( جسے رومی کلیسا نے زندیقیت کی پاداش میں زندہ جلا دیا)
________________
20 جنوری 1600 عیسوی؛ کو اٹلی کے ایک دیو ہیکل مینار میں سات برس سے قید؛ ایک 52 سالہ شخص کو ایک بار پھر کلیسا کی اسی عدالت میں لے جایا گیا جہاں پچھلے 7 برس سے اس کی تفتیش جاری تھی۔ لیکن آج اس کی آخری پیشی تھی۔سارے ججوں نے حتمی فیصلہ قلمبند کر لیا تو اس میانی قامت اور خاکستری ہلکی داڑھی والے شخص نے ججوں کو دھمکاتے ہوئے کہا:
“لگتا ہے سزا ملنے والے سے سزا سنانے والے زیادہ سہمے ہوئے ہیں “۔
پوپ (بابا رومن کیتھولک) نے اس شخص پر سارے الزامات کا جائزہ لے کر ؛ مجرم کی تصدیق و اقرار کے بعد اسے زندیق اور کیتھولک عقیدے کا گستاخ قرار دیا اور سر عام زندہ جلانے کی سزا سنائی۔
29 دن مزید زندان میں بسر کرنے کے بعد آخر اس کی گستاخیوں کا مکمل قلع قمح ہونے پر بطور علامت اس کی زبان تالو سے چپکا دی گئی اور اسے پورا ننگا کر کے الٹا لٹکا دیا گیا؛ اسی دن 17 فروری 1600 عیسوی کو اسے بازار میں سر عام زندہ جلایا گیا اور باقیات کو دریا میں بہا دیا گیا۔
یہ زندہ جلایا جانے والا شخص؛ آنجہانی اطالوی (رومی) سائینس دان؛ عالم فلکیات؛ مفکر؛ شاعر؛ فلسفی؛ مصنف ؛ مدرس اور اٹلی کے شہر نیپلز
۔Naples۔ کی تدریسی خانقاہ کا سابقہ پادری
“جیور دانو برانو -Giordano Bruno”
۔ عیسوی (1548-1600)۔ تھا۔
■ جیور دانو برانو کا پیدائشی نام فلپ برانو تھا؛ اسے اسی نام سے بپتسمہ دیا گیا۔
1548 میں اٹلی کے علاقے نیپلز میں پیدا ہوا۔
باپ فوجی تھا؛ عام رواج کے مطابق اسے تعلیم و تربیت کے لیے رومن کیتھولک چرچ کے زیر انتظام ایک مقامی خانقاہ میں داخل کروا دیا گیا۔برانو نے ایک پادری سے ابتدائی طور پر لکھنا سیکھا۔
وہاں اپنے ایک علم طبعیات کے استاد جس کا نام “جیور دانو” تھا ؛ متاثر ہو کر فلپ برانو نے اس کا نام اپنا لیا؛ چناچہ وہ “جیوردانو برانو” بن گیا۔
وہ بہت ذہین طالب علم تھا۔تدریس سے فراغت کے بعد اس کو پادری کا رتبہ دیا گیا؛ چناچہ 24 سال کی عمر میں وہ اس اعزاز سے سرفراز کیا گیا۔اس کی یادداشت بہت حیران کن تھی۔ساتھی اس کی اس خوبی کو کسی جادوگری کا کمال سمجھتے تھے۔ایک بار جب وہ اپنے خانقاہی زمانے میں رومن پوپ کے سامنے پیش ہوا اور کئی مذہبی آثار سمیت تاریخ پر بات کی تو وہ بھی حیران رہ گیا ۔ وہ
“علم الذاکرة” یعنی “Art of memory” کے لیے پورے شہر میں مشہور ہو گیا۔
اس کے ساتھ ؛ برانو ہر معاملہ چاہے وہ مذہبی ہو یا علمی ؛ اس کے متعلق کھل کر بات کرتا۔ اس کا انداز آزادانہ اور بے باک تھا۔رومی کلیسا کی بہت سی ممنوعہ کردہ کتب وہ چوری چھپے اپنے پاس رکھتا۔
