(Last Updated On: )
جو رنگ بھر دو اسی رنگ میں نظر آئے
یہ زندگی نہ ہوئی کانچ کا گلاس ہوا
شاہد کبیر
یکم مئی ،اردو کی ممتاز ادبی شخصیت، ، جدید لب ولہجہ کے مشہور شاعر” جناب شاہد کبیر صاحب “ کا یومِ ولادت
نام_شاہد کبیر
تخلص _شاہد
شاہد کبیر ناگپور شہر میں پیدا ہوئے ۔۔۔۔ سنٹرل گورنمنٹ آف انڈیا کے فوڈ اینڈ مارکیٹنگ محکمہ سے منسلک رہے۔۔۔
ودربھ کے اولین جدید شاعروں میں ہی نہیں بلکہ ملک کے ممتاز غزل گو شاعروں میں بھی انکا نام خصوصی اہمیت کا حامل ہے اور یہ اختصاص اُنہیں محض لب و لہجہ کی ندرت نمائی کے سبب نصیب ہوتا ہے۔۔۔
وہ ۱۹۵۲ءسے ہی نثر نگاری کرتے تھے . انکے کئی مضامین.افسانے .منی افسانے اور غزلیں ہندوستان کے موقر جرائد و اخبارات میں شائع ہوتے رہے ہیں ١٩٥٧میں ڈرامہ مرزا غالب کے اسکرین رائٹر رہے . جسے راشٹرپتی بھون دہلی میں پیش کیا گیا ۔۔۔۔۔ انھوں نے ہندوستانی فلموں کے لئے گیت بھی قلمبند کئے ۔.اُنکی غزل 2019میں ریلیز ہوئی hollywood فلم The Gandhi Murder کا بھی حصّہ بنی۔۔ مگر سبجیکٹ controvercial ہونے کے سبب فلم انڈیا میں ریلیز نہ ہو سکی۔۔انہوں نےکئی یادگار غزلیں کہیں۔۔۔جنہیں ہندوستان اور پاکستان کے معروف فنکاروں نے اپنی آواز سے عوام تک پہنچایا. ان فنکاروں میں سب سے عظیم ترین نام لتا منگیشکر اور جگجیت سنگھ کا ہے_ کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ شاہدؔ کبیر نے حمد اور نعت میں بھی طبع آزمائی کی ہے .
۔’’ چاروں اور‘‘ جدید غزلوں کا انکا مرتب کر دہ مجموعہ. مراٹھواڑہ یونیورسٹی کے گریجویشن کورس اور انکی غزلیں ناگپور یونیورسٹی گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کورس کے لئے شاملِ نصاب ہے۔۔۔ ان کی حیات ہی میں انکی کئی کتابیں اور مجموعہ کلام شائع ہوچکے تھے ۔۔انہوں نےاپنے ابتدائی تخلیقی دور میں '' کچی دیواریں '' کے نام سے ایک ناول لکھا جو١٩٥٦میں شائع ہوا_اسی دوران انہوں نے کئ کامیاب افسانے لکھے۔۔ اپنے دوسرے ناول " فاصلے" کا کتابت شدہ مسودہ انہوں نے خود واپس بلوا لیا کیونکہ وہ اسوقت تک ناول نگاری چھوڑ کر شاعری کرنے کا فیصلہ کر چکے تھے۔۔انکا پہلا مجموعہ کلام"مٹّی کا مکان" ۱۹۷۹ میں اور دوسرا مجموعہ کلام"پہچان"۲۰۰۲ میں شائع ہوا۔۔جس پر مہاراشٹر اُردو اکیڈمی نے اُنہیں انعام سے بھی نوازا۔۔تیسرا مجموعہ کلام "اُسکی گلی" ۲۰۱۴ میں شائع ہوا۔۔
بقول پروفیسر عشرت ظفر ’’ میں شاہدؔ کبیر کی غزل کو مملکتِ شعرو سخن میں ایک توانا آواز مانتا ہوں .حالانکہ وہ خود یہ کہتے ہیں
*کسی امیر کو کوئی فقیر کیا دے گا *
غزل کی صنف کو شاہدؔ کبیر کیا دے گا
چند اشعار
سکوتِ آب سے جب دل مرا گھبرانے لگتا ہے
تو سطحِ آب پر کنکر گرا کر دیکھ لیتا ہوں
آئینہ پگھل چکا ہے شاہد
ساکت ہُوں میں عکس بہہ رہا ہے
حقیقتوں کا سبھی کو پتہ نہیں ہوتا
کوئی کسی سے بچھڑ کر جدا نہیں ہوتا
کچھ تو ہو رات کی سرحد میں اترنے کی سزا
گرم سورج کو سمندر میں ڈبویا جائے
کھول کر زلف ذرا راہ کو مہکا دینا
کھو نہ جاؤں میں کہیں بھیڑ میں رستہ دینا
چاند نکلے گا پہن لیجئے اُجلے ملبوس
رنگ اس رات میں ہونٹوں پہ بھی ہلکا دینا
کچھ تو اپنی بھی طبیعت کا پتہ دینا تھا
اس نے جب ہاتھ ملایا تھا دبا دینا تھا
کوئی آواز تو اس کے لئے سم سم ہوگی
مختلف لہجے میں اس در پہ صدا دینا تھا
آج اس کے بھی وجود کا پیکر اتر گیا
سہمے بدن میں پیاس کا خنجر اُتر گیا
لہریں مچل کے اپنے ہی اندر سمٹ گئیں
کشتی کے ڈوبتے ہی سمندر اُتر گیا
کچھ دیر کالی رات کے پہلو میں لیٹ کے
لایا ہُوں اپنے ہاتھوں میں جُگنو سمیٹ کے
اس سانولے سے جسم کو دیکھا ہی تھا کہ بس
گھلنے لگے زباں پہ مزے چاکلیٹ کے
رقص جنوں پہ کوئی تعجب نہ شور ہے
دیوانہ شہر میں ہے کہ جنگل میں مور ہے
آ گیا مجھ کو بھی ہاتھوں کی لکیریں پڑھنا
جونہی آنچل سے جھجھکتی وہ ہتھیلی نکلی
میرے البم سے جو غائب تھی مری تصویریں
چور پکڑا تو وہ باجی کی سہیلی نکلی
۲۰۰۱ءمیں شاہدؔ کبیر کو حجّ بیت اللہ کی سعادت نصیب ہوئی.اور فریضۂ حج کے ٹھیک چالیس دن بعد یعنی ۱۱ مئی ۲۰۰۱ بروز جمعہ دوپہردنیائے آب و گل سے رخصت ہوئے . سچ تو یہ ہے کہ شاہدؔ کبیر نئی غزل کی غیر فانی آواز ہے .
اس درجہ بھی ہو جاؤں گا بیگانہ جہاں سے
ملنا تو رہا دور دکھائی نہیں دوں گا
اب لوگ ترس جائیں گے آواز کو میری
گونجوں گا فضاؤں میں سنائی نہیں دوں گا
ریت کی لہروں سے دریا کی روانی مانگے
میں وہ پیاسا ہوں جو صحراؤں سے پانی مانگے
بدل سکے جو ترے خون کی سفیدی کو
تجھے وہ رنگ مرا قتل دے نہیں سکتا
شاہد صدا لگانے سے پہلے یہ سوچ لو
صدیوں کے بعد بھی تمہیں دہرائے گی صدا
وہ ہنس رہا تھا دور کھڑا اور چند لوگ
لے جا رہے تھے اسکو کفن میں لپیٹ کے
پیشکش۔۔۔ڈاکٹر الماس کبیر جاوید
ممبئی