جہاں تیرا ہے یا میرا : عبد الصمد کے نیے ناول کا تعارف
— مشرّف عالم ذوقی
اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا.
مجھے فکر جہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا
اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لا مکاں خالی
خطا کس کی ہے یا رب لا مکاں تیرا ہے یا میرا ( علامہ اقبال )
علامہ اقبال کے شعر سے استفادہ کرتے ہوئے عبد الصمد نے اپنے نیے ناول کا نام ہی رکھ دیا ..جہاں تیرا ہے یا میرا ..چار سو صفحات پر مشتمل ناول کی مکمل دنیا انہی دو شعروں پر مشتمل ہے ..ہم جس کتھارسس سے گزر رہے ہیں ، اس کو قریب سے سمجھنا ہے تو اس ناول کا مطالعہ آپ کے لئے ضروری ہو جاتا ہے .اس ناول میں ہندوستان بھی ہے اور امریکہ بھی .نائن الیون بھی ہے اور اس کے بعد کی خوف زدہ دنیا بھی ..
مہذب دنیا میں ایسے حادثے اب مسلسل ہو رہے ہیں— ایسے خوفناک حملوں کو لے کر سیاست بھی تیز ہو جاتی ہے۔ نشانے پرکون ہوتا ہے، یہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ طالبان اور داعش جیسی تنظیموں کو بنانے والے کون ہیں؟ کیا یہ حقیقت کسی سے چھپی ہوئی ہے؟ اسامہ بن لادن کے پس پشت کس کا ہاتھ تھا؟ سیرئن سیول وار کی بات کریں تو یونیسف کی رپورٹ کے مطابق اب تک ۲ لاکھ ۰۲ ہزار سے زائد جانیں جا چکی ہیں۔ 8803 سے زیادہ بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔ 800 سے زیادہ بچّے قید خانوں میں ظلم و زیادتی کے شکار ہوئے۔ آکسفورڈ ریسرچ گروپ کے مطابق0 1200 بچے مارے گئے۔ یہ تعداد بڑھتی جار ہی ہے۔ کیا ہم نے افغانستان ،لیبیا اور عراق کا حشر نہیں دیکھا….؟ کچھ چھوٹے چھوٹے سوال ہیں جو مجھے پریشان کرتے ہیں۔دہشت گرد تنظیموں کے خوفناک ارادے اپنی جگہ، میں 9/11 میں ہلاک ہونے والوں کو اُسی نظر سے دیکھتا ہوں، جس نظر سے سیریا، چیچنیا، فلسطین، عراق، افغانستان، روہنگیا کی تباہی دیکھتا ہوں۔ مشہور ناول نگار، ارنیسٹ ہیمنگوے نے کہا تھا کہ ایک بھی انسان مرتا ہے تو انسانی برادری میں کمی آجاتی ہے۔ میں شرمندہ ہوتا ہوں، ایک بھی انسان کے مرنے پر۔ لیکن یہ بھی سوال ہے کہ یہ دہشت گرد کون ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں اور کس نے پیدا کیے ہیں؟ نفرت کا حل نفرت نہیں ہے۔ دہشت گرد بم برساتے ہیں تب بھی انسانی جانیں شکار ہوتی ہیں اور اس کے بعد انتقامی رویوں کے طور پر جب حکومتیں آگ اُگلنے، میزائل اور راکٹ پھینکنے کا کام کرتی ہیں تو اس رد عمل کو کیا نام دیا جائے؟ فرانس اور امریکہ نے شام کے کیی مقامات پر بھی حملے کیے .کیا یہ انکا اپنا خوف ہے ؟ کیا سپر ممالک خوفزدہ ہیں ؟ ت کیا ان حملوں میں صرف دہشت گردوں کی جان جائے گی؟ کیا معصوم عوام حملے کی دہشت سے بچ سکیں گے؟ یہ وقت بڑی مچھلیوں کے فیصلے کا ہے جو معاشی اور اقتصادی سطح پر مضبوطی کے لئے لیبیا سے عراق،افغانستان اور سیریاتک سیاست کے اپنے خوفناک جال بچھاتی ہیں۔ امن و سکون کے نام پر، انسانیت کے پیغام کے ساتھ کہیں کوئی قذافی مارا جاتا ہے کہیں کوئی صدام۔ اور کوئی ابامہ، کوئی پتین، کوئی بش، کویی ٹرمپ اساماﺅں کو پیدا کرنے کے باوجود خاموش رہتا ہے۔آج عالمی نقشے پر جو جنگ کی صورت حال پیدا ہوئی ہے ، اُس کے لئے روس، امریکہ اور فرانس کی پالیسیاں قصوروار نہیں؟ یہ کیسی سیاست اور دبدبہ ہے ایک بعد ایک ملک پر نشانہ لگاتے ہوئے بڑی مچھلیاں اپنی طاقت اور انصاف کا ڈھنڈھورا پیٹتی ہیں؟ اور سربراہ کانفرنسوں میں دہشت گردوں کو اکھاڑ پھینکنے کی آواز تیز ہوتی ہے۔ کیا ان ممالک سے بڑا کوئی تاناشاہ ہے۔ موت کے کھیل میں ایک بازی دہشت گردوں کے ہاتھ ہوتی ہے اور دوسری بازی حکومتوں کے ہاتھ۔– دہشت گرد کے ہاتھ تو سمجھ میں آجاتے ہیں مگر حکومتوں کے ذریعہ کی گئی ہلاکت کو انسانیت بچانے کا نام دیا جاتا ہے۔
نائن الیون کا حادثہ کس کی دین تھا ، ایسے ہزاروں سوالات ہیں جو ناول کو پڑھتے ہوئے ہمیں کیی مقام پر جھنجھوڑنے کے لئے کافی ہیں .یہاں ایک بڑا ویژن ہے .مکالمے عام فہم نہیں بلکہ نیی دنیا کو نیی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کی گیی ہے ..۔ ہلاکت کی کہانیاں اس وقت پوری دنیا میں لکھی جا رہی ہیں اور انکا ہی ایک حصّہ ہندوستان بھی ہے .
