اس آسمان نے وہ دن بھی دیکھے جب غریب کسان اپنی نوخیزلخت جگرکو ساتھ لیے علاقے کے جاگیردارکے پاس پہنچتاہے اور چاندی کے پائیوں والی سونے کی اینٹوں پر رکھی چارپائی پر براجمان وڈیرے سے کہتاہے کہ سود کے عوض یہ بیٹی لے لوجبکہ اصل زر اگلی فصل پر لوٹادوں گا،اور پھر تاریخ دہراتے دہراتے نسلیں گزرجاتی ہیں لیکن وہ اگلی فصل کادن جس پر قرض کاحساب چکتاہوناتھا کبھی لوٹ کرنہیں آتااور ایک اور بنت حوااس چکی میں پسنے چلی آتی ہے۔یہ جاگیرداری نظام کے شاخسانے ہیں جس کے باعث انسانیت کاگلا گھٹ جاتاہے،زبان بندہوجاتی ہے،بدترین قسم کا استبدادلوگوں کے گلوں کاطوق بن جاتاہے،مخلوق کی جبینیں مخلوق کے سامنے ہی جھکنے پرمجبورکردی جاتی ہیں اورانسان اپنے ہی جیسے جنم لینے والے انسانوں کا خدابن جاتاہے،ان کی تقدیرسے کھیلتاہے ان کے روزی کامالک گرداناجاتاہے اورحتی کہ غریب ہاریوں کی جان،مال،عزت،آبرواور نسلیں تک اس خاندانی و جاگیردارانہ نظام کے ہاں گروی رکھ دی گئی ہوتی ہیں ان کے مالک جب چاہیں ان سے کھیلیں،جب چاہیں ان کی خریدو فروخت کریں اور جب چاہیں ان کو مٹی سے بے دخل کردیں یامنوں مٹی کے نیچے دبادیں اورکسی کاہاتھ تو درکنارکسی انگلی اور زبان تک ان کے خلاف حرکت میں نہ آئے بصورت دیگروہ عبرت کاایسا نشان بنادیے جاتے ہیں کہ ان کے فسانے بھی رونگٹے کھڑے کر دینے کے لیے کافی ہیں۔
ظالم جاگیرداری نظام نے جب فرعون کا روپ دھاراتو حضرت موسی علیہ السلام چلے آئے اور اپنی قوم کو اس جاگیردارانہ ظلم سے نجات دلائی۔قرآن نے بڑی تفصیل سے فرعون کی جاگیردانہ ذہنیت کا نقشہ کھینچاہے جواپنی زمینوں کو بنی اسرائیل کے سپوتوں سے آبادکراتاتھاااوران پر بے پناہ ظلم توڑتاتھا،ہفتہ بھر صبح سے شام تک محنت و مشقت کی چکی تھی جس میں وہ لوگ پسنے پر مجبور تھے اور ساتویں روز نان شبینہ کے لیے ایک ناکافی راشن میسرآتاتھاجوبمشکل ان کی روح کو جسم کے ساتھ پیوست رکھنے کافرض ہی نبھاسکتاتھااور اس پر شب و روز کی ذلت آمیزدھتکاروپھٹکارسواتھی جس نے بنی اسرائیل کی عزت نفس کاجنازہ نکال دیاہواتھا۔جب اس ظالم جاگیردارفرعون کو اس کا خالق حقیقی یاددلایاگیاتواس نے تکبر کیااور کہا کہ میں نہیں جانتاکہ میرے علاوہ کوئی اورتمہاراخداہوپھراس نے دعوی کیاکہ ملک میں سب نہریں اور خوشحالی اور رزق کاانتظام وہی کررہاہے۔جاگیرداری نظام کے اس بہت بڑے نمائندے نے اپنے اقتدارکے خطرے کے پیش نظر کتنے ہی بیٹے پیداہوتے ہی مرواڈالے۔
جاگیرداری نظام ماضی کا ہویاحال کا،زمین کے مشرق میں اپنے وڈیرے پن کادعوے دارہویا مغرب میں اپنی رعونت کو اس نے انسانوں پر مسلط کررکھاہو،اس نظام کے اجزائے ترکیبی،اس کے طرق ہائے واردات،اس نظام کے منفی اثرات و ثمرات بداور انسانی نسلوں پراورانسانی معاشروں پراس نظام کی اولیات و باقیات سب ایک ہی قبیل سے تعلق رکھتی ہیں اوریکساں ہیں۔ جب ایک خاندان یاایک ہی فردانسانوں پر اپنی ملکیت کادعوے دارہوجائے تو اس کامنطقی انجام نمروداور ابوجہل کی شکل میں سامنے آجاتاہے،خدائی کے یہ دعوے دارانسانوں کی گردنوں میں اپنی الوہیت کاطوق ڈال کر انہیں غیراللہ کی عبودیت پر مجبورکرتے ہیں۔