جادو، مذہب اور سائنس.
ماہرینِ سَماجی عُلوم خاص کر سوسیولاجسٹس اور اینتھروپولاجسٹس نے انسانی سماج کی ارتقا کے مختلف اَدوار گِنوائے ہیں جن میں سماجی شعور نے مختلف مَرحلے طَے کئے ہیں. ایڈورڈ برنڈٹ ٹیلر، جسے فادر آف اینتھروپالاجی یا عِلم الانسان کا باپ کہا جاتا ہے اور سوسیولاجسٹ آگسٹ کومٹے کے مطابق انسانی سماج یا سماجی شعور تین اَدوار میں سے گُذرا ہے جن میں عُمومی طور پر وحشیانہ / جنگلی دؤر، مذہبی / دیومالائی دؤر اور سائنسی / عقلی دؤر شامل ہیں جسے جدید دؤر بھی کہا جاتا ہے.
ایسے ہی ایک مَشہور ماہرِ عِلم الانسان سَر جارج جیمز فریزر گُذرے ہیں جس نے اپنی مشہور کتاب The Golden Bough میں انسان کی شعوری ارتقا کو تین مراحل سے گُذرتے دیکھا ہے یعنی جادو، مذہب اور سائنس.
پہلے مرحلے میں جادو ٹونے / magic نے کردار ادا کیا. جب انسان نے اپنے اِردگرد کے ماحول میں ہونے والے حَوادث کو دیکھا تو اُس کو اُن حَوادث کے پیچھے کوئی قُوّت / ایجنسی کارفرما نظر آئی تو اُس قوّت پہ قابو پاکر اُسے اپنے مَفادات کے لئے استعمال کرنے کی خاطر جادو ٹونے کا استعمال کیا. یہاں دو طرح کا جادو ٹونا استعمال کیا گیا جسے فریزر sympathetic اور contagious کا نام دیتا ہے. Sympathetic magic میں کسی بھی ٹارگٹ / دشمن انسان کو نقصان پہنچانے کے لئے جادوگر مٹی وغیرہ سے اُس کی شَبیہہ یا پُتلا بناکر اُس میں کانٹے یا سوئیاں / needles چُبھوتا تھا جبکہ contagious magic میں دشمن انسان کی کسی بھی چیز جو اس کے کبھی استعمال میں رہی ہو جیسے لاٹھی ، رومال وغیرہ یا اس کے جسم کا کوئی حِصہ جیسے بال وغیرہ کو آگ لگا دینا شامل تھا. یہ سارا جادو ٹونے کا کھیل لوگوں کے اِس ایمان و یَقین پر ٹِکا ہوا تھا کہ یہ سب کرنے سے دشمن کو نقصان رسایا یا مِٹایا جاسکتا ہے. جادو ٹونا کرتے وقت مَنتروں میں اُن غیر مَرعی قُوّتوں کو حُکم دیا جاتا تھا کہ وہ دشمن کو نقصان پہنچائیں. مگر جب انسان نے دیکھا کہ جادو ٹونے سے مَن چاہے نتائج برآمد نہیں ہورہے تو اُس کو لگا کہ وہ قُوّتیں یا ہَستیاں اُس سے زیادہ طاقتوَر ہیں اور کئی بار فائدہ دینے کے بَجائے اُلٹا نقصان دے رہی ہیں، اِس لئے اُس کے بَس سے باہر ہیں اور یوں انسان اُن نادیدہ قُوتوں سے ڈرنے لگا. یہیں سے دوسرا دؤر یعنی خَوف کادؤر شروع ہوا جس نے مذہب کو جَنم دیا اور نتیجتاً عبادات و دیگر مذہبی رسوم نے جَڑ پَکڑلی. پہلے تو جادو ٹونے کا مقصد تھا کہ فطری قوّتوں کو manipulate / ہراساں کرکے ان کو اپنے تابع کرنا پر اب انسان کو لگنے لگا کہ فطری قوّتیں یا مافوق الفطری ہستیاں اس سے زیادہ طاقتور ہیں اس لئے بھلائی اِسی میں ہے کہ اُن پہ قابو پانے کے بجائے ان کو راضی رَکھا جائے، ان کو مُطیع بنانے کی کوشش بھی کرنا نقصان دہ ہوسکتا ہے اِس لئے انہی کے تابع رہ کر اُن سے مدد کی التجا کی جائے. مگر فطرت تو فطرت ہے وہی زلزلے، طوفان، جنگلی جانوروں کا شکار ہونا وغیرہ چلتا رہا. آخرکار جب دُعاؤں و عبادات سے بھی انسان کے مَقاصد پورے نہ ہوئے، انسان کی مُصیبتیں کَم نہ ہوئیں تو اُسے ہوش آیا کہ فطرت تو اندھی ہے وہ لگے بَندھے اُصول و ضَوابط کے تابع ہے، نہ وہ خیر ہے نہ شَر وہ تو بس عِلت و معلول میں جَکڑی ہوئی ہے، تب سے سماج تیسرے دؤر یعنی سائنس کے دؤر میں داخل ہوا جسے آج کے جدید دؤر سے تعبیر کیا جاتا ہے.
ماہرین سماجی عُلوم اور سائنسدانوں نے دَعوے کیے تھے کہ وقت کے ساتھ سماج اپنے بَچکانہ دؤر سے گُذر کر بڑا ہوجائے گا تو جادو اور مذہب پیچھے رہ جائیں گے اور سائنس کا دؤر دورہ ہوگا مگر ایسا نہیں ہوا جس پہ خود یہ ماہرین حیرت زدہ ہیں کہ ابھی تک مذہب اور تَوہم پرستی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں گوکہ سائنس اپنی حیثیت بھی مَنوا چُکی ہے. اِس دؤرِ جدید میں مذہب کی موجودگی اور اُس کے زندہ رہنے کے کئی اسباب ہیں. ایک تو سائنس کی عُمر بھی کَم ہے بَمشکل کوئی چار پانچ سَؤ سال اور دوسرا اُس کے ثَمرات و اَثرات بھی محدود دنیا خاص کر مغرب تک ہی زیادہ تر پہنچے ہیں. تیسرا بڑا سبب ہے انسان کی جذباتی و نفسیاتی تَسکین و تَشفی جو مذہب کرتا چلا آیا ہے. سائنس کائنات کی ایسی تصویر پیش کرتی ہے جو انسانی ذات سے لاغرض اور بہت بے کیف ہے جبکہ مذہب ایک ایسی کائنات کی تصویر کَشی کرتا ہے جس میں انسان اور صرف انسان ہی اُس کا مَحور و مَرکز ہے جو کبھی فَنا نہیں ہونا چاہتا اور اِسی خواہش کا عَکس مذہب کے حیات بعد از موت یا بَقائے دوام کے نظریے میں دیکھا جا سکتا ہے. بے مقصد کائنات، اندھے فطری قوانین، موت کا ڈر، غیریقینت وغیرہ یہ ایسے تَلخ حقائق ہیں جو انسان کو مذہب کے اور قریب لے آتے ہیں. مذہب نے لوگوں کے دِلوں پر حُکمرانی کی ہے شاید سائنس کو لوگوں کے دماغ پر حُکمرانی کرنے کے لئے اب بھی کچھ وقت درکار ہے.
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