صلیب کا مذاق اڑاتا اور دیو مالائی عقائد کو عقل کے پیمانوں سے ناپنے کی کوشش کرتا اس کے علاوہ وہ خانقاہ میں پڑی پرانے راہبوں کی تصاویر بھی نیچے پھینک دیتا۔یہ سب بہت حیران کن تھا کیوں کہ وہ پادری تھا اور خانقاہی نظام سے وابستہ ہوئے اسے 11 برس گزر چکے تھے۔اپنے اس رویے کی وجہ سے وہ ایک دو بار زیر عتاب بھی آیا لیکن اس کا معاملہ رفع ہو گیا۔(اس ابتدائی دور کے الزامات؛ اس کے آخری مقدمے میں بھی اس کی گستاخی کے ثبوت کے طور پر پیش کیے گے جس میں اسے زندہ جلانے کی سزا ہوئی )۔نیپلز جو کہ اس کا آبائی وطن تھا؛ ہو سکتا تھا کہ وہ اس سب کے باوجود بھی وہاں ٹکا رہتا لیکن اس پر عتاب اس وقت ٹوٹا جب اس نے ایک معاملے میں “آریوسیت” نظریات( جو کہ راہب آریوس کی طرف منسوب ہیں اور کیتھولک عقیدے کے متضاد ہیں) کی حمایت کی اور پندرھویں صدی کے مصلح اور عیسائی عالم” Erasmus” کی بعض ممنوعہ کتب اس سے برآمد ہوئیں ۔برانو نے “اراسموس” پادری کی ممنوعہ تصنیف خانقاہ کے بیت الخلاء میں چھپا کر رکھی تھی۔اس پر اس کے خلاف ایک سنگین مقدمے کی تیاری جاری تھی کہ وہ نیپلز سے فرار ہو کر “وینس” جا پہنچا اور اپنا مذہبی رنگ ترک کر کے ایک آزاد خیال مفکر؛ مصنف اور سیاح بن گیا۔
■وینس میں رہتے ہوئے وہ علمی مشاغل میں مصروف رہا۔اس کے بعض خیر خواہوں نے اسے دوبارہ سے مذہبی لبادہ اوڑھنے کو کہا مگر اس نے کوئی رضامندی ظاہر نہ کی۔اس کے بعد وہ اٹلی سے سویٹزر لینڈ کے شہر” جینیوا” جا پہنچا اور آزاد خیال زندگی بسر کرنے لگا۔ اس نے شہر کے اطالوی سفیر کو پیغام دیا کہ اس کا شہر والوں کے مذہب کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں۔یہ پیغام برانو نے اپنے آخری مقدمے میں بھی پیش کیا جب رومن کیتھولک چرچ نے اس پر جینیوا کا ” پروٹسٹنٹ ” Protestant مذہب قبول کرنے کا دعوی کیا۔ وہ جینیوا کی یونیورسٹی سے گہرا علمی تعلق قائم کرنے میں بھی کامیاب رہا مگر اپنی فطرتی روش سے نہ ہٹ سکا اور ایک مستند پروفیسر جو ادارتی کمیٹی سے تھا اس کی کتاب پر رد لکھ ڈالا ۔اس جسارت نے برانو سمیت اس کے پبلشر کو بھی مشکل میں ڈال دیا اور ان دونوں کو گرفتار کر لیا گیا۔لیکن برانو کی سرکشی اس وقت قابل دید تھی جب اس نے پبلشر کی حمایت کی اور جرم ماننے سے انکار کر دیا۔ہو سکتا تھا کہ وہ مزید مشکل میں پھنس جاتا لیکن اس کے ضمانتی حق نے اس کو بچا لیا اور وہ” جینیوا ” سے بھی نکل گیا۔برانو جینیوا کی یونیورسٹی میں فلسفے کا لیکچرار مقرر ہونا چاہتا تھا لیکن مذکورہ پروفیسر پہلے سے ہی اس عہدے پر مقرر تھا لہذا برانو نے اپنی صلاحیت منوانے کی خاطر اس پر علمی اعتراض کیے۔
■اس کے بعد وہ فرانس نکل گیا اور
” فلسفئہ ادیان ” – Theology میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔وہ علمی حلقے میں متاثر کن رہا اور اپنے طلباء کی کاوشوں سے وہ فلسفے کا لیکچرار بن گیا۔ پیرس شہر میں اس نے فلسفہ پر 30 لیکچر دیے ۔ اس کی “علم الذاکرة”-
