’’جدید فزکس کا ابتدائی تعارف‘‘ کے موضوع پر مدارسِ دینیہ کے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبہ کے ساتھ ورکشاپ
۔۔۔۔۔۔۔
آج ریجنسی ہوٹل اسلام آباد میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبہ پر مشتمل ایک ایسی کلاس سے ملاقات کا اتفاق ہوا جو دینی مدارس کے طلبہ و طالبات پر مشتمل تھی۔ بایں ہمہ یہ اپنی نوعیت میں ایک منفرد کلاس تھی۔ براردرِ محترم جناب عمارخان ناصر کی زیرنگرانی منعقدہونے والی یہ تقریب دراصل ایک کورس کا حصہ تھی۔ یہ طلبہ غالباً پہلے دیگر شہروں میں بھی ایسی ہی ورکشاپس منعقد کرکے اب اسلام آباد پہنچے تھے۔بھائی عمارخان ناصر سے بالمشافہ ملاقات کا دیرینہ شوق بھی پورا ہوا اور ممتاز لہجے اور منفرد خیالات کے سکالر جناب زاہدمغل کو بھی سننے کا موقع ملا۔
میری ایک مدت سے خواہش تھی کہ دینی مدارس کے طلبہ میں سائنس کا جدید شعور بھرپور طریقے سے اجاگر کیا جائے تو اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ مذہبی علمأ جو دیگر پروفیسرز کی نسبتاً عامۃ الناس تک زیادہ رسائی رکھتے ہیں، قوم کو جلد متوازن فکر کی طرف مائل کرسکتے ہیں۔ میں اکثر کہا کرتاہوں کہ دورِ حاضرعلمائے مذہب کے لیے بہت مشکل زمانہ ہے۔ کیونکہ تاریخ ِ انسانی میں یہ واحد دور ہے جب مذہبی پیشواؤں سے مقابلۃً اُن کے مقتدیوں اور ارادت مندوں کا علم ، زیادہ ہوگیاہے۔ اس سے پہلے یوں ہوتا تھا کہ اگر کسی شہری کے بچے کے پیٹ میں مروڑ بھی اُٹھا ہے تو وہ اپنے علاقہ کے مذہبی پیشوأ کا دروازہ اس اُمید پر کھٹکھٹایا کرتا تھا کہ اُسے ضرور اس مسئلے کا کافی شافی حل مل جائے گا۔ کیونکہ آج سے نصف صدی قبل تک مذہبی پیشواؤں، امام مسجدوں، خطیبوں اور علمائے کرام کا علم ہرلحاظ سے اپنے آس پاس رہنے والے شہریوں کی نسبت زیادہ ہوتا تھا۔ اس وقت مولوی ہونا ایک پڑھا لکھا عہدہ تھا اور مولوی ہی لوگوں کو بتاتا تھا کہ آسمان و زمین کی حقیقت کیا ہے ۔ وہی لوگوں کو بتاتا تھا کہ بیٹی کی شادی کے سلسلے میں مناسب ترین اقدامات کیا ہوسکتے ہیں۔ وہی شہریوں کےعلم میں، اجتماعاتِ جمعہ وعیدین کے مواقع پر باقاعدگی کے ساتھ اضافے کا باعث بنتاتھا اور وہی لوگوں کی کاروباری زندگی پر اثراانداز ہونے والے اُصول، طورطریقے اور حیلے جانتاتھا۔
جبکہ اب ایسا نہیں ہے۔ اب تاریخ میں پہلی بار ایسا ہے کہ ہمارے امام مسجد کا علم اہلِ محلہ میں سب سے کم ہے۔ ہمارے علمائے دین عصری علوم سے تقریباً نابلد ہیں۔ ٹیکنالوجی کا بھرپوراستعمال کرنے کے باوجود مولوی عامۃ الناس کے مقابلے میں کم پڑھالکھاہے۔ چنانچہ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ اب یاتو مولوی کے لیے سابقہ مقام حاصل کرنا ممکن ہی نہیں اور اگر ممکن ہے تواس کی ایک ہی صورت ہے کہ مولوی اپنی علمی سطح کو بلند کرکے وہاں تک لے آئے جہاں پہلے ہوا کرتی تھی۔ یعنی اپنے مقتدیوں اور ارادت مندوں سے ایک قدم آگے۔
آج کی کلاس میرے اس خواب کی جیتی جاگتی تعبیر تھی۔ دینی مدارس کے یہ طلبہ جن سے آج ملاقات ہوئی، باقاعدہ ایک سمسٹر کی شکل میں یہ کورس کررہے ہیں جس کا عنوان ہی ’’جدید سائنس اور فلسفہ سے تعارف ‘‘ کے علاوہ ’’علومِ حاضرہ کی جانب سے مذہب پر اُٹھنے والے سوالات پر تفکر ‘‘تھا۔
پہلے سیشن میں مجھے موقع دیا گیااور میرا عنوان تھا، ’’جدید فزکس کا ابتدائی تعارف‘‘۔ لیکچر کے لیے ایک گھنٹہ مختص تھا جبکہ سوال وجواب کا سیشن پندرہ منٹ پر مشتمل تھا۔میں نے ۱۹۰۵ کے سال سے جدید فزکس کے تعارف کا آغاز کیا اور سٹرنگ تھیوری کی آمد سے پہلے پہلے تک میرا وقت ختم ہوگیا۔اس دوران آئن سٹائن کی اضافیت کے علاوہ کوانٹم فزکس اور اس کی مختلف تشریحات پرمیں نے مختصر بات کی اور جس حدتک ممکن ہوسکا جدید کاسمالوجی کے مختلف تصورات کا تذکرہ بھی ہوا۔
میری سپیچ اور سوال وجواب کے سلسلہ کے بعد جناب زاہد مغل کا لیکچر ہوا۔ زاہد صاحب کا عنوان تھا، ’’جدید سائنس سے فکرِاسلامی کو درپیش چیلنجز‘‘۔ زاہدصاحب نے دلچسپ باتیں کیں، جن کا تذکرہ یا جن پر تبصرہ میں ایک الگ مضمون میں پیش کرنے کا ارادہ رکھتاہوں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“