مذہبی کتابوں اور انسانی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ کم از کم ابراہیمی مذاہب میں موجودہ جہنم کا تصور کئی صدیوں میں انسانی ذہنی ارتقائی عمل سے ہوتا ہوا موجودہ شکل اختیار کرگیا۔ بہت مؤرخین، محققین اور آثار قدیمہ کے ماہرین کی راۓ میں یہودی مذہب کی بنیاد کچھ رد و بدل کے ساتھ قدیم سامی، اکادین، اسیرئین، بیبیلونین، مصری اور کنعانی مذاہب و تہذیبوں پر رکھی گئی ہے۔
ابراہیمی مذاہب کی سب سے پہلی کتاب توریت حضرت موسیٰ پر نازل ہوئی لیکن حیرت انگیز طور پر توریت میں یوم قیامت, جنت، برزخ اور جہنم یا مرنے کے بعد شروع ہونیوالی ابدی زندگی کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ توریت کے علاوہ بائبل کے عہد نامہ قدیم (Bible Old Testament) کی باقی کتابوں میں بھی کسی پیغمبر نے موت کے بعد کی ذندگی کا کوئی خاص تصور پیش نہیں کیا۔ اب سوال یہ ہے کہ حضرت موسیٰ کو قیامت، بعد از مرگ زندگی، جنت، برزخ اور جہنم کے بارے میں کیوں علم نہیں تھا؟ کیا خدا نے بعد میں اپنا پلان تبدیل کردیا؟
سب سے پہلے لفظ جہنم کے مآخذ کا ذکر کر لیتے ہیں۔ یروشلم کے جنوب مغربی مقام پر ایک وادی تھی جو “وادی ہنم” (Hinnom Valley) کہلاتی تھی جسکا پورا نام وادی جی بین ہینم (Valley Gi-Ben-Hinnom) تھا اس وادی کا زکر بائبل میں انتہائی منفی انداز میں ہوتا ہے جس کی وجہ یہ تھی کہ جنوبی یہودی ریاست جو کہ یہودا (Judah) کہلاتی تھی اور یروشلم اسکا دارالحکومت تھا، وہاں کی یہودی آبادی کنعانی دیوتاؤں بآل (Ba’al) اور مولک (Molech) کے نام پر انسانی بچوں کی قربانی کیا کرتے تھے۔ حوالہ جات بائبل قدیم عہد نامہ (2 کنگز 23:20)، (2 کرونیکل 28:3 ،4) اور )(جرمایہ 7:31، 19:5، 6:32، 35)۔
وادی ہنم کو مزید منفی شہرت اس وقت حاصل ہوئی جب ریاست یہودا کے بادشاہ مناسیح (Manasseh) جو 687bc سے لیکر 643bc تک وہاں کا حکمران تھا اس بادشاہ نے اپنے چند بچوں کو دیوتا بآل کے نام پر قربان کردیا جس کا حوالہ بائبل قدیم عہد نامہ (6:Chronicle 33۔2)میں موجود ہے۔
وادی ہنم (Hinnom Valley)میں بچوں کو خدا کے نام پر قربان کرنے والی رسم کو بادشاہ یوشیاہ (King Josiah) جو کہ شاہ مناسیح پوتا تھا، نے مکمل طور پر ختم کر دیا، اسکے علاوہ شاہ یوشیاہ کے بارے میں تاریخی طور پر کہا جاتا ہے کہ اس نے یہودی مذہب اور عبادات کو ایک نئی جہت بخشی یا یوں کہہ لیجئے کہ یہودیوں میں ایک خدا یا وحدانیت کے اصل تصور کا آغاز شاہ یوشیاہ کے زمانے میں ہوا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لفط “جہنم” کہاں سے آیا۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا ہے چھٹی صدی قبل مسیح کے وسط میں شاہ یوشیاہ نے وادی ہنم میں بچوں کو خدا کے نام پر قربان کرنے والی رسم کا خاتمہ کردیا تھا لہٰذا یہ وادی ایک ایسی جگہ بن گئی جہاں شہر بھر کا کوڑا کرکٹ پھینکا اور جلایا جاتا تھا جس کی وجہ سے اس وادی میں آگ اور دھواں پھیلا ہوتا تھا، اس کے علاوہ شہر بھر میں تمام مرنے والے مردہ جانوروں کو بھی اسی وادی میں لاکر پھینک دیا جاتا تھا لہذا شہر بھر کی گند و غلاطت اور مردہ جانوروں کی وجہ سے وادی ہنم اور اسکے اطراف میں ایک ناقابل برداشت تعفن اٹھنا شروع ہوگیا، اسی تعفن کے باعث یروشلم کی یہودی آبادی اس وادی کو وادی ہنم کے علاوہ گند کی وادی اور کافروں کی وادی (Valli of Pagan) بھی کہنے لگے۔ وادی ہنم کو کافروں کی وادی کہنے کی وجہ یہودی قوم کا دوسرے مذاہب اور قوموں سے شدید نفرت کرنا تھا۔
وادی ہنم کا نام جہنم اس وقت پڑا جب تیسری صدی قبل مسیح میں عہد نامہ قدیم بائبل (Bible Old Testament) کا ترجمہ عبرانی زبان سے یونانی (Greek) زبان میں ہوا لہذا عبرانی زبان کی وادی جی-بین-ہینم (Valley of Gi-Ben-Hinnom) گریک زبان میں ترجمہ ہو کر جی-ہنم (Gi-Hinnom) بن گیا جسے اب جہنم کہا جاتا ہے۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ شاہ یوشیاہ کے دور حکمرانی (640bc سے 609bc)میں یہودیت میں وحدت (Monotheism)کا آغاز ہوا لیکن اسکے باوجود جہنم کا موجودہ تصور اس زمانے میں بھی نا تھا۔
یہودیت میں وحدانیت (Monotheism) کا ذکر یہاں یوں کرنا ضروری ہے کہ حضرت ابراہیم سے لے کر حضرت یوسف اور اس کے بعد حضرت موسی، حضرت داؤد یا حضرت سلیمان سے شاہ یوشیاہ تک ایک خدا کا تصور بہت مضبوط یا یقینی نہیں تھا۔
اگر حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق، حضرت یعقوب اور ان کے بارہ بیٹے بشمول حضرت یوسف سے لے کر حضرت موسیٰ تک کا زمانہ دیکھیں تو یہ سب ایلوہیم کے ماننے والے تھے۔ ہیبرو زبان (Hebrew)میں خدا کا نام ایلواہ(Eloah is Singular) جو کسی ایک خدا کے لئے اور ایلوہیم جو کہ ایک سے زائد خداؤں کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ توریت میں ایلوہیم استعمال کیا گیا ہے قدیم عہدنامہ میں ایلوہیم کالفظ 2500 بار سے زائد استعمال ہوا ہے ، یعنی جب ہم توریت کی پہلی آیت پڑھیں تو “ابتداء میں خداؤں نے زمین و آسمان تخلیق کئے” (Gen 1:1).
اب حضرت موسی کے یہواہ خدا کی طرف آتے ہیں۔ موسیٰ کو جو پہلے دس خدائی احکامات پتھر کی سلوں پر ملے تھے ان میں دوسرا حکم “تم میرے علاوہ دوسرے خداؤں کو مت مانو, میں ایک جیلس (Jealous God) خدا ہوں (Exodus 20:3-5). اس حکم میں کہیں بھی دوسرے خداؤں کی موجودگی کی نفی نہیں کی گئی ہے۔
حضرت داؤد کے اپنے گھر میں تیرافم (Teraphim) نامی بت کی موجودگی کا تذکرہ بائبل موجود ہے (Samuel 19:13-14).
بائبل عہد نامہ قدیم میں حضرت داؤد کے بیٹے حضرت سلیمان کی بت پرستی سب سے نمایاں ہے۔ بائبل کے مطابق حضرت سلیمان کی سات سو بیویاں اور تین سو لونڈیاں تھیں جنہوں نے انہیں سیدھے راستے سے بھٹکا کر بت پرستی پر لگا دیا (1King 11:3)۔ حصرت سلیمان اشتر دیوی اور مولک دیوتا کی بھی عبادت کیا کرتے تھے (King 11:6-8).
