فیض،ناصر،مشتاق شہریار بانی اور ظفر چھ اہم ترین شعرا کے ہاں جدید ترغزل کا علامتی نظام اور اسکی مثالیں :
فیض نے پرانی علامتوں کے جنگل سے نئے مفاہیم برآمد کئے قفس چمن محتسب زنداں وغیرہ مردہ علائم کو مزید تھوڑی زندگی بخشی فیض کا لب و لہجہ اور فن نیا نہ تھا اس لئے قابل تقلید بھی نہ ٹھہرا تھا.لہزا نئے لہجہ کے طور ناصر کاظمی کو تسلیم کیا گیا لیکن انکے ہاں آہنگ کی کمی تھی احمد مشتاق شہر یار ظفر اقبال بانی نے اس کمی کو کسی حد تک پورا کیا لیکن مجموعی طور پر اردو غزل بنجر ہوچکی ہے اور یکسانیت کا شکار … اس کی تراکیب اور الفاظ کلیشے بن چکے ہیں حتی کہ
اردو غزل غزل کی علامتیں بھی نقل کی جانے لگی ظفر اقبال جیسے شاعر کا دامن بھی ان تقلیدی دھبوں کی آلائش سے پاک نہیں …
فیض احمد فیض
بقول فیض
درِ قفس پہ اندھیرے کی مہر لگتی ہے
تو فیض دل میں ستارے ابھرتے ہیں
ہم نے جو طرزِفغاں کی ہے قفس میں ایجاد
فیض گلشن میں وہی طرزِ فغاں ٹھہری ہے
محتسب کی خیر اونچا ہے اسی کے فیض سے
رند کا ،ساقی کا، خم مے کا، پیمانے کا نام
ناصر کاظمی نے فیض کی طرح پرانی علامتیں بھی جدت کے ساتھ استعمال کیں مثلا
شہر بے چراغ ،شبِ فراق وغیرہ
اس شہر بے چراغ میں تو جائےگی کہاں
آ اے شبِ فراق تجھے گھر ہی لے چلیں
لیکن ناصر کاظمی نے اردو غزل میں نئے لہجے کا اور کچھ علائم کس اضافہ ضرور کیا.انکی بعض علائم
طناب خیمۂ گل، کنج ،فاختہ دیوار،رستہ وغیرہ ناصر کاظمی کی علائم مشہور ہوئیں .
طنابِ خیمۂ گل تھام ناصر
کوئی آندھی افق سے آرہی ہے
کنج میں بیٹھے ہیں چپ چاپ طیور
برف پگھلے گی تو پر کھولیں گے
فاختہ چپ ہے بڑی دیر سے کیوں
سرو کی شاخ ہلا کر دیکھو
دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی
شور برپا ہے خانۂ دل میں
کوئی دیوار سی گری ہے ابھی
میں ہوں رات کا ایک بجا ہے
خالی رستہ بول رہا ہے
ان اشعار کی ندرت سے کسے انکار ہوسکتا ہے.
احمد مشتاق نے دیوار کی علامت ، ناصر کاظمی سے لے کر دہرائی ہے شہریا کی طرح ٹوٹی کشتی اور دریا کی علامت استعمال کی ہے.
شعر
یہ لوگ ٹوٹی ہوئی کشتیوں میں رہتے ہیں
مرے مکان سے دریا دکھائی دیتا ہے
وہ چھوڑ گیا ہے مجھ کو مشتاق
دریا نے بدل لیا ہے رشتہ
سر اٹھاتے ہی کڑی دھوپ کی یلغار ہوئی
دو قدم بھی کسی دیوار کا سایہ نہ گیا.
دیوار ،دھوپ، یلغار. الفاظ….مشتاق کے ہاں نمایاں ہیں .
منیر نیازی نے بھی کچھ استعارات وعلائم کا استعمال کیا ہے:
اک آسیبِ زر ان مکانوں میں ہے
مکیں اس جگہ کے سفر پر گئے ہیں
تنہا اجاڑ برجوں میںں پھرتا ہے تو منیر
وہ زر افشانیاں ترے رخ کی کدھر گئیں
منیز نیازی کے ہاں خالص علائم کم ہی ملتی ہیں ایک شعر
آزردہ ہے مکان میں خاکِ زمین بھی
چیزوں میں شوقِ نقلِ مکانی دیکھ کر
لیکن انکے اشعار کی اوریجنیلیٹی اور تاثیر میں کوئی شک نہیں.
