جاگو.
ملکی صورتحال کس طرف جا رہی ہے کچھ سمجھ نہیں آ رہی. ایسا لگتا ہے ہم یرغمال ہوچکے ہیں ہماری سوچنے کی طاقت سلب کی جاچکی ہے. ہم ایک غلامی سے نکل کر دوسری غلامی کے شکنجے میں پھنس گئے ہیں. ہم وہ ہاتھی ہیں جسے بچپن میں زنجیر اور راڈ کے ساتھ باندھ کر سدھایا گیا. ہم نے کوشش کی زنجیر سے آزادی کی مگر ہر بار لوہے کے راڈ سے بندھے ہوئے زنجیر سے شکست کھا گئے. آج پاؤں میں بنا باندھے زنجیر سے ہمیں لگتا ہے ہم بندھے ہوئے ہیں یہ زنجیر ہم سے زیادہ طاقتور ہے ۔70 سال ہونے کو ہیں ہمارے پاس ڈھنگ کا ہسپتال نہیں ۔میعاری تعلیم نہیں ۔ بے روزگاری آسمان سے گپیں مار رہی ہے، کرپشن گلی گلی جشن منا رہی ہے
بجلی کے لیے ترس گیے ۔ پینے کا پانی تک نہیں. دس دس گھنٹے سے زیادہ لوڈشیڈنگ برداشت ہم کریں پھر بھی ہمارے چہتے حکمران گلے بھاڑ بھاڑ کے نعرے لگا رہے ہیں ہم نے یہ کر دیا ہم نے وہ کر دیا ہم یہ کر دیں گے ہم وہ کر دیں ۔ پاکستان کو پیرس بنانے کے داعوے کرنے والوں کے مزید دعووں اور نعروں پہ ہم صرف ناچ رہے ہیں، ہم پھر سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں کہ اب کچھ بہتر ہو گا اب حالات بدلیں گے اب بہتری آئے گی لیکن ہمارے ساتھ ہوتا کیا ہے. ہم پھر سے اسی چکی میں پستے ہیں جس میں 70 سالوں سے پستے آئے ہیں. کبھی بیرون ملک سفر کر کے دیکھیں ہمیں ائیر پورٹ پر ہی ہماری اوقات دکھا دی جاتی ہے. ہماری پاسپورٹ ویلیو افغانستان سے بھی بدتر ہے. ہمارا صحت کا نظام دنیا کے آخری دس ملکوں کے برابر ہے. ہم جھوٹ بولنے والوں میں بھی صف اول میں کھڑے ہیں. ہم تعلیم میں 160 نمبر پر جا پہنچے ہیں اور ابھی بھی ہمیں حوش نہیں آ رہا . ایماندار ہم اتنے ہیں کہ پورا سال بے ایمانی سے سودا سلف بیچنے کیلئے رمضان المبارک کے مقدس مہینے کا انتظار کرتے ہیں اور اس کے دوسری طرف.
ہم کارڈ ٹیکس کے ساتھ ساتھ کال ٹیکس بھی دے رہے ہیں ۔پیٹرول پوری دنیا میں سستا ہوگیا تھا مگر ہمارے ہاں ہمیں مہنگا دیا گیا اوپر سے بجلی فی یونٹ بھی مہنگی کردی گئی ۔ہمیں دو نمبر دواییاں دونمبر دودھ ملاوٹ شدہ اشیاء خورد و نوش دیکر صحت مند پاکستان کی نوید دیی جاتی ہے ۔زچگی میں آموات (بیس میں سے 1) افریقا اور افغانستان کے بعد ہمارا ملک آتاہے ۔سچ ہوچھیے تو اس صرف 1 فیصد اشرافیہ نے ہمیں یرغمال بنا دیاہے. پوری دنیا میں ہمارا تماشا بنایا ہوا ہے. آپ دیکھیں پیپلز پارٹی ہو یا نون لیگ پی ٹی آئی ہو یا اے این پی جماعت اسلامی ہو یا جمیعت علماء اسلام وہی لیڈر اور وہی ایلیٹ کلاس ۔یہی لوگ ایک پارٹی سے دوسری اور پہر دوسری سے تیسری میں جاتے ہیں اور ہر بار ہم ان سے دھوکہ کھاجاتے ہیں یہ نہیں سوچتے کہ یہ پچھلی گورنمنٹ میں تھے انہوں نے کیا کرلیا جو اس حکومت میں ہماری تقدیر بدل دینگے ۔دنیا کے گھسے پٹے اور 40 سال سے جنگ سے بے حال افغانستان میں بھی اتنی لووڈشیڈنگ نہیں ہوتی ۔مگر ہمارے ہاں ہم 6 سے سات گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ کو لوڈ شیڈنگ سمجھتے ہی نہیں ۔خدارا غلام قوم 22 کروڑ یر غمالیوں اٹھو اپنے حق کے لیے خود آواز اٹھالو ورنہ کل ہمارے بچے ہمارا ہی گریبان پکڑ کر ہم سے سوال کر رہے ہوں گے. اپنے لیے نہیں تو آنے والی نسلوں کے لیے جاگ جاؤ. کیونکہ جب تک ہم خود کچھ نہیں کریں گے تب تک ہم ایسے ہی کسی نا کسی کی غلامی میں زندگی بسر کرتے رہیں گے.
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