کیا میجک ریلزم کا آغاز لاطینی امریکہ سے ہؤا۔۔؟ اگر ایسا ہے تو درج ذیل کو ہم کیا کہیں گئے :
" اور پرومیتھیس نے زیوس سے چورائی آگ اور انسان کو لادی۔۔ اور نافِ وشنو سے اک کنول پھوٹا جس سے برہما نے جنم لیا۔۔ آگ سرد ہوگئی اور ایک مینڈھا تھا جو ابرایم علیہ السلام کو اس کے پاس نظر آیا۔۔ اور موسی علیہ السلام کا عصا اژدہا بنا اور اس نے فرعونی جادوگروں کے سانپ کو چٹ کر لیا۔۔ اور یسوع علیہ السلام نے کہا : اُٹھ جا۔۔! اور بیوہ کا مردہ بیٹا زندہ ہوکر باتیں کرنے لگا۔۔۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کو دیکھ کر اپنی شہادت والی انگلی ہلائی۔۔۔ اور چاند دو ٹکڑے ہو گیا۔۔ "
دنیا بھر کی تہذیبوں، عقائد اور روایات، لوک ادب، الوہی ادب اور ادب عالیہ سے ایسی اور بھی بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔۔
یہ سوال اپنی جگہ لیکن بہرحال جادوئی حقیقت پسندی کو لاطینی امریکہ سے ہی جوڑا جاتا ہے۔۔ اس اصطلاح کا سکہ گو کے لگ بھگ پہلی بار اس وقت گھڑا کھ نقادوں نے ارجنٹائن کے بورخیس کے کام کو پرکھنا شروع کیا اور انہیں یہ مشکل پیش آئی کہ بورخیس کی تحریروں میں فینٹسی کا جو عمل دخل ہے اسے وہ حقیقت پسندی میں کہاں بٹھائیں۔۔ اس وقت تک حقیقت پسندی کی کئی شاخیں بھی وجود میں آچکی تھیں جیسے سماجی حقیقت پسندی، اشتراکی حقیقت پسندی اور تو اور کچن سنک حقیقت پسندی۔۔
نقادوں کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ بورخیس کی A universal History of infamy جو 1954 میں مصنف کے ترامیم کے بعد پھر سے شائع ہوئی تھی، میں موجود کہانیوں کو کس زاویے سے دیکھیں۔۔ جس زمانے میں یہ اصلاح گھڑی گئی اس وقت آدھی سے زیادہ دنیا میں اشتراکی حقیقت پسندی کا زور و شور تھا باقی دنیا میں سماجی حقیقت پسندی یا صرف حقیقت پسندی چھائی ہوئی تھیں۔۔ surrealism، imaginary realism اور فینٹسی بھی پہلے سے موجود اصطلاحات تھیں۔۔ اس تناظر میں یہ اصلاح نہ صرف مبہم ہے، غیر واضح ہے بلکہ مشکوک بھی ہے۔۔ چلیں چھوڑیں یہ نقادوں کا کام ہے کہ وہ کسی ادیب کے کام، کسی فنکار کے کام کو کس چوکھٹے میں رکھ دیتے ہیں۔۔ فی الحال تو گیبرئیل گارشیا مارکوئیز پر بات کرنا ہے جس کا کام بھی نقادوں نے جادوئی حقیقت پسندی کے کھاتے میں ڈال رکھا ہے۔۔
گیبرئیل گارشیا مارکوئیز پورا نام Gabriel jose de la concordia Garcia، جسے اس کے مداح پیار سے گابو یا گبیتو بھی کہتے ہیں، 6 مارچ 1927 کو آراکٹا کولمبیا میں پیدا ہوا۔۔ اس کا باپ ایک فارماسسٹ تھا وہ بیوی کو ساتھ لیکر باران کیولا چلا گیا اور ننھا مارکیز نانا نانی کے پاس پروان چڑھنے لگا۔۔ وہ اپنے والدین کے پاس تب ہی آسکا جب اس کے نانا کی وفات ہوئی۔۔۔ مارکیز اس وقت دس سال کا تھا۔۔ اس کا نانا، ہزاروں کی جنگ کا ایک روشن خیال فوجی تھا لہذا مارکیز پر نانا کا اثر بچپن سے ہی حاوی رہا ہے۔۔
