عدل جہانگیری کے لئے مشہور ہندوستان کا مغل بادشاہ جہانگیر 1627ء میں کشمیر سے واپسی پر راجوڑی کے مقام پر وفات پا گیا۔ اس کی بیوی ملکہ نورجہاں نے شاہی حکیم کو حکم دیا کہ شہنشاہ کو میں لاہور میں دفن کروں گی چنانچہ حکیم نے شہنشاہ کے بدن میں نشتر لگا کر اسے کھولا اور مردہ بدن کے وہ حصے نکال لئے جو دو چار دن میں گل سڑ جاتے ہیں۔ ان حصوں کو وہیں دفن کر دیا گیا اور وہاں آج بھی جہانگیر کے بدن کے کچھ حصے دفن ہیں اور ان پر ایک یادگار بنی ہے۔ جہانگیر کی میت لاہور لائی گئی اور یہاں اسے دفن کر دیا گیا۔ نورجہاں کو اپنے بھائی آصف جاہ سے بہت پیار تھا۔ یہ آصف جاہ تاج محل والی ممتاز محل کا باپ تھا۔ جب آصف جاہ فوت ہوا تو نورجہاں نے اسے بھی جہانگیر کے مقبرے سے متصل دفن کیا اور جب وہ خود بہتر سال کی عمر میں فوت ہوئی تو وصیت کے مطابق اپنے بھائی کے برابر میں دفن کی گئی۔ نورجہاں کی بیٹی لاڈلی بیگم بھی اپنی ماں کی قبر کے برابر میں دفن ہوئی۔ چنانچہ یہ چاروں
1- جہانگیر ہندوستان کا بادشاہ
2- اس کا برادر نسبتی آصف جاہ
3- اس کی بیوی نورجہاں
4- نورجہاں کی بیٹی لاڈلی بیگم (نورجہاں کے پہلے شوہر سے تھی)
شروع میں وفات کے بعد ایک ہی وسیع و عریض جگہ پر باغات میں گھرے مختلف احاطوں میں مدفون تھے۔ جب برصغیر میں ریل گاڑی کی پٹڑی بچھائی گئی تو انگریز نے مغل تاریخی ورثے کا لحاظ نہ کرتے ہوئے ان مقبروں کے درمیان ریل کی پٹری بچھا دی یوں نورجہاں اپنے خاوند اور بھائی سے کٹ گئی۔ ان کے مقابر کے درمیان میں سے ریل گاڑیاں دھواں اڑاتی چھک چھک کرتی گزرنے لگیں۔ سکھوں کے ہاتھوں بربادی کے بعد سے ان مقابر کی حالت بہت بری تھی۔ ملکہ نورجہاں کا مقبرہ تو کھنڈر نما عمارت رہ گئی تھی جس میں چمگادڑوں کا بسیرا تھا اور دن کو بھی یہاں شب کی سیاہی کا سماں تھا اور لوگ جاتے ہوئے ڈرتے تھے۔ اب محکمہ آثار قدیمہ کی توجہ سے نورجہاں کا مقبرہ پھر سے اپنے اصلی شاندار مغل طرز تعمیر و منقش روپ میں واپس آ رہا ہے۔ مقبرے کے گرد باغ کو بھی نکھارا گیا ہے اور ایک چار دیواری اس کا احاطہ کر رہی ہے۔ مقبرے کے نیچے ایک تہہ خانے میں ملکہ نورجہاں اور اس کی بیٹی کی قبریں ہیں جن کی بابت کہا جاتا ہے کہ نورجہاں اور لاڈلی بیگم کے صندوق نما تابوت دفن نہیں کئے گئے تھے بلکہ تہہ خانے میں زنجیروں سے معلق کر دیے گئے تھے۔
تہہ خانے کے کونے میں آہنی کنڈے نصب کبھی ہم نے دیکھے تھے جن سے وہ تابوت باندھے گئے تھے۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے سینکڑوں مغل عمارات ‘ مقابر اور محلات کو خوب تباہ کیا۔ قیمتی پتھر اور آرائش غائب ہو گئیں نورجہاں کے مقبرے کا بھی یہی حشر کیا۔ امکان یہی ہے کہ معلق تابوتوں میں سے لاشیں یا ان کے باقیات نکال کر یہیں تہہ خانے میں دفن کر کے زمین برابر کر دی گئی اور تابوت چونکہ بیش قیمت اور نقش و نگار سے مرصع تھے انہیں سکھ حضرات لے گئے۔ اب قبروں کی جگہ کی۔نشان دہی ایک زنجیر سے کی گئی ہے۔ لیجئے کچھ تصاویر نورجہاں اور اس کی بیٹی کے مقبرے کی اور اس مقبرے کی بابت ایک شہرہ آفاق نظم؛