ناول آغاز سے ہی آپکو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے .
مسلم اقلیت تعلیمی سطح پر خود کو تیار کریں تو امریکہ تک کے دروازے ان کے لئے کھل جاتے ہیں ..امریکہ آج بھی ہمارے خوابوں پر دستک دیتا ہے . امریکہ بہت سے نوجوانوں کے لئے خوابوں کی سر زمین ہے ، یہ جانتے ہوئے بھی کہ نائن الیون کے بعد کا امریکہ بہت حد تک تبدیل ہو چکا ہے ..اور اسی لئے ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے سے قبل مسلم مخالفت کی جس جنگ کا اعلان کیا ، اسکو امریکی عوام نے ہاتھوں ہاتھ لیا .ساری دنیا کے ساتھ دہشت گردی کا کھیل کھیلنے والا امریکہ کس قدر خوف زدہ ہے ، یہ بات نائن الیون حادثے کے بعد صاف ہو چکی ہے . ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد امریکہ سے مسلمانوں کو باہر نکال پھیکنے کا ارادہ کیا ؟ کیا یہ محض ارادہ تھا ؟ کہ بیشتر ممالک کے ساتھ ہندوستان بھی اسی نقش قدم پر چل پڑا ؟ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکی مسلمانوں کی نگرانی مزید سخت کی جانی چاہیے اور وہ اس مقصد کے لیے حکومت میں آکر ایسا اقدام کریں گے جو اس سے پہلے کسی نے نہیں کیا۔ میرے خیال میں امریکی مسلمانوں کے لیے الگ شناختی کارڈ بنائے جانے چاہئیں اور انہیں پابند کیا جانا چاہیے کہ وہ ہر وقت کارڈ گلے میں پہنے رکھیں، تاکہ ان کی مؤثر انداز میں نگرانی کی جاسکے۔..کتے کے گلے میں پٹے باندھنے جیسی تجویز نے عالمی نقشے پر مسلمانوں کو کہاں کھڑا کیا ہے ، یہ بات عبد الصمد کے اندر بھی گونج رہی تھی ..اس لئے امریکہ کو استعارہ بنا کر ان سوالوں کا جواب دینے کی کوشش کی ، جس کی ضرورت اب پہلے سے کہیں زیادہ ہے . اور اسی لئے ناول کا مرکزی کردار ہندوستانی اقلیتی مسائل کا سامنا کرتا ہوا امریکہ پہنچتا ہے . وہ اپنی محبوبہ بھی اس سفر
کے لئے قربان کرتا ہے اور بہت قریب سے خوف زدہ امریکہ کی نفسیات کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے .
یہاں امریکہ ایک سنجیدہ کردار کے طور بھی ہمارے سامنے ہے ..اور ایسا لگتا ہے جیسے مصنف امریکہ کے صرف ہر ایک خطہ سے واقف نہیں بلکہ امریکہ کی روح تک کو پہچانتا ہے . یہ وہی امریکہ ہے جس کی پر رونق شاہراہ پر کچھ برس قبل ایک مسلمان کو دیکھا گیا جو اپنی بانہیں پھیلاہے کھڑا تھا کہ میں دہشت گرد نہیں اور سیکڑوں امریکی اس کی حمایت میں سامنے آ گئے تھے ..ٹرمپ کی مسلم مخلفت امریکی میڈیا کو آج تک پسند نہیں آیی ..وہی امریکہ ، جس کے بارے میں عبد الصمد نے لکھا ..امریکی عوام آزاد ہے اور امریکی حکومت غلام .. ایک خوفزدہ امریکہ جہاں قدم قدم پر مسلمانوں کی نگرانی ہو رہی ہے ..اور جس کے بارے میں امریکی پروفیسر اس ناول میں ہمارے ہیرو سے کہتا ہے ..ہم اس عالمی نظام میں سب سے نیے اور جدید ہیں اور اسی لئے ہماری جمہوریت بر قرار ہے ..حکومتیں آتی جاتی ہیں .سب کچھ عوام ہیں .جنہیں اپنی آزادی سے زیادہ کچھ بھی پیارا نہیں .تین برس قیام کے دوران ارشد کیی واقعات اور حادثات سے گزرتا ہے پھر اپنے ملک واپس آ جاتا ہے ..اس نے نیے امریکہ کے اس خوف کو ڈسکور کر لیا تھا ، جس نے عالمی سطح پر اپنا خوف برپا کر رکھا ہے .
عبد الصمد کا یہ ناول پڑھنے کی چیز ہے .ہندستان میں ایک اچھے اور ضروری ناول کا اضافہ ہوا ہے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“