پاکستان کا تعلیمی نظام کئی متوازی نظاموں پر مشتمل ہے۔ امیر غریب اور طبقاتی فرق کے باعث کسی امیر خاندان کا بچہ ایک اچھے اور معیاری سکول میں پڑھے گا مگر اُسی کے گھر میں کام کرنے والی کوئی غریب عورت جو سارا دن اُنکے اور دوسرے کے گھروں میں کام کرتیں ہیں، اُنکے بچے سرکاری سکولوں یا غیر معیاری پرائیویٹ اداروں میں پڑھتے ہیں۔
تعلیمی نظام میں یہ فرق اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ طبقاتی نظام میں موجودہ فرق آئندہ نسلوں تک بھی ختم نہیں ہو سکے گا بلکہ مزید بڑھے۔ اسکا حل کیا ہے؟ اسکا حل جدید وسائل کے استعمال سے خود کو جدید دنیا اور اسکے علوم سے متعارف کرانا ہے۔ ہمیں اپنے بچوں اور نسلوں میں یہ شعور بیدار کرنا ہو گا کہ وہ انٹرنیٹ اور موبائل فونز کا بھرپور استعمال کر کے خود کو جہالت کے اندھیروں سے نکالنے کی جتنی کوشش کر سکتے ہیں کریں۔ ورنہ یہ طبقاتی فرق اُنکی آنے والی نسلیں بھی بھگتیں گی۔
اب میں آپکو ایک مزے کی بات بتاتا ہوں۔ یورپ میں بہت سے ممالک شوسلسٹ ہیں۔ خاص کر سکینڈینویا کے ممالک جن میں سویڈن، ڈنمارک، ناروے وغیرہ آتے ہیں۔ ڈنمارک میں پی ایچ دڈی کے دوران میں نے دیکھا کہ وہاں کے شہریوں کے لیے بنیادی تعلیم سے لیکر یونیورسٹی لیول کی تعلیم مفت ہے۔ یہاں تک کہ یونیورسٹی میں پڑھنے والے طلبا (ڈینش یا یورپین طلبا) کو حکومت ہر ماہ رہائش اور کھانے پینے کے لئے تقریباً 900 ڈالر اضافی دیتی ہے جو سٹوڈنٹ لون یعنی قرضہ ہوتا ہے۔ تعلیم مکمل کرنے کے ایک سال بعد وہ اسے آسان شرائط پر 7 سے 15 سال میں واپس کر سکتے ہیں۔
ڈنمارک کے معاشرے کو دنیا کا سب سے خوش معاشرہ سمجھا جاتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ڈنمارک یا اسکے دیگر ہمسایہ ممالک اس قدر مثبت سوچ کیسے رکھتے ہیں؟
اسکا جواب مجھے تب ملا جب میں اپنے ایک دوست کیساتھ کوپن ہیگن کے ایک سکول میں بچوں کو روشنی اور آپٹیکل فائبر پر ہماری موجودہ تحقیق کے بارے میں بتانے گیا۔
سکول کی پرنسپل نے باقاعدہ تمام بچوں کو پہلے سے ہی آگاہ کر دیا تھا کہ اُنہیں اگر جدید سائنس میں دلچسپی ہے تو وہ اس لیکچر میں سکول کے اوقات کے بعد شرکت کر سکتے ہیں۔ میری حیرت کی انتہا تب نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ 200 سے زائد کے لیکچر ہال میں آدھے سے زیادہ ہال طلباء سے بھرا ہوا تھا جو اپنی خوشی اور تجسس سے یہ لیکچر سننے آئے تھے۔ نہ صرف یہ بلکہ آٹھویں اور نویں جماعت کے یہ طلباء بنیادی سائنس اور فزکس پر دسترس رکھتے تھے اور لیکچر کے بعد انتہائی دلچسپ سوالات کر رہے تھے۔ بعض نے تو اپنے مستقبل کی تحقیق کے ارادے تک بتائے۔
یہ بات نہایت خوش آئند اور سمجھنے کی تھی کہ ڈنمارک کی سوسائٹی میں جدید تعلیم کے حوالے سے کس قدر زور دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ڈنمارک ایک چھوٹا ملک ہونے کے باوجود پاکستان سے معیشت میں آگے ہے۔ انکی معیشت کا دارومدار ساینس و ٹیکنالوجی پر ہے۔پچاس لاکھ کی آبادی اور محدود وسائل کے اس ملک کا جی ڈی پی پاکستان جیسے بڑے اور 22 کروڑ کی آبادی کے ملک سے تقریباً 90 ارب ڈالر زیادہ ہے۔
جدید دنیا میں بنیادی تعلیم میں بہتر سائنس اس بات کی ضامن ہے کہ آنے والی پود ایک مثبت اور منطقی سوچ کی حامل ہو گی جو تعصبات سے بالاتر ہو کر اپنے ملک اور معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے سوچے گی۔
اس سلسلے میں تعلیمی نظام میں فرق کے خاتمے اور تعلیمی نظام کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہی وہ واحد حل ہے جو پاکستان کو نئے دنیا کی صفوں میں شامل کر سکتا ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...