واپس اپنے موضوع کی طرف آتے ہوئے ایک اہم نکتے کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ بہت سے محققین اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ موجودہ بائبل عہد نامہ قدیم کا اصل ظہور شاہ یوشیاہ کی حکمرانی کے اٹھارویں سال یعنی 622b.c میں ہوا۔ قصہ یہ ہے کہ جب ہیکل سلیمانی کی مرمت کا کام ہورہا تھا تو اچانک ہیکل کے سب سے بڑے ہلکیاہ نامی پیشوا (High Priest) کو بائبل کی بہت سی کتابیں سکرول (Scrolls) کی شکل میں مل گئیں جو صدیوں سے لاپتہ تھیں ان کتابوں میں دوئم کنگز، دوئم کرونیکلز اور مکمل توریت یا توریت کی پانچویں کتاب ڈیوٹرونومی (Deuteronomy) جو کہ حضرت موسیٰ پر اتری ہوئی قانون الہی کی کتاب تھی (اب سوال یہ ہے کہ اگر توریت کئی صدیاں غائب رہیں تو حضرت موسیٰ پر اترنے والی کتابوں پر عمل کیسے ہوتا ہوگا)۔
مورخین اور بائبل کے محققین شاہ یوشیاہ کو اس بات کا کریڈٹ دیتے ہیں کہ اس نے یہودی مذہب میں اصلاحات کا سلسلہ شروع کیا جس میں ہیکل سلیمانی سمیت تمام یہودی مذہبی عبادتگاہوں سے بتوں کو ہٹوایا، بت پرستی کی خانقاہوں کو ختم کیا یا بت پرستانہ عبادات پر پابندی لگا دی گئی۔ بہرحال ان ملنے والی گمشدہ کتابوں میں بھی جہنم یا بعد از مرگ کسی ابدی زندگی کا کوئی لفظ موجود نا تھا۔
یہودیت کی مذہبی تعلیمات اور قانون کی کتاب مشںناہ (Mishnah) کے مطابق یہ اہم نہیں ہے کہ مرنے کے بعد کیا ہوگا, مرنے کے بعد کا فیصلہ خدا پر چھوڑ دیا جائے، اہم یہ ہے کہ بہتر زندگی کس طرح گزاری جائے اور اچھے کام صرف اچھائی کے لئے کئے جائیں۔
علمی دنیا کے بائبل کے ماہرین کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ بائبل عہد نامہ قدیم یم بشمول توریت بعد از مرگ ابدی زندگی کا کوئی تصور نہیں۔ امریکہ کی یونیورسٹی آف مشیگن (University of Michigan) کے استاد اور بائبل کے انتہائی نامی گرامی سکالر جارج مینڈینہال (George Mendenhall) کی بھی یہی رائے تھی۔
اسکے علاؤہ ایک بہت معروف قدامت پرست یہودی دانشور یشایاہو لیبووٹز (Yeshayahu Leibwitz) نے 1991 میں ایک انٹرویو میں کہا کہ “موت کی کوئی اہمیت نہیں، اہمیت صرف زندگی کی ہے” اسی انٹرویو میں مزید کہتے ہیں کہ “پوری توریت موت کے بعد کی زندگی کا ہلکا سا اشارہ بھی نہیں کرتی، موت کے بعد انسان کا کوئی وجود ہی نہیں رہتا تو دوسری زندگی کیسی، نیز بعد از مرگ اپنی زندگی سوائے لوک داستانوں کے سوا کچھ نہیں!!!
Refrences:
Prolegomenato the History of Israel by Julius Wellhausen
Refrences:
Gehenna The Topography of Hell by L. R. Bailey
Mishnah
Old Testament Bible King James Version
Deceptions and Myths of the Bible by: Lloyd M. Graham
The Gilgamesh Epic and Old Testament Parallels by A. Heidel
Death and Eternal Life by John Hick
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...