سوکری میں رہنے کے دوران مارکیز کی باقاعدہ تعلیم کا آغاز ہوا اور وہ سکول میں جلد ہی ایک ایسے بچے کے طور پر مشہور ہوگیا جو لطیفہ گو، مزاحیہ نظمیں لکھنے والا اور مزاحیہ خاکے بنانے کا شوقین تھا۔۔ بعد ازاں اسے پڑھنے کے لئے بگوٹا بھیجا گیا جہاں اس نے ہائی سکول کی تعلیم مکمل کر کے ، کولمبیا کی نیشنل یونیورسٹی میں قانون پڑھنا شروع کیا۔۔ اس دوران اس نے کافکا پڑھا اور اس کے ناول میٹا مورفیس کے اثر قبول کیا۔۔ اسے کافکا کا یہ کام غیر روایتی لگا۔۔ جب بگوٹا میں ایک مشہور رہنما jorge elicer gaitan کے قتل ہونے پر یونیورسٹی بند کر دی گئی تو وہ کارٹاگینا کی یونیورسٹی چلا گیا اور وہاں کے مقامی اخبار el unvirsl کو جزو وقتی رپورٹر بھی بن گیا۔۔ 1955 تک اس کا صحافتی کلیئر اس حد تک آپہنچا تھا کہ وہ بگوٹا کے اخبار El espectador کے لئے باقائدگی سے لکھ رہا تھا۔۔
وہ فلموں پر تنقیدی مضامین لکھتا جس نے اسے فلموں کی طرف راغب کیا۔۔ اس اخبار کے لئے لکھے گئے چودا مضامین ایسے تھے جن میں اس نے کولمبین نیوی کے ایک جہاز کے ڈوبنے کی اصل کہانی کو آشکار کیا جو سرکاری موقف کے برعکس تھا۔۔ اس پر ایک تنازع کھڑا ہوا اور اسے غیر ملکی نامہ نگار بناکر یورپ بھیج دیا اور اخبار El independiente کے لئے نامہ گاری کرتا رہا جو El espectador کی جگہ نکالا گیا تھا۔۔ فوجی جُنتا کو یہ اخبار بھی وارا نہیں کھاتا تھا چنانچہ اس نے اسے بھی بند کر دیا۔۔
پتوں کا طوفان leaf strom اس کا پہلا ناولٹ تھا جو 1955 میں سامنے آیا۔۔ اسے یہ ناولٹ لکھنے، ترامیم کرنے اور پھر سے دوبارہ لکھنے میں سات سال لگے تھے۔۔
دسمبر 1957 میں اس نے کراکس کے اخبار El momento میں نوکری قبول کی اور وینزویلا چلا گیا۔۔ وہاں وہ اس کے ملک کے صدر مارکوس کے خلاف جدو جہد میں شامل رہا اور بعد ازاں ایک مضمون، " مذہبی لوگوں کی جدو جہد میں شمولیت" بھی لکھا۔۔ مارچ 1958 میں وہ کولمبیا واپس آگیا اور مرسیڈیز برچا سے شادی کر کے اسے ساتھ واپس کراکس آگیا۔۔
مارکیز کی نوجوانی سے ہی خواہش تھی کہ وہ اپنے اجداد پر ایک ناول لکھے۔۔ اس ناول نے بالآخر" سو برس کی تنہائی " کی شکل اختیار کی جو 1967 میں سامنے آیا۔۔ اس کا ترجمہ انگریزی میں میں تین سال بعد one hundred years of solitude کے نام سے ہوا۔۔ یہ ناول اب تک لگ بھگ چالیس زبانوں ترجمہ ہوچکا ہے اور اس کی 30 ملین سے زائد کاپیاں قانونی بک چکی ہیں۔۔ یہ ناول جہاں کولمبین تاریخ کو خود میں سموئے ہوئے ہے وہاں یہ بہت سی قومی اساطیروں کا بیانیہ بھی ہے۔۔ اس میں کولمبیا کے تاریخی واقعات کا بھی واضح ذکر موجود ہے۔۔ اس ناول کی کامیابی کے بعد مارکیز یورپ واپس آگیا اور بارسلونا میں رہا۔۔
اس دوران وہاں ایک طرف تو کولمبین حکومت اور باغی گوریلوں کے درمیان بات چیت کراتا رہا، دوسری طرف اس کی دوستی فیدل کاسترو سے بھی ہوئی۔۔ ساتھ ہی ساتھ وہ لکھتا بھی رہا۔۔ اس نے autumn of the patriarch لکھنا شروع کر رکھا تھا جو اس نے 1971 میں مکمل کیا۔۔ یہ وینزویلا کے فوجی آمر مارکوس کو سامنے رکھ کر لکھا گیا تھا۔۔ وہ اس میں اگلے دو تین سال ترامیم کرتا رہا اور بالآخر یہ 1975 میں سپین سے شائع ہوا۔۔
اس کا اگلا ناولٹ 1978 میں سامنے آیا۔۔ یہ the incredible and sad take of erendira and her heartless grand mother نام سے تھا۔۔ 1981 میں chronicle of a death foretold چھپا اور اسے اگلے برس اسے ادب کا نوبل انعام ایوارڈ ملا۔۔ ہیضے کی وبا میں محبت، 1985 میں سامنے آیا۔۔ 1996 میں ، news of kidnapping اور اس کی سوانحی داستان کا پہلا حصہ، living to tell، اور 2002 میں the tale and memories of my melancholy whores شائع ہوئی۔۔