شہر یار
شہر یار کے ہاں اوریجنل علائم ملتی ہیں جنہیں انہوں نے بار بار استعمال کیا،زہر
کشتی یا ناو…سورج یہ علائم شہر یار کی مخصوص ہیں..
اک بوند زہر کے لئے پھیلا رہے ہو ہاتھ
دیکھو کبھی خود اپنے بدن کو نچوڑ کر
لازوال اشعار.
سبھی کو غم ہے سمندرکے خشک ہونے کا
کہ کھیل ختم ہوا کشتیاں ڈبونے کا
دریا…
کہ آن پہنچا ہے دریا تِرے زوال کا وقت
جو ہم سے لوگ کنارے پہ ٹھہرے جاتے ہیں
سمندر
قصور اس میں سمندر کا تھا نہ پیاس کا تھا
ہماری آنکھ ہی مرکوز ریت پر ہوگی
اتصال جسم کی کیفیت پر شہر یار کا لافانی ہے…
میں اپنے جسم کی سرگوشیوں کو سنتا ہوں
ترے وصال کی ساعت نکلتی جاتی ہے
یہ آگ ہوس کی ہے جھلس دے گی اسے بھی
سورج سے کہو سایۂ دیوار میں آئے
گھر کی تعمیر تصور ہی میں ہوسکتی ہے
اپنے نقشے کےمطابق یہ زمیں کچھ کم ہے
شہر یار کے ہاں علائم کی انفرادیت نمایاں ہے…عیاں را چہ بیاں…
بانی
علائم: پرندہ، شجر ..لمحہ…گھر،ہوا…مکان
اڑ چلا وہ اک جدا خاکہ لیے سر میں اکیلا
صبح کا پہلا پرندہ آسماں بھر میں اکیلا
ہری سنہری خاک اڑانے والا میں
شفق شجر تصویر بنانے والا میں
عتاب تھا کسی لمحے کا اک زمانے پر
کسی کو چین نہ باہر تھا اور نہ گھر میں تھا
ایک لازوال شعر …..گھر یہاں وطن یا ملجا و ماویٰ کے معنی میں آیا ہے….اور ہوا نئے ٹرینڈ کی تخریبی قوت ہے..شاندار شعر..
ڈھلے گی شام جہاں،کچھ نظر نہ آئے گا
پھر اس کے بعد بہت یاد گھر کی آئے گی
تمام شہر کو مسمار کر رہی ہے ہوا
میں دیکھتا ہوں وہ محفوظ کس مکان میں ہے
یہ اوپر والا شعر بہت مشہور ہوا حتی کہ ظفراقبال کو بھی اس نے متاثر کیا ..
ظفر اقبال نے ہوا پر علامتی شعر کہا لیکن یہ یلغار کی ترکیب اوریجنل نہیں جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے .احمد مشتاق پہلے ہی استعمال کرچکے تھے.
ظفر اقبال
کچھ ٹھہرتا نہیں یلغارِ ہوا کے آگے
تھا خزاں کے خس و خاشاک میں شامل میں بھی
ظفر اقبال
ظفر اقبال نے کچھ علامتیں خوبصورتی سے استعمال کی ہیں..دشت ،کینچلی
لازوال شعر..
میں بکھر جاوں گا زنجیر کی کڑیوں کی طرح
اور رہ جائےگی اس دشت میں جھنکار مِری
میں ڈوبتا جزیرہ تھا موجوں کی مار پر
چاروں طرف ہوا کا سمندر سیاہ تھا
علائم اور صوراتی پیکر فِگیوریٹیو ایمیجز مل جل گئے ہیں
ظفر اقبال نے پہلے سے مستعمل علائم کو بھی استعمال کیا..ہوا یلغار وغیرہ اور کچھ نئی بھی…جزیرہ وغیرہ
اڑے نہیں خس و خاشاک ابھی قفس کے ظفر
اگر چہ شہر میں ہنگامۂ ہوا بھی ہوا
کچھ ٹھہرتا نہیں یلغارِ ہوا کے آگے
تھا خزاں کے خس و خاشاک میں شام میں بھی
میں اندر سے کہیں تبدیل ہونا چاہتا تھا
پرانی کینچلی میں ہی نیا ہونا تھا مجھ کو