جہیز جو کہ موجودہ دور کی سب سے بڑی رسم یا مجبوری بن چکا ہے۔ وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ رسم و رواج بھی بدلتے گئے۔
زندگی بہت تیزی سے آسانی سے مشکل کی طرف سفر کر رہی ہے۔ بیٹیاں جن کی پیدائش کو باعث رحمت کہا جاتا ہے ۔اب ان کی پیدائش سے ہی والدین کو سوچ و بچار میں ڈال دیتی ہے کہ کیسے جہیز ان کی شادی بیاہ کا بندوبست کریں گے۔
جہیز دراصل مسلمانوں کا رواج نہیں ہے یہ ہندوؤں کا رواج ہے۔ اسلام میں عورتوں کو وراثت میں حقوق دیۓ گئے ہیں۔ مطلب عورت اپنے والدین کی جائیداد سے حصہ لے سکتی ہے۔ جس کی وجہ سے جہیز کو اسلام میں حرام قرار دیا گیا ہے۔ دوسری طرف "ہندو مذہب" میں عورتوں کو وراثت میں اتنے حقوق حاصل نہیں۔ جس کی بنا پر ہندؤوں میں لڑکی کا کنیادان کیا جاتا ہے۔ جس میں لڑکی والے دولہے کے گھر والوں کو مہنگے مہنگے گفٹس دیتے ہیں۔ اگر ایسا نہ کر سکیں تو لڑکے والے شادی نہ کرنے کی دھمکی دیتے ہیں اور اگر ایک باپ کی زیادہ بیٹیاں ہیں تو ان کے لئے رشتے دیکھنا، جہیز دینا، آ ج کے دور کا بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔
"اسلامی شریعت" میں ایسے رواج حرام قرار دئیے گئے ہیں لیکن پھر بھی کبھی ہم خوشی اور کبھی مجبوری میں ان رسموں کو نبھاتے ہیں ۔
کبھی ایسی صورتحال بھی دیکھنے میں آ تی ہے کہ لڑکی کو شادی کے بندھن میں پھنسا کر گھر سے نکال دینے یا طلاق کی دھمکی دی جاتی ہے ۔اکثر ایسے کیس بھی سامنے آتے ہیں کہ سسرال اور شوہر کی طرف سے جہیز کی خاطر تشدد کیا جاتا ہے کہ جیسے کیسے کرکے والدین سے سامان منگواۓ۔ ایسی صورتحال میں عورت تنگ آکر خودکشی بھی کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
اور اب تو باقاعدہ لڑکے والوں کی طرف سے ایک لمبی سامان کی فہرست تھما دی جاتی ہے کہ ہمیں جہیز میں یہ یہ سامان چاہیئے۔اس بات کو سوچے بغیر کہ جو بوجھ ہم والدین پر ڈال رہے ہیں کیا وہ اس بوجھ کو برداشت کرنے کے قابل بھی ہیں یا نہیں ۔
جہیز کے ساتھ ساتھ شادی کے سبھی فنکشنز پر باقاعدہ کھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس میں بھی ہالز اور کھانے کی ڈشز کا بھی لڑکے والے ڈیمانڈ کرتے ہیں۔
یہ مسئلہ گاؤں کی نسبت شہروں میں زیادہ گھمبین ہو چکا ہے۔ جیسے بیٹی والے ہونا کوئی جرم ہو ۔اسی پریشانی کی وجہ سے اکثر لڑکیوں کے رشتے اور شادیاں نہیں ہو پاتیں۔ ان کی خوشیوں اور گھر بسنے کے خواب والدین اپنے سینے میں چھپاۓ اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں ۔
ہم مسلمان ہیں بہتر ہوگا۔ مسلمانوں والی سب رسمیں نہیں بھی اپنا سکتے تو کم از کم لڑکی والوں پر اتنا بوجھ ڈالیں جتنا کوئی خوشی سے اُٹھا سکے ۔
اگر ہم بات کریں رسول خدا ﷺ کی بیٹی کی۔ وہ بیٹی جوکہ جنتی عورتوں کی سردار ہیں ان کے نکاح پر چند ایک ضروری استعمال کی چیزیں دی گئیں جن میں مٹی کا برتن،جاۓ نماز،اور کچھ کھجوریں وغیرہ دی گئیں۔
فرمان باری تعالٰی ہے
‘لوگو اپنے پروردگار سے ڈرتے رہو جس نے تمہیں ایک ذات سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا۔ پھر ان دونوں سے بہت مرد اور عورتیں اس دنیا میں پھیلا دیے۔
حضرت علی سے روایت ہے
‘کہ فاطمہ جب میرے گھر لائیں گئیں تو اس وقت ہمارے پاس سوائے بکری کی کھال کے کچھ بھی نہ تھا’
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...