اس کبوتر کے بارے آپ نے ہزار بار سنا اور سو بار پڑھا ہو گا جو بلی کو دیکھ کے آنکھیں بند کر لیتا ہے… مگر یہاں بلی کی آنکھیں بند تھیں اور کبوتر بلی کے چہرے پہ پسینے کے قطرے تک گن سکتا تھا…
جون کی دوپہر تھی کہ جہنم کی دوپہر.. لوگ کمروں میں گھسے پنکھے لگائے سو رہے تھے.. کچھ جانوروں کو لے کے گاؤں کے باھر درختوں کی چھاؤں میں لیٹے تھے مگر میری نیندیں اڑ گئی تھیں، صحن میں درخت کے نیچے بیٹھے کبوتروں میں سے میرا ایک کبوتر (شاہ رخ خان، جس کا میں نے نام رکھا تھا) اڑ گیا تھا… میں دوڑ کے چھت پہ چڑھا… بنیان اور شلوار میں دو چھتیں پھلانگیں تو حوالدار منظور کی چھت پہ شاہ رخ خان دکھائی دیا… مخصوص آواز میں اسے بلایا مگر وہ کم بخت منڈیر سے اڑ کے نیچے صحن میں اتر گیا… لوگوں کی چھتوں پہ بنا آواز چلتا ہوا میں حوالدار صاحب کی چھت پہ جا پہنچا…
نیچے جھانکا تو حوالدار صاحب کی اکلوتی بیٹی صاعقہ، جسے نیلی آنکھوں کی وجہ سے بلی کہتے تھے، صحن میں لگے لیموں کے پودوں کو پانی دے رہی تھی اور میرا شاہ رخ خان ان کے پائپ سے گرتے پانی کے آگے پیچھے گھوم رہا تھا… میں سیڑھیاں اتر کے نیچے آیا تو مجھے دیکھ کے صاعقہ نے گھبرا کے پائپ نیچے پھینکا اور پتلی سی سفید قمیض سے جھانکتے دو سفید ٹیلے، بازوؤں سے چھپانے لگی.. میں تھوڑا آگے بڑھا اور وہ نظریں جھکائے، گالوں پہ اترتی سرخیاں لیے دو قدم پیچھے ہٹ گئی…
"گھر میں کوئی نہیں ہے"
اس کی آواز دھوپ کی شدت میں پانی کے چھینٹوں جیسی تھی…
"میں شاہ رخ لینے آیا ہوں جی"
یہ کہتے ہی میں کبوتر کی طرف لپکا مگر وہ اڑ کے دو قدم دوسری طرف چل پڑا…
اس کی ہنسی چوڑیوں کی چھنکار جیسی تھی…
"یہ شاہ رخ خان ہے… ہی ہی ہی… تو آپ کیا ہو"
اس کی موٹی موٹی آنکھیں شرارت سے اور پھیل گئیں …
"میں شوکی ہوں جی"
اور صحن میں اس کی ہنسی کے جلترنگ گونجنے لگے…. شاہ رخ اس کے پاؤں کے پاس جا کھڑا ہوا…..
"واہ بھئی، بڑا جی دار کبوتر ہے آپ کا ، بلی کے ساتھ یوں لگ کے کھڑا ہے"
چارپائی سے دوپٹا اب گلے کے بیچ لٹک رہا تھا
"آخر شاہ رخ خان ہے جی"
میں نے مخصوص آواز دی تو وہ ٹس سے مس نہ ہوا… وہ صحن میں گرے پانی کے قطرے پینے میں مصروف تھا.
"جی، آپ ہی پکڑ دیں اسے، آج تو مجھ سے بھی اجنبی ہو گیا ہے "
"ہائے.. میں کیوں پکڑوں، اب یہ میرا ہو گیا ہے"
"یہ بھی ٹھیک ہو گیا جی،آپ کا ہی سہی مگر آپ کہاں اسے سنبھالتی پھریں گی، مجھے دے دیں، سنبھال کے رکھوں گا جی"
"بہت چالاک ہیں آپ"
ماتھے پہ پسینے کو دوپٹے سے صاف کرتے ہوئے اس نے جھک کے کبوتر اٹھا لیا… شاید زور سے پکڑنے پہ کبوتر پھڑپھڑانے لگا… میں جلدی سے پاس گیا اور کبوتر کو اس کے ہاتھ سے لینا چاہا… اس کے ہاتھوں میں کبوتر تھا اور میرے ہاتھوں میں اس کے ہاتھ … دل کا پمپ زوروں سے چلنے لگا تھا… اس کی آنکھیں گلاب رنگ ہونے لگی تھیں.. میں نے کبوتر پکڑنا چاہا مگر وہ اس کے ہاتھوں سے اڑ گیا… اس کے ہاتھ مسلسل میرے ہاتھوں میں تھے اور وہ پسینے میں بھیگتی سمٹتی جا رہی تھی… میں نے اس کے ہاتھ چھوڑے اور بازوں اس کی کمر کے گرد ڈال کے اپنی طرف کھینچا تو دو نالی بندوق جیسے میرے سینے پہ آن لگی… اس کے ہونٹوں کی تپش سے میرے ہونٹ جل اٹھے مگر کسی جہنمی کی طرح میرے ہونٹ اس آگ کو چھوڑ نہیں رہے تھے … بلی کی آنکھیں بند تھیں اور کبوتر بلی کے چہرے پہ پسینے کے قطرے گن رہا تھا…