹ (60 سینٹی میٹر) تک اس کی اونچائی ہے۔ اس کا سر سَنکی نُما اور دُم کانٹوں والی ہوتی ہے۔ یہ زیادہ تر مٹیالا ہوتا ہے جبکہ سینے پر کالی دھاریاں پائی جاتی ہیں جو کاندھوں سے ہوتی ہوئی کمر تک آتی ہیں۔ اس کی ایک قسم بال دار جبکہ ایشیا افریہ میں پائ جانے والی قسم کے جسم پر مضبوط چھلکے نما اسکیلز ہوتے ہیں۔ ان کے بازو انسانی بازو جیسے اور تیز لمبے مضبوط نوکیلے مڑے ہوئے پنجوں والے ہوتے ہیں جن کی مدد سے یہ زمین کھود کر چیونٹیاں یا دیمک نکالتے ہیں۔ان کی زبان انتہائ لمبی اور لیسدار چپکنے والی ہوتی ہے۔ یہ چیونٹی دیمک کے بل میں اپنی زبان داخل کرتا ہے جس سے بے شمار چیونٹیاں اس کی زبان سے چپک جاتی ہیں جن کو یہ کھاجاتا ہے۔چیونٹی خور جنوبی اور وسطی امریکا کے بڑے رقبے پر پائے جاتے ہیں اس کے علاوہ یہ گرم مرطوب، دریائی اور دلدلی خطّوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔
۔
ہمارے ہاں پائے جانے والا پینگولین جسے انڈین پینگولین Manis crassicaudata کہتے ہیں ۔اس کو انٹر نیشنل یونین فار کنزرویوشن آف نیچر IUCN نے 2014 میں اپنے رڈ لسٹ میں شامل کردیا ہے۔ یہ انڈیجرڈ سپیشی ہے۔
پاکستان میں آبادی میں آنےکے علاوہ بھی پہاڑ میں نظر آنےپر لوگ اسے مردہ خور سمجھ کر ماردیتے ہے۔ انسانوں کی کم واقفیت کی وجہ سے پینگولین کی نسل ختم ہونےکی قریب ہے۔۔۔
محکمہ وائلڈ لائف کو چاہیے کہ اس جانور کے بارے میں عوام میں اگاہی مہم چلائی جائے تاکہ اس نایاب جانور کی نسل محفوظ بنایا جا سکے۔