(Art of memory )
کے حوالے سے شہرت پورے شہر میں پھیل گئی۔اس کی حیرت انگیز علمی یادداشت سے ہر کوئی متعجب تھا۔اس کے بعض ہم عصر اس کے تعلیمی زمانے کے ساتھی طالب علموں کی طرح اس کے پاس “جادوئی طاقت ” ہونے کا یقین رکھتے تھے۔برانو کی بعض عادتیں اور علمی تحقیق واقع ایسی تھی کہ وہ اس غلط فہمی میں پڑجاتے۔ یہی شہرت آخر فرانس کے بادشاہ” ہنری سوئم 3″ تک پہنچی تو اس نے برانو کو اپنے دربار میں مدعو کیا اور اس سے ؛ اس کی جادوئی یادداشت کے متعلق پوچھا ۔برانو نے کہا کہ “وہ علم النفس کا عمیق مطالعہ رکھتا ہے اور دماغی حافظے کے فلسفے کو پرکھتے پرکھتے وہ اس قابل ہوا ہے کہ غیر معمولی مذاکرات کر سکے”۔ بادشاہ ہنری نے اس کا وظیفہ مقرر کیا اور اہم علمی اور تحقیقی منصب پر براجمان کیا ۔پیرس میں اس نے اپنے مداحوں اور شاگردوں کے درمیان اپنی زندگی کے بہترین دن جیے۔اسی دوران ہی اس نے اپنی ” علم الذاکرة” پر عظیم کتابیں
“On the shadow of ideas”
اور “Art of memory” شائع کیں۔ پہلی کتاب کو بادشاہ ہنری سوئم کی طرف منسوب کیا۔یہ دونوں کتابیں اس کی گہری معلومات اور تجربے کا حاصل تھیں۔ بادشاہ ہنری نے اسے اپنے سفیر کے ساتھ انگلستان بھیج دیا ۔وہ انگلینڈ میں کئی اہم عہدوں پر رہا۔ملکہ الزبتھ کے ریاستی سیکرٹری کے ماتحت بھی کام کرتا رہا۔ایک بار آکسفورڈ یونیورسٹی میں بھی لیکچر دیا لیکن وہ وہاں کوشش کے باوجود پروفیسر تعینات نہ ہو سکا۔انگلستان میں وہ فرانس کے سفارت خانے میں مقیم رہا۔ یہاں اس نے زیادہ وقت علم فلکیات کی تحقیق میں گزارہ اور علم طبعیات کے حوالے سے کائنات اور میٹا فزکس پر لکھا۔اس کا انداز بیان باغیانہ اور زبان انتہائی سخت تھی جس کے نشتر وہ اپنے نظریات کے مخالفین پر چلاتا۔انہیں دنوں اس کا آکسفورڈ یونیورسٹی کے عہدہ داروں اور بشپ bishop کے ساتھ تنازعہ پیدا ہوا۔ یونیورسٹی کے نگران بشپ نے برانو کا” کوپر نیثس” کے نظریات کی تقلید کرنے پر مذاق اڑایا۔اس کو جب پتا چلا کہ برانو کہتا ہے کہ زمین گھومتی ہے اور آسمان اور سورج ساکت ہیں( جیسے کہ کوپرنیثس کا نظریہ تھا) تو بشپ نے کہا : دانو برانو کا سر ہلنے سے قاصر ہو کر ساکت ہو گیا ہے اور اس کا دماغ گھوم رہا ہے۔
انہیں تنازعات نے جب طول پکڑا تو برانو ایک بار پھر متنازعہ شخصیت بن گیا۔وہ ارسطو کے نظریہ کائنات کا بھی مخالف تھا۔ الغرض وہ انگلستان کا بھی باشندہ نہ بن سکا اور اپنی فطری آزادای کو لیے جرمنی جا پہنچا ۔وہاں کا علمی ماحول اس کی طبعیت کے موافق نہ تھا لیکن پھر بھی وہ ایک درسگاہ میں لیکچرر تعینات ہو گیا۔جرمنی میں شہر شہر پھرتے آخر ایک دن وہ Frankfurt شہر کے کتاب میلے میں شریک تھا کہ اسے اٹلی کے شہر وینس کے ایک مقامی رئیس “Giovanni Mocenigo ” کا خط موصول ہوا۔اس نے برانو کو وینس آنے کی دعوت دی اور کہا کہ وہ برانو سے علم یادداشت اور فلسفہ سیکھنا چاہتا ہے۔