نور جہاں کا مزار
دن کو بھی یہاں شب کی سیاہی کا سماں ہے
کہتے ہیں یہ آرام گہہ نورجہاں ہے
مدت ہوئی وہ شمع تہ خاک نہاں ہے
اٹھتا مگر اب تک سر مرقد سے دھواں ہے
جلووں سے عیاں جن کے ہوا طور کا عالم
تربت پہ ہے ان کے شب دیجور کا عالم
اے حسن جہاں سوز کہاں ہیں وہ شرارے
کس باغ کے گل ہو گئے کس عرش کے تارے
کیا بن گئے اب کرمک شب تاب وہ سارے
ہر شام چمکتے ہیں جو راوی کے کنارے
یا ہو گئے وہ داغ جہانگیر کے دل کے
قابل ہی تو تھے عاشق دلگیر کے دل کے!
تجھ سی ملکہ کے لیے بارہ دری ہے
غالیچہ سر فرش ہے کوئی نہ دری ہے
کیا عالم بے چارگی اے تاجوری ہے
دن کو یہیں بسرام یہیں شب بسری ہے
ایسی کسی جوگن کی بھی کٹیا نہیں ہوتی
ہوتی ہو مگر یوں سر صحرا نہیں ہوتی
تعویذ لحد ہے زبر و زیر یہ اندھیر
یہ دور زمانہ کے الٹ پھیر یہ اندھیر
آنگن میں پڑے گرد کے ہیں ڈھیر یہ اندھیر
اے گردش ایام یہ اندھیر! یہ اندھیر
ماہ فلک حسن کو یہ برج ملا ہے
اے چرخ ترے حسن نوازش کا گلا ہے
حسرت ہے ٹپکتی در و دیوار سے کیا کیا
ہوتا ہے اثر دل پہ ان آثار سے کیا کیا
نالے ہیں نکلتے دل افگار سے کیا کیا
اٹھتے ہیں شرر آہ شرر بار سے کیا
یہ عالم تنہائی یہ دریا کا کنارا
ہے تجھ سی حسینہ کے لیے ہو کا نظارا
چوپائے جو گھبراتے ہیں گرمی سے تو اکثر
آرام لیا کرتے ہیں اس روضے میں آ کر
اور شام کو بالائی سیہ خانوں سے شپر
اڑ اڑ کے لگاتے ہیں در و بام کے چکر
معمور ہے یوں محفل جاناں نہ کسی کی
آباد رہے گور غریباں نہ کسی کی
آراستہ جن کے لیے گل زار و چمن تھے
جو نازکی میں داغ دہ برگ سمن تھے
جو گل رخ و گل پیرہن و غنچہ دہن تھے
شاداب گل تر سے کہیں جن کے بدن تھے
پژمردہ وہ گل دب کے ہوئے خاک کے نیچے
خوابیدہ ہیں خار و خس و خاشاک کے نیچے
رہنے کے لیے دیدہ و دل جن کے مکاں تھے
جو پیکر ہستی کے لیے روح رواں تھے
محبوب دل خلق تھے جاں بخش جہاں تھے
تھے یوسف ثانی کہ مسیحائے زماں تھے
جو کچھ تھے کبھی تھے مگر اب کچھ بھی نہیں ہیں
ٹوٹے ہوئے پنجر سے پڑے زیر زمیں ہیں
دنیا کا یہ انجام ہے دیکھ اے دل ناداں
ہاں بھول نہ جائے تجھے یہ مدفن ویراں
باقی ہیں نہ وہ باغ نہ وہ قصر نہ ایواں
آرام کے اسباب نہ وہ عیش کے ساماں
ٹوٹا ہوا اک ساحل راوی پہ مکاں ہے
دن کو بھی جہاں شب کی سیاہی کا سماں ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
شاعر تلوک چند محروم