جدید نظم : تفہیم کا مسئلہ
پاکستان کے گنے چنے ادبی حلقے ایسے بھی ہیں جن میں شعری یا نثری تخلیقات پر باقاعدہ تنقیدی مباحثے ہوتے رہتے ہیں۔ایسی ادبی محافل میں نئے اور پرانے لکھنے والے اپنی اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق تنقیدی آرا کا اظہار کرتے ہیں۔یہ بہت صحت مند ادبی روایت ہے کیوں کہ اس کے توسط سے تنقیدی ذوق کی تربیت کا سامان مہیا ہوتا ہے۔ایسی محفلوں میں بیٹھ کر مجھے یہ اندازہ ہوا کہ احباب شعری اصناف خصوصاً جدید نظم پر دل کھول کر گفتگو کرتے ہیں اور ایسے ایسے نادر نکتے نکال لاتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے،مثلاً جدید نظم پر بات کرتے ہوئے تقریباً ہر دوسرا شخص یہی کہتے سنا گیا ہے کہ’’ اس میں ابہام ضرور ہونا چاہیے‘‘۔۔۔’’ علامت کا مفہوم واضح نہ ہو تو احسن ہے‘‘۔ایسی باتیں سننے کے بعد یہی گمان گزرتا ہے کہ ابہام ایسی واحد کلید ہے جو جدید نظم کو’’ جدید‘‘ بناتی ہے اور اسی ابہامی کلید کی مدد سے جدید نظم کے معنی کھولے جاسکتے ہیں۔اگر خدا نخواستہ کوئی نظم اتفاق سے اپنا مفہوم قاری تک پہنچانے میں کامیاب ہوجائے تو اُسے جدید کہنے میں ذرا تردد ہوتا ہے۔ جدید نظم جتنی زیادہ مبہم ہو گی وہ اُتنی زیادہ جدید سمجھی جائے گی۔
جدید نظم سے یہ تقاضے رکھنا کہ وہ ایسی ہو یا ویسی ہو بجائے خود ایک مضحکہ خیز عمل ہے۔ ادبی حلقوں میں پیش ہونے والی تنقیدی بحثیں سن کر یوں محسوس ہونے لگتا ہے جیسے ہم تخلیقی اصناف کو ڈکٹیشن((Dictation دے رہے ہیں کہ اُن میں ابہام ہو،پیچیدہ اُسلوبِ نگارش ہو، تجریدی خیالات و علامات کا مرقع ہو اور افکار و خیالات میں بظاہر کوئی ربط نہ ہو ۔گویا ہر تخلیق ہونے والی نظم کو ہماری طے کردہ شرائط پر پورا اترنا ہو گا ورنہ وہ اقلیم شاعری سے خارج سمجھی جائے گی۔جدید نظم سے کوئی انٹ شنٹ تقاضا کرنے سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ ہم جدید نظم کے تقاضوں کو اس صنف کے ہئیتی اور معنوی ارتقا کے تناظر میں سمجھنے کی معروضی کوشش کریں۔جدید نظم بھی باقی تخلیقی اصناف کی طرح ایک آزادانہ تخلیقی تجربے کی پیداوار ہے جس میں شاعر کی فکر،جذبہ،تخیل اور احساسِ جمال اُسلوبیاتی وحدت میں ڈھل کر تشکیلی مراحل طے کرتا ہے۔ جدید نظم سے ہم جس ابہام کا تقاضا کر رہے ہیں آخر ہم اُس ابہام سے کون سا اسم اعظم سیکھنا چاہتے ہیں! ابہام تو ویسے بھی ادب کی ایک عمومی صفت ہے جو ہر حال میں بذاتِ خود فعال رہتی ہے پھر جدید نظم میں الگ سے اس کا شد و مد سے تقاضا کرنا چہ معنی دارد؟ جدید نظم پر بات کرنے والے عموماً علامت کو بڑا اہم خیال کرتے ہیں اور یہ اسی اہمیت کا شاخسانہ ہے کہ بیشتر نظم نگار بضد ہوتے ہیں کہ اُن کی نظم میں شامل ہر لفظ کو علامت سمجھا جائے۔ اس علامت پرستی نے جدید نظم کی تنقید کو یک رُخا بنا دیا ہے۔اب قاری جدید نظم کی قرات کے دوران ایک ماہر شکاری کی طرح علامت کو نشان زد کرنے کی فکر میںغلطاں و پیچاں رہتا ہے اور جیسے ہی اُسے کوئی علامت نظر آ تی ہے یا اُسے یہ گمان گزرتا ہے کہ یہ علامت ہو سکتی ہے توپھر وہ اسی علامت نما لفظ کے گرد اپنی تنقید کا جالا بُننا شروع کر دیتاہے،اور نظم کی پہلی قرات کے بعد ہی اپنا تنقیدی معجون حسبِ توفیق موجود احباب میں تقسیم کر ڈالتا ہے۔
