جہاں راتیں جاگتی اور خواب بکتے تھے۔۔۔
"رقص و موسیقی کی جو عظیم روایت نوابوں، جاگیرداروں، راجوں اور مہاراجوں کے درباروں میں پروان چڑھی تھی وہ تو جاگیروں اور راجواڑوں کے ساتھ ہی دم توڑ گئی لیکن بازارِ حسن کی شکل میں اس کی جو باقیات رہ گئی تھیں، اب وہ بھی آخری دموں پر ہیں۔ لاہور کا بازارِ حسن جسے پرانے لاہوری شہر کے ماتھے کا جھومر کہتے تھے، اب گمنامی کے اندھیرے میں کھو گیا ہے۔
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے
شہر قدیم کے ٹکسالی دروازے کے اندر رقص و سرور سے منسوب یہ علاقہ زمانہ قدیم سے ہی موسیقاروں اور رقاصاؤں کا مسکن ہے۔ مغل عہد میں اس علاقے کو شاہی محلہ کا نام دیا گیا اور بعدازاں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں ہیرا سنگھ کے نام پر اسے ہیرا منڈی پکارا جانے لگا۔
ٹکسالی دروازے کا علاقہ شاہی قلعے کے بالکل عقب میں واقع ہے اس لحاظ سے یہ امرا اور شاہی حکمرانوں کی توجہ کا خاص مرکز رہا ہے۔ اندرون ٹکسالی دروازے کا شاہی محلہ قدیم دور سے ہی طوائفوں کا مرکز رہا ہے۔ ہر چند کہ اب شاہی محلہ کی رونقیں ناپید ہو چکی ہیں لیکن کسی زمانے میں گھنگھروؤں کی چھنکار سے یہ علاقہ گونجتا تھا۔ دوسری جانب ٹبی کا علاقہ پیشہ ور عورتوں کا مسکن ہے
امراء کے لئے ہیرا منڈی میں آنا شان کی علامت سمجھا جاتا تھا اور ان میں سب سے خوبصورت طوائف کا مالک ہونا فخر اور بڑائی کی علامت تصور ہوتا تھا۔
زمانہ قدیم میں طوائف کا گھر ثقافت کا گہوارہ سمجھا جاتا تھا ، خاص طور پر مغل عہد میں ناچنے گانے والی چند لڑکیوں نے شاہی دربار تک رسائی حاصل کر لی تھی۔ وہاں وہ اشرافیہ کو موسیقی، شاعری اور رقص میں اپنی کاملیت اور دستگاہ کی بدولت تفریح کا سامان مہیا کرتی تھیں۔ ان میں برطانوی مہمان بھی شامل ہوتے تھے۔ امراء اور نواب خاندانوں کے نوجوان کو آداب و وضع داری سکھانے کے لئے طوائفوں کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں۔
برصغیر کے سینما کی ابتدائی دور میں لاہور کا یہ علاقہ خاص اہمیت کا حامل تھا۔ یہیں پر لاہور کا قدیم تھیٹر واقع تھا جسے بعد ازاں پاک ٹاکیز کا نام دے کر سینما گھر میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہاں پر ملکہ ترنم نور جہاں اور دیگر اداکارائیں اپنے فن کا مظاہرہ کر چکی ہیں۔ پاک ٹاکیز کے ساتھ ہی باؤ حمید کی کٹڑی ہے جہاں اردو ادب کے معروف افسانہ نگار غلام عباس قیام پذیر رہے۔ غلام عباس کا افسانہ ’آنندی‘ کا تانہ بانہ بھی ہیرا منڈی کے گرد بنا گیا ہے اور بعدازاں اسی افسانے سے ماخود فلم ’منڈی‘ بھی تیار کی گئی۔
اندرون شہر کے اس علاقے کی فضا کبھی عطر کی خوشبوؤں سے لبریز ہوتی تھی، کانوں میں رس گھولتی موسیقی کی آواز اور طبلے کی تھاپ کے ساتھ گھنگھروؤں کی چھنکار ماحول کو خوشگوار بنا دیتا۔ آج اندرون ٹکسالی کے گلیاں گندگی اور تعفن سے لبریز ہیں۔ گشت کرتی ہوئی پولیس کی ٹولیاں ہیں اور دروازوں کی اوٹ سے جھانکتی آنکھوں میں خوف جھلکتا ہے۔ اب نہ گھنگھروؤں کی چھنکار سنائی دیتی ہے اور نہ رقص کا کوئی سامان مہیا ہے۔ بس چند دروازے ہیں اور ان کے اوٹ میں کھڑی گاہک کی منتظر آنکھیں
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