برانو کوئی حتمی فیصلہ نہ کر سکا۔لیکن وہ جرمنی کو چھوڑ کر اٹلی چلا گیا ۔ایک برس تک علم ریاضیات کا لیکچرر تعینات ہونے کی ناکام جدوجہد کے بعد آخر وہ وینس کے رئیس Giovanni Mocenigo کے پاس پہنچا اور اس کا اتالیق اور استاد بن گیا۔
■شروع میں سب بہتر رہا؛ برانو اسے اپنے نظریات سمجھاتا رہا لیکن بعد میں جب برانو نے وینس سے جرمنی واپس جانا چاہا تا کہ وہ اپنی کچھ کتب طبع کر سکے ؛ تو وہ رئیس سخت ناراض ہوا اور برانو کو دشمن بن گیا۔اس نے برانو پر رومی کلیسا کے گستاخ اور بدکردار ہونے کے الزام لگائے اور مقامی چرچ کی عدالت میں اس پر کفر کا الزام عائد کر کے گرفتار کروا دیا۔ برانو پر لگا ایک بڑا الزام یہ بھی تھا کہ وہ کائنات کی ثنویت – ” plurality of worlds ” پر یقین رکھتا تھا ۔برانو کے اس رئیس شاگرد نے اس کی زندگی اختتام کو پہنچا دی۔یہ1593 کا قصہ ہے۔مقامی عدالت نے تفتیش کے بعد اسے روم منتقل کر دیا۔ سات سال مسلسل اس کا مقدمہ چلتا رہا۔ رومی کلیسا کی عدالت میں برانو پر درج ذیل جرائم ثابت کیے گئے جن کے ثبوت اس کی پچھلی زندگی؛ لیکچروں اور کتابوں سے جمع کیے گئے:
▪︎ رومن کیتھولک چرچ کے بنیادی عقائد کو لغو جاننا اور چرچ سمیت اس کے منتظمین کے خلاف گستاخی کرنا۔
▪︎ حضرت یسوع مسیح علیہ السلام کے خدا کا بیٹا ہونے اور الوہیت کا انکار کرنا ۔
▪︎ حضرت یسوع مسیح علیہ السلام کے بغیر باپ کے پیدا ہونے کا انکار کرنا۔
▪︎ عشائے ربانی میں منتقلئ جوہر کا انکار کرنا۔
▪︎ آخرت اور جنت جہنم کا انکار کرنا۔
▪︎ مرنے کے بعد روح کی دنیا میں منتقلی کو ماننا۔
▪︎کائنات کے دوہرے وجود کو ماننا اور کائنات کی ابدیت پر یقین رکھنا۔
▪︎ ممنوعہ کتب رکھنا اور “راہب آریوس “کے نظریات کی حمایت کرنا۔
▪︎ عقیدہ کفارہ اور عقیدہ تثلیث کا انکار کرنا۔
▪︎ میٹا فزکس اور فلسفے سے رومن عقائد کی مخالفت کرنا۔
▪︎ جادو کی عملیات میں مشغول ہونا۔
■ اس کے بعد برانو کو سر عام جلایا گیا اور راکھ دریا میں بہا دی گئی۔2000 عیسوی میں جب کہ برانو کی 400 ویں برسی تھی تو کیتھولک پوپ نے برانو سمیت ان تمام لوگوں کے لیے تعزیت پیش کی جنہوں نے آزادئ فکر اور سائنس کی راہ میں جان کی قربانیاں دیں اور رومی کلیسا کے زیر عتاب رہے۔
کئی محققین نے برانو کے مقدمے کے کاغذات دریافت کیے اور اس کے لیے معذرت کے کلمات کہے لیکن سب نے یہ ثابت کیا کہ رومن کیتھولک چرچ اس کو سزا دینے میں حق بجانب تھا۔
