جدید صحافت اور گلوبل ورلڈ ۔۔۔۔
صحافیوں کی عالمی تنظیم Reporters without borders نے بدلتی دنیا کی صحافت کے حولے سے دو ہزار اٹھارہ کی نئی رپورٹ جاری کردی ہے ۔۔تاہم رپورٹ میں دو ہزار سترہ کا بھی احاطہ کیا گیا ہے ۔۔۔ دنیا کے 180 ممالک کی صحافت کا احاطہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستانی صحافت کے نیوز رومز میں سیلف سنسرشپ میں اضافہ ہوا ہے ۔۔ میڈیا کی آزادی کا جو عالمی منظرنامہ پیش کیا گیا ہے ،اس کے مطابق اگرچہ پاکستانی میڈیا خاصا متحرک اور فعال ہے ،مگر اسے انتہا پسندانہ گروہوں ،مذہبی تنظیموں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے دباو کا سامنا ہے ۔۔۔رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گزشتہ پانچ برس کے مقابلے میں صحافیوں پر حملے نسبتا کم ہوئے ہیں ۔۔ تازہ ترین مثال یہ دی گئی ہے کہ پشتون تحفظ تحریک کے معاملے پر پاکستانی میڈیا میں سیلف سنسرشپ میں اضافہ دیکھا گیا ہے ۔۔۔۔اب یہ ایک علیحدہ سوال ہے کہ میڈیا کی طرف سے یہ سیلف سنسر شپ تھی یا ان میڈیا ہاوسز مالکان کو کسی طاقتور ادارے کی جانب سے یہ کہا گیا تھا کہ اس تحریک کی کوریج نہ کی جائے ۔۔۔۔بقول رپورٹ پاکستان میں صحافیوں کے لئے آزادی اظہار رائے مشکل ہوا ہے ۔۔۔پاکستان گزشتہ برس کی طرح اس برس بھی عالمی سطح پر 139ویں نمبر پر رہا۔ ۔جنوبی ایشیائی ممالک میں میڈیا کو سب سے زیادہ آزادی بھوٹان میں حاصل ہے اور اس برس کے پریس فریڈم انڈکس میں بھوٹان 94 ویں نمبر پر رہا ہے۔ گزشتہ برس کے انڈکس میں بھوٹان 84 ویں نمبر پر تھا۔ایک سو اسّی ممالک کی فہرست میں نیپال عالمی سطح پر 106ویں جب کہ جنوبی ایشیا میں دوسرے نمبر پر رہا۔
نیپال بھی گزشتہ برس کے مقابلے میں چھ درجے نیچے گیا ہے۔ گزشتہ برس نیپال ایک سوویں نمبر پر تھا۔رپورٹ میں افغانستان میں صحافیوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس برس کی درجہ بندی میں افغانستان نے گزشتہ برس کے مقابلے میں دو درجے ترقی کی ہے اور اب عالمی سطح پر یہ ملک 118ویں نمبر پر آ گیا ہے۔ جنوبی ایشیائی ممالک میں افغانستان تیسرے نمبر پر ہے۔اس برس کے انڈکس کے مطابق مالدیپ جنوبی ایشیا میں چوتھے جب کہ عالمی سطح پر 120ویں نمبر پر ہے۔ مالدیپ گزشتہ برس 117ویں نمبر پر رہا تھا۔جنوبی ایشیا میں گزشتہ برس کے مقابلے میں سری لنکا میں میڈیا کی آزادی کی صورت حال میں نمایاں بہتری دیکھی گئی ہے۔ سری لنکا دس درجے بہتری کے بعد اس برس عالمی سطح پر 131ویں نمبر پر آگیا۔بھارت میں صحافیوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا، جس پر رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز نے تشویش کا اظہار کیا۔ ہے۔۔ عالمی درجہ بندی میں بھارت اس برس دو درجے تنزلی کے بعد اب 138ویں نمبر پر ہے۔پاکستان گزشتہ برس کی طرح اس برس بھی عالمی سطح پر 139ویں نمبر پر رہا۔۔جنوبی ایشیائی ممالک میں میڈیا کو سب سے کم آزادی بنگلہ دیش میں حاصل ہے۔ گزشتہ برس کی طرح اس سال بھی عالمی درجہ بندی میں بنگلہ دیش 146ویں نمبر پر رہا۔اس انڈکس میں ناروے، سویڈن اور ہالینڈ عالمی سطح پر بالترتیب پہلے، دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہے۔ چین 176ویں جب کہ شمالی کوریا آخری یعنی 180ویں نمبر پر رہا۔۔ تازہ انڈیکس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ براعظم یورپ میں اب بھی میڈیا کو باقی دنیا کے مقابلے میں سب سے زیادہ آزادی حاصل ہے، اگرچہ گزشتہ برس کے دوران یورپ میں میڈیا کی آزادی کی صورتحال واضح طور پر خراب ہوئی ہے۔دنیا کے ایسے پانچ ممالک جہاں گزشتہ برس صحافت اور میڈیا کی آزادی شدید متاثر ہوئی، ان میں چار یورپی ملک بھی شامل ہیں۔ مالٹا، سلوواکیہ، چیک جمہوریہ اور سربیا ’پریس فریڈم‘ کی عالمی درجہ بندی میں نمایاں طور پر نیچے چلے گئے ہیں۔عالمی ادارے نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا ہے کہ متعدد یورپی ممالک میں دائیں بازو کی عوامیت پسند سیاست کرنے والی جماعتوں کی مقبولیت میں مسلسل اضافے کے باعث یورپ میں میڈیا کی آزادی کو لاحق خطرات میں اضافے کا امکان ہے۔ادارے نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، روس اور چین پر میڈیا مخالف بیانیے کو فروغ دینے اور عملی طور پر صحافتی آزادی پر حملے کرنے کا الزام بھی عائد کیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایشیا پیسیفک خطے میں چین کے ماڈل کی نقل کرتے ہوئے دیگر ایشیائی ممالک سرکاری تحویل میں خبریں اور اطلاعات جاری کر رہے ہیں۔ خاص طور پر ویتنام اور کمبوڈیا میں۔ شمالی ایشیائی جمہوریتیں اپنے آپ کو متبادل ماڈل کے طور پر پیش کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ ادھر افغانستان، بھارت، پاکستان اور فلپائن میں صحافیوں کے خلاف تشدد کی کارروائیوں میں پریشان کُن حد تک اضافہ دیکھا گیا ہے۔پاکستانی صحافت کو اگر غور سے دیکھا جائے تو نظر یہ آرہا ہے کہ طاقتور ادارے پاکستانی صحافت کو چین کی سرکاری حکومتی پالیسی کی طرح چلانا چاہتے ہیں ،اسی وجہ سے کچھ اہم قومی ،فوجی،عدالتی اور مذہبی معاملات پر بلیک آوٹ بیانیہ پروان چڑھ رہا ہے ۔۔۔عالمی مبصرین کے مطابق اس وقت پاکستانی الیکٹرانک میڈیا کی نیوز پالیسی دیکھی جائے تو نظر یہ آرہا ہے کہ ڈان اور جیو نیوز کو چھوڑ کر باقی تمام نیوز چینلز اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