آج – ٢٤؍جولائی ٢٠٠٤
غیر مسلم اردو زبان کے بے لوث خادم، اہم اسکالر، ماہرِ اقبالیات اور ممتاز شاعر ” جگن ناتھ آزادؔ صاحب“ کی برسی…
جگن ناتھ نام اور آزادؔ تخلص تھا۔ ۵؍دسمبر۱۹۱۸ء کو عیسٰی خیل، ضلع میانوالی میں پیدا ہوئے۔ تلوک چند محرومؔ کے فرزند تھے۔ آزادؔ نے ۱۹۳۹ء میں گارڈن کالج، راول پنڈی سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔۱۹۴۴ء میں پنجاب یونیورسٹی سے فارسی میں ایم اے اور ایم او ایل بھی اسی یونیورسٹی سے کیا۔ قیام پاکستان کے بعد ترکِ وطن کر کے دہلی چلے گئے اور رسالہ ’’آج کل‘‘ کے ادارہ تحریر سے منسلک ہوگئے۔بعد ازاں ۱۹۷۰ء سے ۱۹۸۰ء تک پروفیسر اور صدر شعبہ اردو کی حیثیت سے جموںیونیورسٹی سے وابستہ رہے۔ اس کے بعد انھوں نے ڈین فیکلٹی آف اورینٹل ٹریننگ کی ذمے داریا ں بھی سنبھالیں۔کشمیر اور سری نگر یونیورسٹی نے ان کو ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی۔ انھوں نے تمام اصناف سخن میں طبع آزمائی کی۔ ان کی مادری زبان سرائیکی تھی، لیکن تمام زندگی اردو زبان وادب کے لیے بے لوث خدمات انجام دیتے رہے۔ان کی چند کتابوں کے نام یہ ہیں:
’بے کراں‘، ’ستاروں سے ذروں تک‘، ’وطن میں اجنبی‘ ، ’نواے پریشاں‘، ’کہکشاں‘، ’بوئے رمیدہ‘، ’جستجو‘، ’گہوارہ علم وہنر‘، ’آئینہ در آئینہ‘ (شعری مجموعے) ’روبرو‘ (خطوط کا مجموعہ) ’نشان منزل‘ (تنقیدی مضامین) ’اقبال او راس کا عہد‘، ’اقبال اور مغربی مفکرین‘، ’اقبال اور کشمیر‘، ’ اقبال شخصیت اور شاعری‘، ’دہلی کی جامع مسجد‘، ’کولمبس کے دیس میں‘ (سفرنامۂ امریکا وکینیڈا)۔ ممتاز شاعر، محقق اور ماہر اقبالیات پروفیسر جگن ناتھ آزادؔ ، ۲٤؍جولائی۲۰۰۴ء کو جموں میں طویل علالت کے بعد سدھار گئے۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:93
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ ★
ممتاز شاعر جگن ناتھ آزادؔ کی برسی پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
اس سے زیادہ دورِ جنوں کی خبر نہیں
کچھ بے خبر سے آپ تھے کچھ بے خبر سے ہم
—–
ابتدا یہ تھی کہ میں تھا اور دعویٰ علم کا
انتہا یہ ہے کہ اس دعوے پہ شرمایا بہت
—–
اللہ رے بے خودی کہ ترے گھر کے آس پاس
ہر در پہ دی صدا ترے در کے خیال میں
—–
اک بار اگر قفس کی ہوا راس آ گئی
اے خود فریب پھر ہوس بال و پر کہاں
—–
بہار آتے ہی ٹکرانے لگے کیوں ساغر و مینا
بتا اے پیرِ مے خانہ یہ مے خانوں پہ کیا گزری
—–
چلتے رہے ہم تند ہواؤں کے مقابل
آزادؔ چراغ تہِ داماں نہ رہے ہم
—–
سکونِ دل جہانِ بیش و کم میں ڈھونڈنے والے
یہاں ہر چیز ملتی ہے سکونِ دل نہیں ملتا
—–
تمہیں کچھ اس کی خبر بھی ہے اے چمن والو
سحر کے بعد نسیمِ سحر پہ کیا گزری
—–
میں کیا کروں کہ ضبط تمنا کے باوجود
بے اختیار لب پہ ترا نام آ گیا
—–
ڈھونڈھنے پر بھی نہ ملتا تھا مجھے اپنا وجود
میں تلاشِ دوست میں یوں بے نشاں تھا دوستو
—–
کنارے ہی سے طوفاں کا تماشا دیکھنے والے
کنارے سے کبھی اندازۂ طوفاں نہیں ہوتا
—–
ممکن نہیں کہ بزمِ طرب پھر سجا سکوں
اب یہ بھی ہے بہت کہ تمہیں یاد آ سکوں
—–
ہم نے برا بھلا ہی سہی کام تو کیا
تم کو تو اعتراض ہی کرنے کا شوق تھا
—–
حشر کے مقابل میں حشر ہی صفِ آرا ہے
اس طرف جنوں میرا اس طرف شباب ان کا
—–
تجھے اے طائر شاخ نشیمن کیا خبر اس کی
کبھی صیاد کو بھی باغباں کہنا ہی پڑتا ہے
—–
خیالِ یار جب آتا ہے بیتابانہ آتا ہے
کہ جیسے شمع کی جانب کوئی پروانہ آتا ہے
—–
یوں اک سبق مہر و وفا چھوڑ گئے ہم
ہر راہ میں نقشِ کف پا چھوڑ گئے ہم
جگن ناتھ آزادؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