کئی ایک مغربی سکالرز کا ماننا ہے کہ برانو کو سزا اس کے سائنسی نظریات اور منفرد فلکی تخیلات کی وجہ سے نہیں ملی بلکہ سر عام کیتھولک عقائد کی مخالفت کرنے کی وجہ سے ملی۔
■ جیور دانو برانو ؛ نے فلسفہ ؛ طبعیات؛ علم الذاکرة؛ علم فلکیات ؛ تاریخ ؛ ادب اور ریاضی سمیت کئی موضاعات پر کتب لکھیں جو کہ اس کی سزا کے بعد رومن چرچ کی ممنوعہ کردہ کتابوں کے ہمراہ
مقفل کتب خانے میں بند کر دی گئیں۔برانو کی سزا کے کچھ برس بعد اسے آزادئ فکر کا نمائندہ قرار دیا گیا اور کئی یادگاریں اس کے نام بنائی گئیں؛
برانو پر کئی کتابیں بھی لکھی گئیں اور اسے ادب میں جادوئی حقیقت نگاری کا اولین نقاش قرار دیا گیا۔ جیمز جوائس نے اپنا ناول Finnegans Wake
برانو کی زندگی اور فلسفے پر لکھا ہے ۔اپنے ایک خط میں جوائس لکھتا ہے: ” برانو کا یہ فلسفہ میرے نزدیک حیرت انگیز ہے کہ فطرت کی ہر قوت کو بقا کے لیے ایک مخالف قوت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اسی تضاد میں ایک طرح کا اتحاد باہمی بھی موجود ہے۔” جوائس اس کو جدید فکشن کا بانی بھی سمجھتا ہے ۔اس کے علاوہ بھی برانو پر کئی کتب ؛ نظمیں ؛ سوانح نامے؛ اور ناول لکھے جا چکے ہیں۔کئی ایک ڈرامے اور فلمیں برانو کی زندگی اور فکر سے متاثر ہو کر بنائے گئے ہیں۔امریکی fantasy ناول نگار John Crowley نے برانو کو مرکزی تھیم بنا کر تین ناول لکھے ہیں:
1 Love & Sleep ; 2 Daemonomania; .
3 Endless Things
چاند کی افقی سطح کے خدوخال کو برانو کی علم فلکیات میں خدمات کے اعتراف میں” دانو برانو” سے منسوب کیا گیا ہے؛ اس کے علاوہ دو Asteroids کے نام بھی برانو کے نام اور اس کی کتاب کے نام پر رکھے گئے ہیں۔آسٹریلیا میں ایک ریڈیو اسٹیشن جیور دانو برانو سے منسوب ہے ۔اٹلی کے کئی سائنسی ادارے اور درسگاہیں برانو کے نام پر ہیں جبکہ کئی شہروں میں اس کے مجسمے اور یادگاریں آویزاں ہیں۔
■ بعض محققین کے نزدیک برانو وہ پہلا شخص تھا جس نے کائنات کے لا محدود ہونے کا نظریہ سائنسی بنیاد پر پیش کیا ۔اس کے حیرت انگیز نظریات میں نہ صرف یہ تھا کہ ایک دوسری کائنات (دنیا) موجود ہے بلکہ وہ سیاروں میں ہماری اس دنیا کی زندگی جیسی ایک اجنبی زندگی کے وجود کو بھی مانتا تھا۔برانو کے بعض مداح اسے سائنس کا شہید کہتے ہیں جب کہ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جن کمروں میں برانو کا مقدمہ پیش ہوا اور اس کی تفتیش کی گئی؛ انہیں کمروں میں برانو کی موت کے 16 سال بعد کے جب ارسطو کے فلکی نظریات دم توڑ چکے تھے اور خلائی طبعیات ایک نئی سمت میں گامزن تھی؛ برانو کے تفتیشی جج Cardinal Bellarmino نے سائنس دان گلیلیو کا بھی انہیں فلکیاتی نظریات پر محاسبہ کیا جن پر برانو کا مقدمہ پیش کیا گیا تھا لیکن گلیلیو کو محض تنبیہ کر کے بری کر دیا گیا۔ حقیقت یہ ہے برانو ایک بہت ہونہار ؛ بیدار مغز اور یگانہ روزگار شخصیت تھا جو کہ دور Renaissance میں ایک اہم مقام رکھتا ہے لیکن اس میں گونا گوں خوبیوں سمیت ایک خامی جو اس کی جان لے گی وہ اس کا ضدی پن اور لاپرواہ رویہ تھا جس کے زیر اثر وہ مخالفت میں حد درجہ بڑھ جاتا تھا اور اس واسطے ہی ہر جگہ اس نے دوست کم اور دشمن زیادہ پیدا کیے۔گرفتار ہونے کے بعد بھی وہ اپنے خیالات پر قائم رہا اور بھری عدالت میں ججوں کا مذاق اڑا کر رحم کی ساری امیدیں بھی خاک میں ملاتا رہا ۔چرچ نے اسے صرف ” زندیق ” ہونے کی بنا پر تاریخی سزا دی جو کہ برانو سے پہلے بھی اس کے ہم جرم حاصل کرتے آئے ہیں۔
■ برانو ؛ کوپر نیثس کے علاوہ مسلمان فلسفی اور سائنس دان ” بو علی سینا ” سے بھی متاثر تھا۔ “ابن سینا ” نے برانو کے فلسفیانہ نظریات پر گہرا اثر ڈالا ۔ یاد رہے کہ” بو علی سینا ” اسلامی فلسفے مین اس نظریے کے ساتھ منفرد ہے کہ عالم “قدیم ” ہے ؛ بر خلاف عام مُسلّم اسلامی فلسفے کے کہ؛ عالم” حادث” ہے ۔اس کے علاوہ بو علی سینا کا “علم نفس” بھی برانو کے لیے متاثر کن تھا۔ یہ بھی سچ ہے کہ برانو جادوئی تخیلات کو راسخ علم کا ایک ماخذ مانتا تھا اور اپنی یادداشت کے لیے وہ انہیں استعمال کرتا تھا۔
●جدید مغربی دنیا خاص کر اٹلی میں برانو
آزادئ فکر اور روشن خیالی کا استعارہ ہے۔وہی جگہ جہاں اسے زندہ جلایا گیا تھا ؛ اس کا ایک
عظیم الشان مجسمہ نصب ہے؛ جس میں وہ ایک عالمانہ لبادہ اوڑھے؛ ہاتھ میں کتاب تھامے کھڑا ہے۔ہر سال برانو کی سالانہ برسی کے موقعہ پر پوری دنیا سے محقق؛ دہریے؛ علمائے فلکیات ؛ فلسفی ؛ شخصی آزادی کے علم بردار اور عقل پرست اس مجسمے کے روبرو اکٹھے ہو کر “جیور دانو برانو” کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
☆ “جیور دانو برانو” کے چند اقوال:
_____________
■ لامحدود خدا کی لا محدود کائنات سے لامحدود محبت کرو۔
■اکثریت کے ماننے یا نہ ماننے سے سچ نہیں بدلتا۔
■وقت سچ کا باپ ہے اور ہمارا دماغ اس کی ماں ہے۔
■”کوپر نیثس” نے صرف زمین کو ہی نہیں گھمایا بلکہ انسانی دماغ کو بھی گھما کر ایک نئی سمت دی ہے۔
■ کائنات میں ثنویت کا عکس ہے؛ کائنات کی تمام چیزوں میں خود کائنات بھی موجود ہے؛ ہم بھی اپنے اندر ایک کائنات رکھتے ہیں ؛ اسی طرح اتحاد باہمی سے سارا عالم وجود گامزن ہے۔
■دنیا کے سب سے بڑے احمقوں نے رواج؛ رسمیں ؛ ذاتیں ؛ قانون اور زندگی کے مختلف معیار بنائے۔
■خدا کی ذات لا محدود ہے؛ اس طرح اس کی کائنات بھی لا محدود ہے۔اس کی شان صرف ایک چیز میں جلوہ گر نہیں؛ نہ ایک ستارے میں؛ نہ ایک سورج میں اور نہ ایک ہی زمین میں بلکہ میں کہوں گا