وہ 87 برس کی عمر میں نمونیہ کا شکار ہوکر 17 اپریل 2014 میں میکسیکو میں فوت ہوا۔۔ مرسیڈیز سے اس کے دو بیٹے ہیں، روڈریگو، اور گن زالو۔۔ روڈریکولو ٹی وی سے وابستہ ایک اہم فلمی ہدایت کار اور سکرپٹ رائٹر کے جبکہ گن زالو میکسیکو میں گرافک ڈیزائنر ہے۔۔
اس کے کام کا بیشتر حصہ حقیقت پسندی کے زمرے میں آتا ہے جبکہ اس کا کچھ کام ایسا بھی ہے جسے نقاد جادوئی حقیقت پسندی گردانتے ہیں۔۔ میرے نزدیک یہ کام بھی اس مبہم اصطلاح سے لگا نہیں کھاتا کیونکہ مارکیز اس طرح کے کام میں لاطینی امریکہ کی قدیم ثقافت سے جڑ کر اپنی تحریروں میں رنگ بھرتا ہے۔۔ گارشیا خود بھی اپنے کام کو اس اصطلاح سے نہیں جوڑ پاتا، اس کے دوست مینڈوزا کا کہنا ہے :
" گارشیا جس طرح سے اپنی کتابوں میں سچائی کو دیکھتا ہے۔۔ اسے جادوئی حقیقت پسندی کہا جاتا ہے۔۔ مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ مغرب کا قاری گارشیا کی کہانیوں کے جادو سے واقف ہیں لیکن وہ اس کے پیچھے چھپی سچائی کو نہیں دیکھ پاتے۔۔ یہ یقینا ایسا ہی ہے کہ اس کی منطق یہ سمجھ ہی نہیں پاتی کہ سچائی صرف انڈوں اور ٹماٹروں کی قیمتوں تک ہی محدود نہیں ہوتی۔۔ "
مارکیز نے چھوٹے بڑے گیارہ ناول لکھے، اس کی کہانیوں کی سات مجموعے ہیں جبکہ نان فکشن کے زمرے میں اس کی آٹھ کتابیں ہیں۔۔ اس نے لگ بھگ پچیس فلموں کے سکرپٹ بھی لکھے جبکہ اس کے سے ماخوذ فلموں کی تعداد پندرہ کے لگ بھگ ہے جن میں چند کا ذکر یہاں کیا جا رہا ہے :
No one writes to The colonel, ہسپانوی زبان میں 1999 میں بنی ، love in the the time of cholera انگریزی میں، 2007 میں بنی جبکہ memories of my melancholy whores 2011
میں سامنے آئی۔۔۔ One hundred years of solitude
کو تو جاپان 1981 میں ہی فلمایا گیا تھا گویہ فلم ناول کے ساتھ کسی طرح بھی انصاف نہ کر پاتی۔۔ مارکیز کا اپنا بھی کہنا تھا کہ اس ناول کو فلمانا آسان نہیں۔۔
گبرئیل گارشیا مارکیز سیاسی طور پر بائیں بازو کے خیالات کا حامی تھا۔۔ اس بارے میں اس نے اپنے ایک انٹرویو میں کچھ یوں کہا تھا :
" میرا نانا ایک روشن خیال آدمی تھا۔۔ غالباً میرے سیاسی خیالات کی بنیاد وہی سے پڑی۔۔ وہ مجھے پریوں کی کہانیاں سنانے کی بجائے خانہ جنگی کے دلسوز اور اندوہناک قصے سنایا کرتا جس میں آزاد سوچ رکھنے والوں نے دائیں بازو کی رجعت پسند حکومت کے خلاف جرات اور بہادری سے لڑا تھا۔۔ "
گبرئیل گارشیا مارکیز سوشلسٹ خیالات رکھتا تھا۔۔ سامراج مخالف تھا۔۔ وہ ساری عمر اس عالمی status quo " کا مخالف رہا جو امریکہ کی سربراہی میں دنیا پر چھایا رہا۔۔ اس نے افریقہ میں، خصوصاً انگولا میں خانی جنگی پر اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کیا اور وہاں کیوبا کی سرگرمیوں کی کھل کر حمایت کی۔۔ اسے کیوبا میں سوشلسٹ انقلاب کے ثمرات بھی اچھے لگتے تھے وہ وہاں گورننس کے مسائل پر تنقید بھی کرتا رہا۔۔ فیدل کاسترو سے اس کی قریبی یاری تھی لیکن کئی موقعوں پر وہ اس کی پالیسیوں پر تنقید کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا تھا۔۔!!
•••••
تحریر : قیصر نذیر خاور
انتخاب و ٹائپنگ: احمد بلال