جاگیرداری کی اسی شکل کو قرآن مجید نے طاغوت کانام دیاہے اورہر نبی علیہ السلام نے اپنے زمانے کے زندہ طاغوت کو للکاراہے اور اس سے نبردآزما ہواہے۔یہی جاگیرادی طاغوت نے ہر نبی کاراستہ مسدودکیاہے۔اس نظام کے ذمہ دار اپنی مرضی،اپنی انا،اپنی روایات اور اپناآپ ہی ان کے پیش نظر ہوتاہے،سارے انسانوں کاافادہ ایک طرف لیکن جاگیردارصرف اپنا مفاد عزیزرکھے گا،کل ریاست کے اصلاحی مفادات ایک جانب لیکن جاگیرداراپنی ذات کی ترجیحات کو کسی قیمت پر بھی قربان نہیں کرے گا،وہ کسی کے مشورے کاپابندنہیں ہوگا،کسی ادارے کو اپنے سے بالاتر کبھی نہیں دیکھناچاہے گا،امانت،دیانت،شرافت،عدل و انصاف اورکل انسانی اوصاف حمیدہ اس کے پاؤں کی ٹھوکرپر ہوں گے۔دوسروں کاپانی چرانے سے اپنی بیٹی و بہن کے حق نکاح وحق وراثت تک اس کے اپنے جداگانہ اوردہرے معیارات ہوتے ہیں جن پر وہ کسی طرح کاسوداکرنے کے لیے تیارنہیں ہوتا۔ملکی قانون ہویاریاستی مشینری،خاندانی و قومی و ملی روایات ہوں یا مذہبی عقائدان سب سے بھی وہ اپنے گھروں کی لونڈیوں جیساسلوک روارکھتاہے تاکہ اس کے مکروہ عزائم پورے ہوتے رہیں اوراس کے پیٹ کادوزخ اور پیٹ سے نیچے کی آگ بجھتی رہے جبکہ باقی کل انسانیت اس کی طرف سے بھاڑ میں جائے۔
جاگیرداری کی ایک شکل اور بہت زیادہ مروجہ شکل زمینداری کی صورت میں انسانی تاریخ میں سامنے آئی ہے لیکن فی زمانہ انسانیت پر جب سے سیکولرازم نے اپنے پنجے گاڑھے ہیں اور عالمی جمہوریت اور انسانی حقوق کے نام پر عالمی غلامی اور سودی نظام انسانوں کی گردنوں پر مسلط کیاہے تب سے جاگیرداری نظام نے بھی اپنی بہت سی شکلیں تبدیل کی ہیں۔سیکولرازم کے نوآبادیاتی نظام نے جہاں قومی و ملی غداروں کو مفت کی زمینوں سے نوازا ہے وہاں سیاسی جاگیرادی،مذہبی جاگیرداری،سرمایادارانہ جاگیرداری اور تعلیمی جاگیرداری تک کوقبیلہ بنی آدم میں جاری کیاہے۔گورے نے جہاں جہاں حکومت کی وہ افریقی ممالک ہوں یا ایشیائی ممالک اور قوموں کو اپنا غلام بنایاوہاں قوم کے غداروں اور اپنے سے وفاداری کرنے والوں کو خوب نوازا اور اس طرح اسے اسی غلام قوم میں ایسے طبقات میسر آگئے جوشاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بن گئے۔جب تک تو دور غلامی رہا یہ طبقات قوم سے غداری کاعوضانہ اپنے آقاؤں سے آشیرباد کی صورت میں وصول کرتے رہے۔جب مغربی استعماردو بڑی بڑی جنگوں کے بعد اس قدر نحیف و نزارومضمحل ہوچکا کہ اب اس کے اعصاب دوسری دنیاؤں کی تسخیر کے قابل نہ رہے تو اس نے دنیاکی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مصداق نام نہاد آزادیاں مرحمت فرمادیں۔گورے نے آزادیوں کے نام پرقوموں کی باگ دوڑ اسی غدار طبقے کے سپردکردیں جوآج بھی تاریخ کا بدترین جاگیرداری نظام اپنی اقوام پر مسلط کیے ہیں،گویا پہلے یہ اقوام آزادلوگوں کی غلامی میں تھیں اوراب غلاموں کی غلامی پر انہیں مجبور کردیاگیا۔یہ جاگیردار سیاسی جاگیروں کے مالک ہوں یا مذہبی جاگیروں کے یا پھرانہوں نے تعلیمی و تکنیکی و فنی میدانوں میں اپنی اپنی جاگیریں بنارکھی ہوں،انہیں آج بھی سیکولراستعمارکی مکمل آشیرباد حاصل ہے اورآج بھی اپنے ملک و ملت کے وسائل اپنے اصل آقاؤں کے ہاں گروی رکھنے کے ذمہ دار ہیں۔
