جب آدمی کو گھیرنے آتا ہے مولوی
کس کس طرح سے اس کو لبھاتا ہے مولوی
جنت بھی دلفریب دکھاتا ہے مولوی
دوزخ کی آگ سے بھی ڈراتا ہے مولوی
خوفِ خدا بھی یاد دلاتا ہے مولوی
ترکش کے تیر سارے چلاتا ہے مولوی
ہے مولوی مرید یہاں، مولوی ہی پیر
ہے مولوی گدا یہاں، اور مولوی امیر
مسجد کا ہے امام بھی، واعظ بھی بے نظیر
چھوٹا سا طالبعلم ہے، عالم بھی ہے کبیر
آپس میں قوم کو بھی لڑاتا ہے مولوی
خطبے سے اپنے آگ لگاتا ہے مولوی
ہے مولوی کے دم سے ہر اک باغ پر نکھار
زینت ہے یہ نکاح کی، میلاد کی بہار
ہوجائے گر طلاق، حلالے کو ہے تیار
ہے مولوی رقیب یہاں، مولوی ہی یار
حي علی الصلواۃ سناتا ہے مولوی
مسجد میں پانچ وقت بلاتا ہے مولوی
ہے مولوی حکیم بھی، قطب الزماں بھی ہے
کہلاتا ڈاکٹر بھی ہے، غوث جہاں بھی ہے
مسند نشین بیٹھا سرِ آستاں بھی ہے
ہے شیخ با صفا تو یہ شعلہ بیاں بھی ہے
فتوے بھی جنگ و جدل کے لاتا ہے مولوی
بربادیوں کے راگ بھی گاتا ہے مولوی
ہے مولوی ہی مقتدی، اور مولوی امام
ہے مولوی ہی خاص بھی، اور مولوی ہی عام
ہے مولوی ہی سنگترہ، اور مولوی ہی آم
ہم پر ہیں یہ عنایتیں، ہم پر ہے یہ انعام
ہر اک گلی میں آدمی پاتا ہے مولوی
اوبر، کریم بھی تو چلاتا ہے مولوی
گھر پر کلامِ پاک پڑھاتا ہے مولوی
مسجد میں بھی قرآن سکھاتا ہے مولوی
پھر پیار سے قریب بلاتا ہے مولوی
بچوں کو گود میں بھی بٹھاتا ہے مولوی
ان سے درندگی بھی دکھاتا ہے مولوی
اپنے ہوس کی آگ بجھاتا ہے مولوی
دھرنے میں بیٹھتا ہے بچھا کر یہ جب دری
کیا خوب ڈانٹتا ہے سنا کر کھری کھری
کھاتا ہے سبزیاں بھی پکا کر ہری ہری
کہتا ہے "جا بے دلّے، تیری پین دی سری"
کیسی زبان گندی چلاتا ہے مولوی
کیا کیا مغلظات سناتا ہے مولوی
منزل نئی، پرانی کے اوپر بنائیے
دیوار ایک اٹھائیے، اک در بنائیے
کہتا ہے چندہ دیجئے، منبر بنائیے
"جنت میں اپنے واسطے اک گھر بنائیے"
کہتا ہوں سچ، بہت ہی ستاتا ہے مولوی
مجھ کو تو ایک آنکھ نہ بھاتا ہے مولوی۔