جب سے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے پاکستان کو پہلے سے زیادہ کرپٹ قرار دیا ہے اور بنگلہ دیش اور بھارت کی پوزیشن بہتر ہوئی ہے ہم آہ و زاری میں مصروف ہیں۔ کالم نگاروں نے سر کے بال کھول لئے ہیں اور سینوں پر دوہتھڑ مار رہے ہیں۔ دانشور بین کر رہے ہیں اور تجزیہ نگار مرثیہ خوانی سے آسمان میں شگاف ڈال رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کب تک ہم فقط آہ و زاری کریں گے اور سینے پیٹتے رہیں گے؟
آئیے! اس ملک کے ایک باشعور شہری کی حیثیت سے ہم اپنا فرض ادا کریں۔ ہم حکومت سے درخواست کریں کہ کم از کم تین ایسے معاملات جن میں کرپشن ثابت ہو چکی ہے اپنے منطقی انجام کو پہنچائے۔ یہ تین ایسے معاملات ہیں جن میں ملک کے طاقت ور افراد ملوث ہیں۔ یہ افراد ان قبیلوں، ان طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں آج تک سزا نہیں ملی۔ انہی طبقات کو دیکھ کر دوسرے لوگ کرپشن کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں اور مجبور بھی! اگر ہم چاہتے ہیں کہ آہ و فغان کرنے کے بجائے اس ضمن میں عملی طور پر بھی کچھ کریں تو ہم سے ہر ایک کو چاہئے کہ چار روپے کا لفافہ لیکر جناب وزیراعظم کی خدمت میں استدعا کریں کہ وہ ان معاملات کو منطقی انجام تک پہنچائیں۔ ایک بار… صرف ایک بار… اگر اس کلاس کے افراد کو سزائیں دیدی جائیں تو ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل جیسے ادارے ہمارے بارے میں اپنی رائے پر نظر ثانی کر سکیں گے۔
اس ملک میں سیاستدانوں کو سزائیں ملی ہیں۔ لیکن آج تک کسی ریٹائرڈ جرنیل کا احتساب نہیں کیا گیا۔ ہم سمجھتے ہیں جو ریٹائرڈ جرنیل دیانتدار ہیں اور اچھی شہرت کے مالک ہیں انہیں سب سے پہلے یہ مطالبہ کرنا چاہئے کہ کالی بھیڑوں کو الگ کر کے کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی کی رپورٹ ثابت کر چکی ہے کہ این ایل سی کے ریٹائرڈ جرنیل اس ادارے کو تقریباً پونے دو ارب روپے کا نقصان پہنچانے کے ذمہ دار ہیں۔ ان جرنیلوں نے اس وقت کے وزیراعظم کے واضح احکام کو پامال کرتے ہوئے سٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری شروع کر دی۔ انہوں نے ملازمین کا پنشن فنڈ بھی سٹاک ایکسچینج میں جھونک دیا اور پھر انہوں نے دنیا کا عجیب و غریب کام کیا۔ انہوں نے بینکوں سے دو ارب روپے ادھار لئے اور وہ بھی اس ’’سرمایہ کاری‘‘ میں ڈال دئیے۔ ادارہ آج تک ان قرضوں پر سود ادا کر رہا ہے۔ دوسری طرف ایسے جرنیل بھی ہیں جنہوں نے اپنے عرصہ ملازمت میں پھونک پھونک کر قدم رکھا، قانون کا احترام کیا اور ریاست کو ایک پائی کا نقصان نہیں پہنچایا۔ لیکن ان نیک نام جرنیلوں کا فرض نہیں کہ ان جرنیلوں کو سزا دینے کا مطالبہ کریں؟ تاکہ ان کا پورا طبقہ بدنام نہ ہو۔
دوسرا معاملہ ریلوے کا ہے۔ اس میں بھی ریٹائرڈ جرنیل ملوث ہیں۔ پارلیمنٹ کی بیس رکنی کمیٹی نے اس معاملے میں انکوائری کی۔ 2001ء میں ان جرنیلوں نے ریلوے کی قیمتی زمینوں پر گالف کورس بنوائے اور قانونی تقاضے پورے کئے بغیر معاہدے کئے۔ 2001ء میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے معاہدے کی دستاویزات طلب کیں تو رعونت کا یہ عالم تھا کہ ملک کے اس آئینی ادارے کو خطوط کے جواب تک نہ دئیے گئے۔ ریلوے کو 25ارب روپے کا نقصان ہوا۔ اس میں اس وقت کا ریلوے منسٹری کا وفاقی سیکرٹری بھی ذمہ دار تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ریٹائرڈ جرنیل قانون سے ماورا ہیں؟ اگر ہم بین الاقوامی اداروں کو قائل کرنا چاہتے ہیں کہ ہم اس کیٹیگری میں شامل نہیں ہونا چاہتے جس میں صومالیہ، افغانستان، چاڈ اور عراق ہیں تو ہمیں ان بڑے لوگوں کو سزا دینا ہو گی۔
