میری رائٹنگ بہت خراب تھی۔ کیوں کہ میں تیزی سے لکھتا تھا اس لیے بیچ بیچ میں الفاظوں چھوڑنے کے علاوہ غلط لکھتا تھا اور اب بھی میرا یہی طریق ہے۔ یہی وجہ ہے میں نے ایک تحقیقی مقالہ تقریباً چار سو صفحوں کا لکھا۔ اس کو لکھنے میں دس گنا صفحات ضائع کیے۔ اگرچہ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ جب کوئی نیا ریفرنس آجاتا تو اس کو ایڈ کرنا ہوتا تھا۔ اگرچہ میں بعد میں کتابی انداز میں صاف ستھرا لکھا تھا، مگر اس میں الفاظ پھر بھی چھوٹ جاتے تھے ۔ اس لیے میں وائیٹو استعمال کرتا تھا ۔ ویسے میں بناکر تو میں خطاطی ، تصویریں اور کار میکنگ بھی کرلیتا تھا۔
پہلے میں ڈائریوں، کاپیوں اور مختلف کاغذوں پر لکھتا تھا۔ تاہم میں گھر سے باہر نکلتا تھا تو ہاتھ میں کتاب اور اس میں ایک سادہ صفحہ ضرور ہوتا تھا۔ میرے ساتھ شروع سے مسلہ یہ رہا ہے کہ میں وقت کو ضائع کرنا پسند نہیں کرتا تھا۔ اس لیے جہاں وقت ملتا وہیں پڑھنا یا کوئی بات ذہن میں آتی تو وہیں لکھتا تھا۔ میں پیدل یا سواری میں بھی کتاب پڑھتا ہوا جاتا تھا۔ اس لیے جب کسی کا انتظار کرتا تو کتاب پڑھتا رہتا تھا۔ یعنی نشے کی حد تک کتابیں پڑھنے کی لت تھی اور اس پڑھنے کی لت نے مجھے بہت نقصان پہنچایا اور میں کبھی اچھا طالب علم بن نہیں سکا۔ اگرچہ میرے اساتذہ میرے سوالوں سے گھبراتے تھے مگر میں رٹے لگانے یا نوٹ بنانے کا عادی نہیں تھا اور میں تو ہر چیز کو سمجھنا چاہتا تھا ۔ مگر میرے سوالوں کے کوئی جواب نہیں دیتا تھا۔ اس لیے میں کوئی اچھا طالب علم نہیں رہا ہوں اور امتحان میں رات کو کتابوں پر نظر ڈالتا تھا۔ اس لیے اسکول کی حد تک تو کوئی مسلہ نہیں ہوتا تھا۔ مگر بوڈ کے پیپروں میں مسلہ ہوتا تھا۔ میری گندی اور کٹی پھٹی رائتنگ جس میں بہت سے الفاظ غائب ۔ اس لیے میں بمشکل پاس ہوتا تھا۔
میرے والد کلرک تھے اس لیے مجھے کتابیں کم ہی میسر ہوتی تھیں اگرچہ کتنا بھی برا وقت گزرا مگر ہمارے گھر میں ایک دو ڈائجسٹ اور اخبار جہاں ضرور آتا تھا۔ کیوں امی اور پاپا دونوں پڑھنے کے شوقین تھے۔ اس لیے پڑھنے کا شوق مجھے ورثہ میں ملا ہے ۔ میں بھی معمولی کلرک تھا اس لیے میں بڑی مشکل سے کتابیں خرید پاتا تھا ۔ پھر مطلب کی کتابیں بھی میسر نہیں ہوتی تھیں۔
میری شادی ہوئی اور میرا انتخاب اچھا رہا۔ بیگم میرے مزاج کی نکلی اس لیے میں کچھ نہ کچھ کتابیں خرید لیتا تھا۔ جب میری بیگم نے مجھے میری سالگرہ پر کمپیوٹر گفٹ دیا۔ جس کے لیے وہ کب سے چھپ کر پیسے جمع کر رہی تھی۔ وہ P2 تھا مگر میری عید ہوگئی میں نے کمپیوٹر پر بغیر کسی کی مدد سے ان پیج پر لکھنے کی کوشش کی اور چند دن میں ہی لکھنے لگا۔ کمپیوٹر پر لکھنے میں بہت سہولت تھی اس میں غلطیاں درست اور ایڈ کرنا بہت آسان تھا ۔ اس لیے میں نے پہلے اپنے مقالے کو کمپیوٹر پر لکھا اور دوسری تحریریں لکھنے لگے۔ آج مجھے لکھتے ہوئے ایک زمانے بیت گیا ہے مگر یہ سلسلہ جاری رہا۔ یہاں تک میں نیٹ کا استعمال شروع کیا اور فیس بکس پر اپنی آئی ڈی بنائی۔ اس میں بیگم نے میری رہنمائی کی اور میرا مختلف لوگوں سے رابطہ ہوا اور میں ایک آدھ مضمون لکھا جس کو دوستوں نے پسند کیا مگر کم لکھا زیادہ تر دوسروں کے خیالات پر سوالات اور اعتراض کئے۔ پھر میرے بھائی نے مجھے ایک پی ڈی ایف کتاب ڈی اور اس نے بتایا اس نے کہاں سے لی ہے۔ میں نے دنیا پھر کی یونیورسٹیوں کی لائبریوں کو کھوجا تو مجھے کتابوں کا خزانہ ملا۔ جس میں ایسی نایاب کتابیں تھی جن کا میں نے صرف نام ہی سنا تھا۔ پہلے کتابیں مختلف لوگوں کو دیا گرتا تھا اور مختلف گروپوں میں شیر کرتا تھا۔ پھر اپنا ایک گروپ بنا کر اس میں کتابین لوڈ کیں مگر صرف آٹھ ہزار کے لگ بھگ کتابیں لوٰڈ ہوئیں۔ جب کہ اس سے زیادہ کتابیں میرے پاس پڑی ہوئی ہیں ۔ مگر سب ان کو دیکھنے کے لیے میرے پاس انہیں دیکھنے کے لیے بھی وقت نہیں ہے۔ مجھے قدرت کی طرف سے ایک تحفہ ملا ہے میں نے زندگی میں کوئی کتاب پڑھی یا لی ہو مجھے یاد رہتی ہے۔ جب مجھے کتابیں میسر ہوئیں تو میں نے لکھنا شروع کردیا تھا۔ اب میں نے لیپ ٹاپ لیا ہے اور اس میں لکھتا ہوں۔ اس طرح مجھے لکھنے میں بڑی سہولت ہوگئی ہے۔ ایک جانب پی ڈی ایف کتاب ہوتی ہے اور دوسری جانب لکھتا تھا۔ میں ابتدا میں وکی پیڈیا پر لکھا اور چھ ماہ سے کم وقت میں ڈھائی سو سے کچھ کم مضمون لکھے اور مجھے خاص طور پر میکسکیو سٹی کانفرنس کا پروفارما بھرنے کی دعوت دی۔ حالنکہ میرا پیریڈ بھی نہیں تھا۔ فارم میں نے بھرا تو ہزاروں میں پہلے مرحلے یعنی پانسو میں میرا نام آگیا اور سو افراد کو چننا تھا اس طرح بیس فیصد چانس تھا۔ مگر میرا نام سو میں نہیں آیا۔ تاہم انہوں نے مجھ سے کہا اگر آپ اپنا کرایا لگالیں تو میکسیکو میں آپ کو اسپانسر کریں گے مگر میں معذرت کرلی۔ اگرچہ لوگوں نے بہت کہا امریکہ کا ویزا ملنا بڑی بات ہے لوگ اس کے لیے خوار ہوتے ہیں چلے جاؤ اور اس دعوت سے اردو وکی کے کرتا دھرتاؤں کو تکلیف ہوگئی اور میری راہ میں روڑے اٹکانے لگے تو میں نے لکھنا بند کر دیا ۔ پھر بعد میں کچھ مضامین کہنے پر ڈالے مگر اب میرا دل وکی پر لکھنے کو نہیں چاہتا ہے۔ اگرچہ میرے ڈھائی سو مضامین وکی پر ہیں۔
جب میں نے وکی پر لکھنا بند کیا تو پھر فیس بک پر لکھنا شروع کیا۔ جس کی بہت پزیرائی ہوئی اس لیے یہ سلسلہ جاری رہا۔ یہاں تک میں نے اوستا کا ترجمہ کرنے کی کوشش کی تو کامیاب رہا۔ اس میں بھی جدید ٹیکنالوجی کا کمال ہے۔
اب میں اپنی مختلف کتابوں کو ایڈٹ کر رہا ہوں اس لیے فیس بکس پر لکھ نہیں رہا ہوں۔ لیکن مجھے جو کچھ پہنچانا جاتا ہے اس میں جدید ٹیکنالوجی کا کمال ہے۔ ورنہ میں جن موضوع پر لکھتا ہوں انہیں کوئی میگزین یا اخبار چھاپنے پر راضی نہ ہوتا تھا اور میں گمنام رہتا۔ اگرچہ میرے اکا دکا مضامین مختلف اخباروں اور رسالوں میں چھپ چکے ہیں۔ اب جب کہ میری بیگم کا انتقال ہوچکا ہے اور اب لکھنے کی وجہ سے میری ہتھلیاں اور انگلیاں ٹیڑھی ہوچکی اور مشکل سے کسی کاغذ پر بدخط لکھ سکتا ہوں۔ مگر جدید ٹیکنالوجی کا کمال ہے کہ میں اب بھی لکھ رہا ہوں۔ دل کی تین وین بند ہیں اور آر فیکٹر کی وجہ سے میں درد کی گولیاں کھاتا ہوں مگر میں لکھتا ہوں اور ایک عام شخص اتنی تیزی سے پڑھ نہیں سکتا ہے میں لکھ دیتا ہوں۔ لکھنے زیادہ ایڈٹنگ مشکل اور سب سے زیادہ جو میرا تیل نکل جاتا ہے وہ پروف ریڈنگ۔ کیونکہ میں طائرانہ انداز میں پڑھتا ہوں اور دس دفعہ پڑھنے کے بعد بھی غلطیاں رہ جاتی ہیں۔ میں سارے اپنے کام خود کرتا ہوں۔ میں مختلف بیماریوں میں مبتلا رہا ہوں مگر میں انہیں زندگی ایک حصہ سمجھتا ہوں۔ لحاظہ میں ان سے گھبرایا نہیں ہوں اور میں لکھتا رہوں گا اور ایک دن لکھتے لکھتے میری آنکھیں بند ہوجائے گیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...