لا محدود ستاروں میں؛ ان گنت سورجوں اور لا محدود زمینوں میں جلوہ گر ہے۔
■اگر تمہارے کوٹ کا پہلا بٹن ٹیڑھا بند ہے تو دوسرے سارے بٹن بھی سیدھے بند نہ ہونگے۔
■اگر قسمت تمہارے ساتھ ہو تو تم دماغ کے بغیر بھی چل سکتے ہو۔
■فلسفے کی باتیں قیمتی ہیروں سے کم نہیں کیوں کہ ان کی حقیقت بھی نہیں جانی جاتی ۔
■روح جسم نہیں ہے اور نہ ہی جسم کے بغیر روح کا کوئی وجود ہے۔ یہ ایک جسم سے دوسرے میں بھی منتقل ہوتی ہے۔
■خوبصورت مناظر محبت کے جذبات جگاتے ہیں اور بھیانک مناظر نفرت اور بدظنی پیدا کرتے ہیں؛ لیکن اس سب پر مستزاد روح کے بھی چند احساسات ہیں جو پوری لطافت کے ساتھ جسم میں بہتے ہیں اور انہیں صرف روح ہی ابھار اور اتار سکتی ہے۔
☆برانو کی ایک نظم📚 :
_________
“بلندی کو چھونے کی آرزو لیے
جب
میں آسمانوں کو اڑا
آنکھوں میں
بادلوں کا سیلاب میرے قدموں پر لپٹتا رہا
جتنا میں نے اپنا آپ
ہواؤں کو سونپا
اس قدر میں
زمین سے سرکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔
آسمانوں کو تیرتا گیا”
_______________☆
《خدا کو پہچاننے کی خاطر تمہیں خود کو بھی اس عظیم ذات کی طرح عظیم بنانا پڑے گا؛ اس کے بغیر تم اس کی عظمت کا ادراک نہیں کر سکتے۔ہر تعلق سے آزاد ہو کر اتنے بلند ہو جاؤکہ کوئی پیمانہ تمہاری عظمت کو نہ ناپ سکے؛ جسم سے آزاد ہو جاؤ؛ وقت سے آزادی حاصل کر لو اور سمجھو کہ جیسے تم ابدیت میں ڈھل گئے ہو؛ پھر تم خدا کو جان سکو گے۔ اپنے لیے کچھ بھی نا ممکن خیال نہ کرو؛ سمجھو کہ تم لافانی ہو ؛ ہر شے کا ادراک کر سکتے ہو؛ تمام علوم؛ تمام فنون؛ اور سارے نظریات اور فلسفے تمہارے دماغ میں سمٹ سکتے ہیں، ہر زندہ چیز کی فطرت جان سکتے ہو؛ ہر بلندی سے ماورا ہو کر ہر پستی کی گہرائی میں جھانکو؛ ہر موجود چیز کے احساسات اور خواص کو اپنے اندر سمیٹ لو: چاہے آگ ہو ؛ پانی ہو ؛ نمی ہو خشکی ہو ؛ خاک ہو یا روشنی ۔ گمان رکھو کہ تم کائنات میں ہر جگہ موجود ہو؛ زمین پر؛ ہواؤں میں ؛ سمندر کے اندر؛ اور فلک پر؛ تم ایک انسانی رحم سے نہیں نکلے بلکہ ؛ مادے سے دور ؛ خود کو ابھی پیدائش کا منتظر اور موت کی کارگزاری کا تجربہ کار سمجھو؛ اگر تم اس قابل ہو گے کہ تمام احساسات اور اشیاء کو اپنے خیال میں سمیٹ کر یکجا کر سکو چاہے وہ زمان ہو ؛ مکان ہو ؛ روح ہو یا ذرات ؛ ستارے ہوں یا مادی دنیا ؛ موجود ہوں یا معدوم- اگر تم ان سب کو سمیٹ سکے تو پھر تم خدا کو بھی جان جاؤ گے؛ میں اسے ہی جادو کہتا ہوں اور یہی میرا جادو ہے.》
~ یا اپنا گریباں چاک یا دامنِ یزداں چاک
________________
✍_____جیور دانو برانو ؛ کی کتاب
“Cause, Principle and Unity and Essays on Magic”
سے اقتباس۔
#حنظلة_الخليق
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...