آپ پی آئے اے کے جہاز میں بیٹھے ہیں۔ سامنے ایک سائن لگا ہے جس پر" Exit / ْراستہ" لکھا ہے۔ اس سے آپ جان سکتے ہیں کہ الفاظ اپنی معنی ترجمہ کرتے وقت کیسے کھو دیتے ہیں، اگر آپ کو یہ دونوں زبانیں آتی ہوں۔ آپ کے سامنے سگریٹ نوشی سے ممانعت کی لائٹ روشن ہے۔ باقی تمام چیزیں چھوڑ کر سگریٹ کی ممانعت کی ہدایت ہی کیوں اور یہ پورا راستہ کیوں روشن رہے گی، آپ یہ جان سکتے ہیں، اگر آپ کو تمباکو اور انسان کے رشتے کی تاریخ کا علم ہے۔ آپ کھڑکی سے باہر نظر ڈال کر جہاز کے پر کے آخر میں خم کو دیکھتے ہیں، اس سے جہاز کی عمر کا اندازہ لگا سکتے ہیں، اگر آپ جہاز کے ڈئزائن میں ہوتی تبدیلیوں کو جانتے ہیں۔ جہاز میں لوگوں کے مشاغل، لباس، ائرہوسٹس کی ٹرالی، آپ کی سیٹ، اس جہاز کی اپنی تاریخ کے پیچھے صدیوں کی ٹیکنالوجی، معیشت، سیاست کی کہانیاں ہیں۔ آپ کے قریب کا ہر منظر ایسا ہے۔ شرط یہ ہے کہ آپ جانتے کیا ہیں اور جاننا کیا چاہتے ہیں۔
اسی طرح کی نظر سے ہم برٹش میوزیم میں پڑی ہورندجتف کی ممی کا جائزہ لیتے ہیں۔ یہ امون کے مندر کا راہب تھا۔ بطلیموس سوئم کا یہ دور 246 قبلِ مسیح سے 222 قبلِ مسیح تک تھا۔ یہ ہمیں اس لیے پتہ ہے کہ یہ تابوت کے اندرونی حصے میں لکھا ہے۔ لیکن ہم وہ بھی جانتے ہیں جو اس میں نہیں لکھا اور اس کا سی ٹی سکین اور ایکسرے کر کے پتہ لگتا ہے جو پچھلے کچھ برسوں میں کئے گئے ہیں۔ ممی کو کھولنا اس کو خراب کر دیتا ہے اس لئے سکین ہمیں بغیر اس کو کھولے اس کے بارے میں معلومات دے سکتے ہیں۔ ہورندجتف کا انتقال ادھیڑ عمری میں ہوا تھا۔ یہ ممی اس وقت کے بہترین طریقے سے حنوط کی گئی۔ اندرونی اعضاء کو نکالا گیا، احتیاط سے پیک کیا گیا اوران اعضاء کو چار پیکٹوں کی صورت میں واپس اندر ہی رکھ دیا گیا۔ یہ جسم کی گہرائی میں نظر آتے ہیں۔ جسم محفوظ کرنے کے لئے مہنگے تیل کا استعمال ہوا۔ ہمیں اس میں انگوٹھی، زیور اور جواہرات نظر آتے ہیں اور کچھ اور جادوئی سمجھنے جانے والے آبجیکٹ بھی۔ جواہرات چھوٹے ہیں اور جس جگہ پر ہیں، ان میں سے ہر ایک کی اپنی اہمیت ہے۔ ہزاروں سال پہلے رکھے والے ہر جوہر کے پیچھے کچھ وجہ ہے۔ ہم دانتوں کا اور ہڈیوں کا بڑی تفصیل سے معائنہ کر سکتے ہیں۔ دانتوں کی شکست و ریخت کے تجزئے سے خوراک کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ ہڈیوں کی صحت بتاتی ہے کہ ہورندجیف کو جوڑوں کا درد تھا۔ کمر کے مہروں سے پتہ لگتا ہے کہ کمر میں خاصی تکلیف تھی۔
لیکن یہ ممی صرف ہورندجیف کے ہی نہیں، اس دور کی معلومات بھی دیتی ہے۔
مصر اس وقت دنیا سے تجارت کیا کرتا تھا۔ ممی بنانے کے عمل کا کیمیائی تجزیہ ہمیں ان تجارتی روابط کا بتاتا ہے۔ مثال کے طور پر ممی کے کیس پر لگا سیاہ بٹومن بحیرہ مردار سے آیا ہے۔ یہ شمال کی طرف سینکڑوں میل دور ہے اور مصر کا حصہ نہیں تھا۔ اس کا مصر تک پہنچنا دوسروں کے ساتھ تجارتی روابط کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ سیڈار وڈ لبنان سے آئی۔ تابوتوں کے میٹیرئل کی لکڑی کا تجزیہ ایک پیٹرن کا بتاتا ہے۔ لکڑی مقامی ہو یا امپورٹڈ، سستی ہو یا مہنگی، اس پر کیا جانے والا کام کس قدر تفصیل رکھتا ہے، یہ سب مرنے والے کی معاشرتی حیثیت کے بارے میں آگاہ کرتا ہے۔
اس تابوت میں دوسری چیزیں ساتھ کیا رکھی ہیں؟ یہ اس دور میں لوگوں کے خیالات سے اور کلچر سے واقفیت دیتا ہے۔ پروں والا سکارب بیٹل جو مروہ اجسام میں پیدا ہو جاتا ہے، موت کے بعد زندگی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ اس میں بنی تصویر میں یہ کیڑا بندروں کے گروپ میں چڑھتے سورج کے سامنے ہے۔ اس میں “مُردوں کی کتاب” بھی ہے اور اس سے لی گئی تصاویر بھی۔ ستاروں کے جھرمٹ، منتر اور تصاویر سے مزین تابوت کا اندرونی حصہ ہوندرجیف کی موت کی تیاری کی سنجیدگی کی علامت ہے اور ہر نقش کے پیچھے ایک کلچرل اہمیت ہے۔
ہندرجیف کی موت کی اس تفصیل سے تیاری اس کو دنیا کے دوسرے حصے میں لے آئی۔ ہزاروں میل دور برطانیہ کے میوزیم میں۔ (اگر یہ سادہ طریقے سے دفن ہوتا تو کون دیکھنے آتا)۔ لیکن دریائے نیل کے قریب دفن ہونے والا یہ راہب اب دریائے ٹیمز کے پاس کیسے پہنچا؟ یہ پھر کالونیل دور کی لمبی کہانی ہے۔ اگر آپ جاننا چاہتے ہیں تو ہر شے بہت کچھ بتا سکتی ہے۔