پہلی تصویر دیکھ کر بتائے کہ ان دونوں اشخاص میں سے زیادہ سائز کس کا ہے؟ جواب یہی کہ کسی ایک پیمانے سے نہیں بتایا نہیں جا سکتا۔ ایک کا قد لمبا ہے تو ایک کا وزن زیادہ، چھاتی، کندھے، پہنچ وغیرہ میں موازنہ اپنا اپنا۔ اور اگر ہر چیز کی اوسط نکال کر کہا جائے کہ دونوں برابر ہیں تو یہ والا جواب اصل تصویر کے بارے میں کچھ بھی معلومات نہیں دیتا۔
اب ایک نظر دوسری تصویر پر۔ دو خواتین جن کا آئی کیو ٹیسٹ ایک ہی نتیجہ دے رہا ہے کہ ان کا آئی کیو 103 ہے۔ اس کو اگر سمجھا جائے کہ دونوں کا ذہن ایک جیسا ہے تو وہ پہلی تصویر کے جواب کی طرح ہی ہے۔ مختلف ڈائمنشن سے دیکھا جائے تو پھر دونوں میں بہت فرق ہے۔ اس طرح کسی کو بھی جج کرنے کا پیمانہ ایک نمبر کو بنایا جائے تو یہ اکیلا نمبر درست نہیں۔
کچھ سال قبل تک نیوروسائنس میں اوسط دماغ کا تصور تھا کہ ہر ایک کے دماغ کا ڈیزائن تقریبا ایک ہی ہے اور اس میں جو فرق ہیں وہ زیادہ نہیں۔ 2002 میں پہلی بار مائیکل ملر اور ان کی ٹیم کے کئے گئے تجربات سے پتا لگا کہ نہ صرف ہر ایک کے دماغ کے کام کرنے کا طریقہ مختلف ہے بلکہ اوسط دماغ کا تصور ہی غلط ہے۔ ایک شخص پرانی یاد سوچ رہا ہے تو دماغ کے متحرک حصے بھی فرق ہیں اور اس فرد سے خاص ہیں۔ کئے گئے اس تجربے سے لے کر اب تک نیوروسائنس کے بارے میں سوچ تبدیل ہو رہی ہے لیکن دماغ کی وائرنگ کے یہ فرق انفرادی صلاحیتوں میں نظر آتے ہیں۔
بچوں کے والدین ہوں یا اساتذہ، ان کے لئے اس میں اہم چیز یہ ہے کہ سیکھنے کا طریقہ اور رفتار ہر بچے کی مختلف ہو گی۔ کوئی پڑھ کر بہتر سیکھ سکتا ہے اور کوئی دیکھ کر، کسی کو وقت زیادہ چاہیے تو کسی کو بار بار دہرائی کی ضرورت ہے۔ جو طریقہ ایک بچے پر مؤثر ہے، وہ ضروری نہیں دوسرے پر بھی ہو اور اگر آپ خود سیکھ رہے ہیں تو بھی اپنا طریقہ پہچانئے۔ انٹرنیٹ پر پڑھنا اس لئے اس قدر مؤثر ثابت ہوتا ہے کہ کسی کلاس کے برعکس آپ اپنی رفتار اور اپنے طریقے سے کسی چیز کو سمجھ سکتے ہیں اور اب کئی تعلیمی ادارے بھی اپنا پڑھانے کا ڈیزائن بدلنا شروع ہو گئے ہیں۔
گوگل نے لوگوں کو ہائیر کرنے کا اور ان کی کارکردگی جانچنے کا طریقہ 2004 میں اور مائیکروسوفٹ نے 2007 میں اسی اصول کے تحت بدلا اور کئی دوسرے بزنس بھی ایسا کر رہے ہیں۔
جس تحقیق کا ذکر کیا، اس کا پیپر یہاں سے
پوسٹ کی تصاویر اور تصور لیا گیا ہے اس کتاب سے
The End of Average by Todd Rose