جاگیرداری کے مقابلے میں اسلام نے مشاورت اور شورائیت کانظام متعارف کروایاہے۔مشاورت سے حکومت چلانے کابہترین تجربہ خلفائے راشدین کادورحکومت ہے۔پہلے خلیفہ راشدکاانتخاب سرداران قوم کے مشورے سے عمل میں آیااور عوام الناس نے اس کی تائید کردی۔دوسرے خلیفہ راشدکی نامزدگی میں بھی مشاورت کو خاطر خواہ دخل رہا۔تیسرے اور چوتھے خلیفہ راشدین کاتقررایک بااختیارکمیٹی کی ترجیحات سے عمل میں آیا،پہلی ترجیح پر تیسرے خلیفہ راشدنے عنان اقتدارسنبھالی اور دوسری ترجیح پر چوتھے خلیفہ راشد نے۔اس دور کے بعد بھی تاریخ اسلام میں ہندوستان کے اندر خاندان غلاماں،مصرمیں مملوک اور اندلس میں موحدین کی حکومتوں سمیت کئی مقامات پرحکمرانوں کے تقررمیں کم و بیش یہی اصول کارفرمارہے۔مسلمانوں کے ایک ہزارسالہ دورحکومت میں اس آسمان نے کتنی ہی بار ایسے مناظر دیکھے کہ دنیاکے طاقتورترین حکمران وقت کی عدلیہ کے سامنے سرجھکائے کھڑے تھے۔اسلام نے جہاں حکمرانوں کومشورے کاپابندکیاہے وہاں اداروں کو مضبوط بنانے کی بجائے اداروں کی سربراہی پر مضبوط کردارکے لوگ تعینات کرنے کی تعلیم دی ہے اور قرآن مجید نے حکم دیاہے کہ مناصب ان لوگوں کے سپرد کیاکروجو ان کے اہل ہوں۔خود وطن عزیز کی تاریخ گواہ ہے کہ طاقتورادارے پر بے ایمان اوربدعنوان سربراہ کاتقرراس ادارے کی ساکھ کھو جانے کاباعث بنتاہے اور ایک چھوٹے سے دفترمیں ایمان داراوردیانت دار افسرکے تقررسے وہی دفتر پورے نظام کے لیے مضبوط ستون فراہم کرنے لگتاہے۔اسی طرح کے دیانت داراورجرات مند افراد جاگیرداری نظام کے لیے سم قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ جاگیردارانہ نظام کی کل پہنچ اپنی یااپنے خاندان کے گرد ہی گھومتی ہے جبکہ ایک دین داراورجرات مند قیادت کے پیش نظر جہاں ملک و ملت ہوتی ہے وہاں روزمحشراحساس جوابدہی بھی دامن گیر رہتاہے۔
جاگیرداری کا توڑ صرف یہ نہیں کہ اب جاگیرداروں سے ان کی جاگیریں چھین لی جائیں،بلکہ اسلام ایک آفاقی و ابدی دین ہے جو انسانیت کی فلاح دارین کا ضامن ہے۔اس دین کی تعلیمات بتاتی ہیں ہیں کسی بھی اجتماعی نظام کو چلانے کے لیے مشاورت وہ واحدراستہ ہے جوجاگیرداری کے لیے سدراہ ہے۔کسی بھی میدان کار میں جاگیروں کا ہونا شاید اتنا برا نہیں جتنا ان جاگیروں کے مالکان کا خدا بن جانا ہے۔جب مشاورت سے اور تقوی و خوف خداسے نظام ہستی چلایاجائے گا توکسی بھی نظام سے اس کے برے اثرات ختم کیے جا سکتے ہیں۔مشورے کانظام سب سے پہلے توجاگیردارسے اس کی رعونت چھینے گا،پھر لوگوں سے مشورے کے نتیجے میں اس میں اپنی رائے کے خلاف بات سننے کا حوصلہ جنم لے گا،اختلاف رائے کے نتیجے میں جب جمہورکی رائے پر فیصلہ ہو گا تو جاگیرداری نظام کی ماں ہی مر جائے گی۔اسلامی تعلیمات نے نبی علیہ السلام جیسی پاک صاف اورمعصوم ہستی کو بھی مسلمانوں سے مشورے کا پابند بنایااور پھر خلافت راشدہ کے نظام کی کامیابی کا سہرہ بھی مشاورت اور شورائیت پربنیاد کرتاہے تو پھر گاگیردارکواس کا پابند کیوں نہ بنایاجائے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...