::: نگہت سلیم کے افسانوں اور ناولٹ کا مجموعہ ۔۔" جہاں گم گشتہ" ۔۔ فرد کے باطنی و معروضی ناسٹلجیائی احوال کا افسانوی اظہار ہے۔ جس میں افسانہ نگاری کی تکنیک منفرد اور انوکھی نوعیت کی ہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر 1976 کے امریکہ کے نوبیل انعام یافتہ فکشن نگار سال بیلو کے ناول " ڈائلنگ مین" اور جیمس جوائس کا " ڈبلنرز" یاد آجاتا ہے۔ جہان فرد اپنے آپ میں گمشدہ ہے۔ اور ایک وجودی کرب سے دوچار ہے۔۔۔۔۔ " جہان گم گشتہ" میں چھ/۶ افسانے اور تین/۳ ناولٹ شامل ہیں:
*افسانے*
====
۱۔ جشن برگ
۲۔ محبت اور طاعون
۳۔ ماہ بے سایہ
۴۔ کوئلہ بھئی نہ راکھ
۵۔ زنگاری
۶۔ اسمان نے بچھا رکھا تھا دام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
** ناولٹ **
=====
۱۔ آسیب مبّرم
۲۔ حلقہ مری زنجیر کا
۳۔ جہان گم گشتہ
۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تمام کہانیاں قاری کے باطن میں محفوظ ہیں اور معروض کی دنیا میں یہ کہانیاں بکھری ہوئی بھی ہیں۔ یہ معاشرت اور ماحولیات کے سیاق کا بہت وسیع کینوس ہے۔ جس میں ایک دلفریب دھنک پھیلی ہوئی ہے۔ یہ وھی مقام ارّض ہے جس میں فطرت سے انسان کا رابطہ منقطع ہوگیا ہے۔ اور اس کے ذہانت اور فطانت لحظہ بہ لحظہ محدود ہوتی جارہی ہے۔ فرد ایک سطحی دنیا میں ایک بھوسے بھرے جانور کی طرح زندگی بسر کررہا ہے۔ جسکو اپنی ضرورتوں اور زندگی گذارنے کے لیےجبرا ہر روز چابی دے کر چلا دیا جاتا ہے۔ اور وہ معاشرے میں روبرٹ کے طرح وہ سرگرم عمل نظر آتا ہے۔ جس میں حضروی اور دہقانی معاشرت المناک تصادم اور تضادات ابھر کر سامنے آتا ہے۔ کہانی کار بڑی فطانت سے ان لایغی اور تناقصی عناصر کو افسانوی شعریات اور جمالیات کے ساتھ بڑی ہنر مندی سے قاری کے کانوں میں سرگوشی انداز میں میں اور کبھی بڑے ہی واشگاف انداز میں اپنے اظہاری ابلاغ کا حصہ بناتی ہیں۔ ۔ انکے یہاں تاریخ مشکوک ہے۔ کیونکہ ہمیں اسٹبلشمنٹ کی تاریخ کو بڑی کمال ہوشیاری اور چالاکی سے ہمارے ادراک اور سائیکی کا حصہ بنادیا جاتا ہے۔ ۔ ان کے افسانے ۔۔" محبت اور طاعون" ۔۔ میں حکیم صاحب اپنی بیٹی سے کہتے ہیں۔۔" بیٹی تاریخ کبھی کبھی مستند نہیں ہوتی۔ ہر قوم کا مورخ اسے اپنے نکتہ نگاہ اور مفار کے پیش نظر تحریر کرتا ہے" ۔۔{ صفحہ ۳۳}۔ ناولٹ "جہان گم گشتہ" خالصتا ایک سیاسی اور ثقافتی اور انسانی بحران کا کرب ہےاور اس میں ایسی اذیّت ناکی پوشیدہ ہے۔ جس کے دو/۲ مکالمات اس کتاب کا اصل مقولہ ہے۔ ۔۔۔۔۔" وہ ہمیں غداّر سمجھتے ہیں، مہاجر کہتے ہیں۔ آخر ہم بھی پاکستانی ہیں ۔ " ۔۔۔ ایک اور جگہ نگہت سلیم لکھتی ہیں ۔۔۔۔ " محبت اور نفرت کو تعلق ہمارے ماضی کے چلن سے ہوتا ہے ؟ یا وقت بدل جائے تو احساسات بھی بدل جاتے ہیں" ۔۔ { صفحہ ۲۱۰}۔ اس ناولٹ مین سانحہ مشرقی پاکستان کو بڑے موثر انداز میں لکھا گیا ہے۔ " جہان گم گشتہ" کا خارج نظم زمان کے تسلسل سے قائم ہوتا ہے جہان ہر کردار ہر واقعہ ایک نقطے پر مرکوز ہے۔ جہاں فکش کی شعریات میں شکست و ریخت جذباتی ہیجانات، فکر وعمل سے انتہا پسندی، ضد ، غصہ، مزاحمت اور جحنھلاہٹ سامنے تو آتی ہے۔ مگروہ افسانوی عمل اور اس کے بین السطور پر گران نہیں گذرتی یہ اس فسانہ نگار کی تخلیقی کاوش ہے جن کے بزرگوں نے نقل مکانی کے کرب و دکھ کو سہا۔ ان لوگوں نے ایک ملک بنتے دیکھا اور نگہت سلیم کی نسل نے اپنی آنکھوں سے اایک ملک کوٹوٹے دیکھا۔ یہی سانحہ اس کتاب کی اصل تجرید اور خلاصہ ہے۔ جس میں افسانوی دلیل، ادارک اوربیانیہ کہانی کو افسانہ بنے تک قطبین کے مخالف سروں دو بنیادی ذہنی اور تخلیقی فضا کو خلق کرتے ہیں۔***
**پس نوشت**
رابطہ:
الطارق پبلی کیشینز، 78 پی ای سی ایچ ایس بلاک 3، ہل پارک۔ روہیل کھنڈ سوسائٹی،کراچی، پاکستان۔
ای میل: [email protected]
فون/ واٹس اپ: 03355761320
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