تخلیقی فن پاروں میں علامت ہوا میں معلق نہیں ہوتی بلکہ ایک خاص سیاق و سباق میں پیدا ہوتی ہے اور غیر محسوس طریقے پر اپنا معنوی پھیلائو
اختیار کرتی چلی جاتی ہے۔جدید نظم کا کینڈا بھی خود مکتفی نہیں بلکہ قدیم شعری روایت کی توسیع ہے اور اس میں علامت کے زور پر معانی کی تلاش کا عمل بھی اپنی روایت سے پوری طرح جُڑا ہوا ہے۔محض علامت تو کوئی شئے نہیں ہے اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی خیال بھی وابستہ ہوتا ہے علامت اور خیال کا باہمی اشتراک و انسلاک ہی در حقیقت نو بہ نو معنوی کرشمے دکھاتا ہے۔لیکن اس کے لیے اولین شرط یہ ہے کہ وہ کسی خیال پر مبنی ہو۔ تخلیقی ذہن کا کمال ہے کہ وہ تجریدی تصورات بھی قائم کر سکتا ہے لہٰذا جدید نظم میں تجریدات کا در آنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ ہر بڑی نظم تجرید سے معنوی حسن پیدا کرتی ہے۔ جدید سماجی پیٹرن خاصا پیچیدہ ہو چکا ہے لیکن ابھی یہ اتنا بھی پیچیدہ نہیں ہوا کہ خیال کی قوت کوبھلا دے۔جدیدنظم کے تمام تر فنی و فکری زاویے خیال سے برآمد ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ میں جدید نظم میںصرف خیال کی بات کر رہا ہوں نہ کہ ’’ مربوط خیال‘‘ کی۔اگر آج کی جدید نظم خیال سے عاری ہے اور ہمارا جدید نقاد جدید نظموں میں اپنے ہی خیالات کی پیکنگ کر رہا ہو تو اس تنقیدی روش سے ممکن ہے کہ جدید تنقیدی دبستانوں کو کوئی فائدہ حاصل ہو لیکن جدید نظم کے حق میں یہ سم قاتل ہے۔
میری یہ ساری گفتگو ادبی حلقوں میں ہونے والی تنقید سے متعلق ہے اور اس ضمن میں اپنا ایک اور مشاہدہ بھی داخل دفتر کرنا چاہوں گا۔ میں نے دیکھا ہے کہ جب کوئی شاعر اپنی نظم (جو کہ ہمیشہ جدید ہی ہوتی ہے) تنقید کے لیے پیش کرتا ہے تو اُس نظم پر ابتدا میں جو شخص بات کر دے پھر محفل میں موجود باقی حضرات اُسی نکتے کو بنیاد بنا کر نظم کے لتے لینا شروع کر دیتے ہیں۔متن کی ایسی درگت شاید ہی کسی اور صنف میں بنتی ہو۔ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ اسی طرح کی ایک ادبی تنقیدی محفل میں کسی نوجوان شاعر نے اپنی کچھ نظمیں تنقید کے لیے پیش کیں۔پہلے تو نظموں پر عمومی بات چیت ہوتی رہی پھر ایک زیادہ پڑھے لکھے شاعر نے اچانک یہ اعلان کر دیا کہ اس نوجوان کی فلاں فلاں نظموں میں ہم جنسیت کے عناصر پائے جاتے ہیں۔بس پھر کیا تھا اس کے بعد تمام گفتگو گے ازم) (Gayism کے گرد گھومنا شروع ہوئی تو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔شاعر بے چارہ حیران پریشان تھا کہ جو بات میرے فرشتوں کو بھی نہیں پتا تھی وہ ان نامی نقادوں نے اُس متن سے باہر نکال لی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ جدید ادبی افکار و نظریات نے متن کو تو آزاد کیا ہے لیکن جو آزادی نقاد کو دی ہے اُس کی وجہ سے ہمارے ہاں تنقید کا فطری ارتقا بُری طرح متا ثر ہو رہا ہے۔ہماری مغرب پرستی نے جہاں سماج کے باقی شعبوں میںسطحیت پیدا کی ہے وہاں ہمارے تنقیدی معیارات بھی جدید مغربی نظریات کی چربہ سازی کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں۔ ادب کے تنقیدی حلقے اس سطحیت سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