تیسرا معاملہ اہل
(Deserving)
کو محروم کر کے نااہل کو منصب پر بٹھانے کا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اس ملک میں اہم مناصب ان لوگوں کو تفویض کئے جاتے رہے ہیں۔ جو انکے اہل نہیں تھے۔ اس کی بدترین مثال بری فوج کے سربراہ کا انتخاب ہے۔ ججوں کی تقرریوں پر قیامت کا غوغا برپا ہے۔ وزیروں کے انتخاب پر باتیں ہو رہی ہیں تو کیا صرف چیف آف آرمی سٹاف کا عہدہ ہی اتنا غیر اہم ہے کہ حکومت وقت کسی قاعدے کے بغیر اپنی مرضی کے شخص کو چن لے اور اس چنائو کی وجہ بھی نہ بتائے؟ دو بار اس ملک کیساتھ یہ کھیل کھیلا گیا۔ ایک بار ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی مرضی سے ایک شخص کو فوج کا سربراہ بنایا اور جو اس سے سینئر تھے، انہیں محروم کیا۔ اس کا خمیازہ قوم نے گیارہ سال بھگتا۔ آج ملک جس حالت جنگ میں مبتلا ہے اسکی بڑی ذمہ داری جنرل ضیاء کے دور حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ وہ وزیراعظم جس نے ضیاالحق کو فوج کا سربراہ بنانے کی دھاندلی کی تھی، اسی کے ہاتھوں پھانسی کے پھندے تک پہنچا۔ دوسری بار میاں نواز شریف نے یہ ظلم کیا۔ ظلم کی تعریف ہی یہی ہے کہ ’’وضع شی ئِ فی غیرمحلّہ‘‘ یعنی کسی شے کو وہاں رکھنا جو اس کی جائز جگہ نہیں ہے۔ آج پرویز مشرف کے جرائم بیان کرتے وقت اخبارات کے صفحوں کے صفحے سیاہ کئے جا رہے ہیں۔ اسکی گردن مارنے کیلئے علماء کے فتوے لئے جا رہے ہیں۔ عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے ہرممکن کوشش ہو رہی ہے۔ امریکہ کو فروخت کئے جانیوالے پاکستانیوں کو واپس بلانے کیلئے ہزاروں افراد آئے دن سڑکوں پر مارچ کر رہے ہیں۔ قوم کا ناموس تک امریکہ کے ہاتھ گروی رکھا جا چکا ہے۔ لال مسجد کے سانحہ کی بازگشت ہر درودیوار سے سنائی دے رہی ہے لیکن جناب میاں نواز شریف اتنا بھی نہیں کر سکے کہ قوم کو وہ فارمولا ہی بتا دیں جس کیمطابق انہوں نے پرویز مشرف کو نیچے سے اٹھایا اور تخت پر بٹھا دیا۔ اگرانکے پاس کوئی فارمولا نہیں تھا اور وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے زیادتی کی تھی تو اس زیادتی کا فراخ دلی سے اعتراف کرنا چاہئے۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر عدالت میاں صاحب سے پوچھے کہ انہوں نے یہ زیادتی کیوں کی تھی یا میاں صاحب خود ہی قوم سے معافی مانگ لیں تو اس دھاندلی کا مستقبل میں دروازہ بند ہو سکتا ہے۔
رہی یہ دلیل کہ یہ وزیراعظم کا صوابدیدی اختیار تھا۔ ایک بودی اور بے سروپا دلیل ہے۔ صوابدیدی اختیار کیلئے لازم ہے کہ انصاف سے کام لیا جائے اور جس سینئر کو محروم کیا جا رہا ہے۔ اسے محروم کرنے کی وجہ ریکارڈ پر لائی جائے۔ کیا صوابدیدی اختیار کا یہ مطلب ہے کہ کسی ہوش و خرد سے عاری پاگل کو منتخب کر لیا جائے؟ نہیں تو پھر یہ کس طرح جائز تھا کہ جو شخص اپنے شب و روز لہوولعب میں گزار رہا تھا، جس کا کردار شرمناک تھا اور جس کے بارے میں ہر شخص کو معلوم تھا، اسے اس نازک منصب پر بٹھا دی گیا؟
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ پر ہم اتنی بلند آواز سے بین کر رہے ہیں کہ کان پڑی آوازنہیں سنائی دے رہی لیکن ہمارے بین سن کر کسی کی آنکھ سے آنسو نہیں نکل رہے نہ کسی کا دل پسیج رہا ہے۔ ہمیں کرپٹ افراد کو سزائیں دینا ہوں گی اور یہ کام پٹواری اور تھانیدار سے نہیں شروع ہو گا۔ اس کا آغاز وہاں سے ہو گا جہاں قانون کے پر جلتے ہیں۔