جہاں گرد کا سپین
کیتھرین تھی تو فرانسیسی، مگر لاہور میں باربار میرے ہاں مہمان ہونے کے بعد اس نے کافی لاہوری عادتیں اپنا لیں۔ بسنت بہار پر فلم بنانے کے ناتے یہ دوستی دو کامریڈوں کی دوستی میں بدل گئی۔ کبھی وہ پیرس کی معروف Feminist تحریک کا حصہ رہی، مگر اس کے بقول کچھ ہی عرصے بعد اس کو احساس ہوا کہ ایک سوشلسٹ سے زیادہ بہتر کوئی بھی انسانی بنیادی حقوق کا علمبردار نہیں ہوسکتا۔ کیتھرین کے آباواجداد صدیوں پہلے مراکش سے ہجرت کرکے فرانس آباد ہوئے۔ بالکل مراکشی لگتے تھے اس کے والد، گھنگھرالے بال اور مراکشی جاہ وجلال۔ دوسری جنگ عظیم میں نازیوں نے اُن کو یہودی ہونے کے ناتے گرفتار کرلیا مگر وہ اپنے آپ کو مسلمان ثابت کرکے نازیوں سے رہائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ بچپن میں نازی فاشسٹوں کی قید نے اُن کو کمیونسٹ بنا دیا۔ یہ فرانسیسی کمیونسٹ ہی تھے جنہوں نے دوسری جنگ عظیم میں فاشزم کے خلاف شان دار مزاحمت کی۔ کیتھرین کی والدہ ایک مسیحی خاتون تھیں۔ کیتھرین نے متعدد افریقی ممالک میں ڈاکیومنٹریز بنائیں جن میں سے ایک اس نے افریقی قبیلے پر فلم بنائی جو’’ـاو آ ای‘‘ جیسی آوازیں نکال کر بولتے ہیں۔ یہ ننگ دھڑنگ افریقی قبیلہ ایک منفرد موسیقی کا فن رکھتا ہے۔ جنگل کے درمیان بہنے والے چشموں، ندیوں اور دریائوں کو بازوئوں اور پائوں کی جنبش سے دھن بنانے کا فن۔ یہ فلم میری ذاتی لائبریری کا قیمتی اثاثہ ہے۔ کیتھرین نے یہ فلم مجھے میری سالگرہ کے موقع پر تحفہ میں دی۔ ملک ملک کی جہاں گردی نے اس کے اندر کے انسان کو مزید انسان بنا ڈالا تھا۔ اور لاہور کے سفروں نے لاہوری۔ وہ لاہور آتی تو ہمارے ہاں ہی قیام کرتی۔ میرے والد صاحب سے دوستی پر وہ نازاں تھی ، وہ بھی انہیں ڈیڈا کہتی(میرے والد صاحب کو گھر میں سب سے چھوٹی بہن ڈاکٹر آمنہ اسی نام سے پکارتی ہیں)۔ لاہور آکر کھانے پینے ہنسی مذاق جیسی لاہوری عادت نے اس کی شخصیت میں مزید اورینٹل قدریں اجاگر کردی تھیں۔ وہ کئی بار سپین گئی۔ لیکن جب میں نے سپین کی جہاں گردی کا منصوبہ بنایا تو وہ اُس کی جہاں گردی سے کہیں مختلف تھا۔ اس کی سپین کی سیاحت کا محور Corrida de toros(بُل فائٹنگ) دیکھنا اور ساحلی علاقوں پر سمندر کے پانی سے لطف اندوز ہونا ہوتا تھا۔ اب میں میر کارواں تھا۔ لہٰذا سپین کی تمام سیاحت کی منصوبہ بندی اور روٹ میں نے طے کیا۔ میری سیاحت کا محور سماج اور تاریخ تھا۔ اس کے مطابق، اس نے جو سپین میرے ساتھ دیکھا، وہ بالکل نیا اور مختلف تھا۔ پرانی سرخ رنگ کی رینالٹ کو مرمت کروا کر ہم جنوبی فرانس کے راستوں سے ہوتے ہوئے جیرونا (Girona) کی طرف جا نکلے۔
جنوبی فرانس کی سرزمین ، پیرس یا ونشی کی سرزمین سے یکسر مختلف تھی۔ جنوبی فرانس، کسی گرم ملک کا خطہ لگتا ہے۔ ہم آج سے انیس سال قبل جنوبی فرانس سے جیرونا کی سرحد سے سپین میں داخل ہوئے۔ اگست کا مہینہ اور یورپ کے اندر اس قدر گرمی کا تصور بھی میں نے کبھی نہیں کیا تھا۔ سپین میں داخل ہوتے ہوئے مٹی کی ساخت اور گرمی سے یوں لگا جیسے ہم ملتان آ گئے ہوں۔ کیتھرین نے میرے ساتھ ملتان ہی نہیں، سکھر اور لاڑکانہ تک کا سفر کررکھا تھا۔ تب ہم لاڑکانہ میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے گھر المرتضیٰ ٹھہرے۔میں نے کیتھرین سے کہا، یہ یورپ ہے کیا؟ یہ تو ملتان لگتا ہے۔ ہاں ہاں ، بہت گرمی ہے، پاکستان جیسی۔ جیرونا، سپین کے کاتالونیا کا ایک تاریخی شہر ہے جو بارسیلونا سے ننانوے کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ بعض جگہوں پر جنگ عظیم کے زمانے کی جنگی خندقیں ابھی تک موجود تھیں، جن کو جنرل فرانکو کی فاشسٹ حکومت کے خاتمے تک جنگی بنیادوں پر قائم رکھا گیا تھا۔ جیرونا سے بہت پہلے جنوبی فرانس کے آخری علاقوں میں ہسپانوی مسلمانوں (Moors) کے آثار نظر آئے۔ لیکن جیرونا میں اُن کی تعمیرات پر گہرا اثر ابھی تک موجود پایا۔ مسلم ہسپانوی دَور کو یہودی اپنی تاریخ کا Glorious Period قرار دیتے ہیں، جہاں یہودیوں کو علمی، فکری اور کاروباری طور پر پھلنے پھولنے کے لیے پانچ صدیوں سے زائد وقت ملا۔ یہودیوںکی مسلم ہسپانوی تاریخ میں جیرونا یہودیوں کا ایک اہم شہر تھا۔ جیرونا میں یہودیوں کی پوری تاریخ میں ایک معروف Kabbalistic یہودی سکول تھا، جہاں ایک امیر یہودی ربی بیٹھتا تھا۔ اس کو موشے بن نہمان جیروندی کہا جاتا تھا۔ 1492ء میں جب مسلم سپین کا زوال اپنے اختتام کو پہنچا توکیتھولک بادشاہ نے سارے سپین میں بسنے والے مسلمانوں کے ساتھ یہودیوں کے لیے بھی حکم جاری کیا کہ مذہب تبدیل کرلو، سپین چھوڑ دو یا موت کے لیے تیار ہوجائو۔ سپین کے دوسرے علاقوں کی طرح جیرونا میں صدیوں سے بسنے والے یہودی بھی مسلمانوں کی طرح ہجرت پر مجبور ہوئے۔ جیرونا میں آج یہ یہودی محلہ یورپ کی سیاحت کرنے والوں کی سیاحت میں اہم ترین ہے۔
میں نے کیتھرین کو جب یہ معلومات دیں تو وہ چونک گئی۔ اس کے لیے یہ سب معلومات نئی تھیں اور نہایت دلچسپ بھی۔ اس علاقے کو Montjuïc کہا جاتا ہے اور یہودی پہاڑی کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ یہاں ابھی تک مسلم ہسپانوی سپین کے دور کا یہودی قبرستان بھی موجود ہے۔ جیرونا کی تاریخ میں پچیس بار اس کا محاصرہ کیا گیا۔ جیرونا شہر میں داخل ہوتے ہی، میں کیتھرین کو تاریخ کی گلیوں اور محلوں میں لے گیا۔کیتھرین حیران، خوش اور میری ممنون تھی کہ میں اُسے ایک نیا سپین دیکھا رہا تھا۔ وہاں گرم موسم کے ساتھ ساتھ ہم نے تربوز بھی دیکھے جو کسی بھی گرم ملک کا پسندیدہ پھل ہوتا ہے۔ سپین میں جتنا بڑا تربوز دیکھا، وہ شاید میری جہاں گردی کے مشاہدات میں سب سے بڑا تربوز تھا۔ پندرہ سے بیس کلو وزنی تربوز۔ ترکی میں تقریباً اسی قدر وزنی تربوز دستیاب ہیں۔ میں بنیادی طور پر Spain of Moors (مسلمانوں کے دَور کا سپین) دیکھنے کا ایجنڈا لے کر گیا تھا۔ مسلم سپین مکمل ہی نہیں ہوتا یہودیوں کے ذکر کے بغیر، جہاں انہوں نے بڑے بڑے مفکر اور سائنس دان اور ماہر طبیعیات پیدا کیے جن میں موسیٰ بن میمون سرفہرست ہے۔ وہ ایک معروف یہودی فلاسفر تھا اور تورات کا عالم اور اس کے ساتھ ماہر فلکیات و طبعیات۔ مسلمان اسے ابوعمران موسیٰ بن میمون بن عبیداللہ القرطبی، یہودی اسے ربی موسیز بن میمون اور مغرب میں Maimonides کہا جاتا ہے۔ وہ قرطبہ میں پیدا ہوا۔ اپنے علم، فکر اور فن سے اس نے دنیا پر جو اثرات چھوڑے، وہ آج بھی موجود ہیں۔طبی علوم میں اُنہوں نے Asthma، ذیابیطس، ہپاٹائٹس (یرقان) سمیت متعدد بیماریوں پر تحقیقی کام کیا۔ امریکہ میں اکثر آپ کو Maimonides کے نام سے ہسپتال اور ہسپتالوں کے اندر ہالز ملتے ہیں۔ حتیٰ کہ امریکی ایوانِ نمائندگان The United States House of Representatives کی پیشانی پر بھی مسلم سپین کے اس نامور مفکر، دانشور اور ماہر طبیعات کا Sculpture کندہ ہے۔ میں اور کیتھرین ، جیرونا کے یہودی محلے میں ایسے داخل ہوئے کہ نکلنے کو جی ہی نہیں چاہ رہا تھا۔ ہم یہودی محلے کے گلیاروں میں داخل ہوتے ہوئے مسلم سپین کی تاریخ کی بھول بھلیوں میں گم ہوگئے۔
“