دنیا میں پہلے غلاموں کا رواج تھا ۔ عموماً غلام جنگ میں قید کئے ہوئے لوگوں کو غلام بنایا جاتا تھے یا اغوا کرکے انہیں غلام بنا کر بیچ دیا جاتا تھا ۔ اگرچہ غلامی کے ادارے کا گزشتہ صدی میں دنیا سے بظاہر خاتمہ کردیا گیا ۔ مگر اب بھی دنیا اور خود ہمارے ملک یہ ادارہ کسی نہ کسی صورت کام کر رہا ہے ۔ خود ہمارے ملک میں قانونی غلامی ممنوع تھی مگر پھر بھی اس کا رواج طویل عرصہ تک رہا ۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے جس میں اغواہ شدہ لوگوں کی باقیدہ غلاموں کی خرید و فروخت ہوتی تھی اور ان غلاموں سے دور دراز علاقوں میں سڑکوں اور بندوں کی تعمیر میں ان سے مزدروں کی حثیت سے کام لیا جاتا تھا ۔ مگر اب اس کا رواج تقریباً ختم ہوگیا ہے
سندھ میں غلامی جو صورت ملتی ہے وہ کچھ یوں ہے کہ اس میں پورے کے پورے خاندان غلام ہوتے ہیں اور ان کا تعلق عموماً نچلی ذاتوں سے ہوتا ہے ۔ ان خاندانوں کے غلام بنے کی وجوہ معتدد ہیں ۔ جس میں خاندان کے سربراہ کو پیسے کی ضرورت جو کہ عموماً سود خوروں کے چغل میں پھنس جانے سے قرض کا وبال جان بن جانا اہم ہے اور وہ کسی ایجنٹ سے رابطہ کرتا ہے ۔ جو انہیں قرض کی ادائیگی کے بدلے فروخت کر دیتا ہے ۔ یہ فروخت خاندان سمیت ہوتی ہے ۔ اس کی بنیادی وجوہات میں یہ پورا خاندان مزدور یا محنت کش ہوتا اور تنہا کسی فرد کی فروخت کی صورت میں فرار ہونے کا خطرہ ہوتا ہے ۔ ٖہر خاندان فروخت کی مختلف شرائط ہوتی ہیں ۔ یہ قرض کی رقم اور خاندان کے افراد کی تعداد اور ان عمر صحت کے حساب سے ہوتا ہے ۔ کم رقم یا زیادہ افراد کی یا مدت کے لحاظ سے شرائط ہوتی ہیں اور زیادہ رقم کی صورت میں دائمی غلامی ہوتی ہے ۔ جس کا رواج بہت کم یا ختم ہوگیا ہے ۔ کیوں ایسی صورت میں خطرہ زیادہ ہوتا ہے ۔ ان غلاموں سے زیادہ تر دور افادہ زمینوں اور علاقوں میں کام لیا جاتا ہے جہاں کوئی دوسرا کام کرنے پر راضی نہیں ہوتا ہے ، اگر ہوتا ہے تو مزدوری زیادہ مانگتا ہے ۔ یہ زمینوں پر ہی رہتے ہیں ، انہیں صرف خوراک اور سال میں ایک جوڑا کپڑوں کا ملتا ہے ۔ اس طرح ان کے مالک کو سستی مزوری مل جاتی ہے ۔ البتہ اب قرض کی دستاویزات بھی ان سے لکھ والی جاتی ہیں ۔ کیوں ہیومن رائٹ مدد سے بہت سے خاندانوں نے زمینداروں کے چغل سے رہائی حاصل کی ہے ۔ کام اگر مدت سے پہلے ختم ہوجائے تو انہیں کسی اور کے ہاتھ فروخت کردیتا ہے ۔
غلامی کی اس سے ملتی جلتی صورت پنجاب میں بھی پائی جاتی ہے ۔ لیکن فرق یہ ہے یہ لوگ زیادہ تر اینٹوں کے بھٹہ میں کام کرتے ہیں ۔ اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے والی بھی عموماً نچلی ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔ یہ کام سخت محنت طلب پرمشقت لمبا دورانیا ہونے کی وجہ سے اسے عام مزدور نہیں کرتے ہیں یا اس کے لیے زیادہ مزدوری مانگتے ہیں ۔ اس کے علاوہ بھٹے عموما شہروں سے دور ہوتے ہیں ۔ پہلے ان کی باقیدہ خرید و فرخت ہوتی تھی ، مگر اب ان خاندانوں کو اب مستقل غلام نہیں بنایا جاتا ہے بلکہ کچھ عرصہ کے لیے ان کو یعنی سال دو سال کے لیے ان سے معاہدہ کیا جاتا ہے اور خاندان کے سربراہ کو ایک بڑی رقم اٰیڈوانس دی جاتی ہے ۔ مگر اس کا بیشتر حصہ ایجنٹ لے جاتا ہے ۔ اور اس کے بدلے میں خاندان اینٹوں کے بھٹے پر کام کرتے ہیں ۔ ایڈوانس ادائیگی ہونے وجہ سے ان کی مزدوری کم ہی ہوتی ہے ۔
پنجاب میں بچوں کی غلامی ایک کی شکل پائی جاتی ہے ۔ اس میں مختلف زی حثیت افراد گھریلو امور کے لیے بچے ایجنٹ کے ذریعہ حاصل کئے جاتے ہیں ۔ یہ بچے عموماً نچلی ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے ماں باپ عموماً خانہ بدوش ہوتے یا کسی اور شہر میں رہنے والے غریب اور پسماندہ افراد ہوتے ہیں یا نشے کے عادی افراد ہوتے ہیں جو خود کوئی کام نہیں کرتے ۔ ایجنٹ ان بچوں کو حاصل کرنے کے لیے ان کے والدین سے رابطہ کرتا ہے اور انہیں کچھ رقم ایڈوانس دیتا ہے اور کچھ ماہانہ رقم کے سبز باغ دیکھاتا ہے ۔ ایڈوانس کا بشتر حصہ ایجنٹ خود لے جاتا ہے ۔ یہ کمسن بچے گھر میں کام کرتے ہیں ۔ اس سب سے بڑا پہلو یہ ہے ان بچوں پر تشدد ، جس میں جسمانی اور جینسی تشدد شامل ہے کیا جاتا ہے ۔ ان بچوں کو بہت کم والدین سے ملنے کی دیا جاتا ہے اور ان کے والدین کو بھی رقم ملتی رہتی ہے تو مطمعین رہتے ہیں اور بچوں پر تشدد کو سنجیدیگی سے نہیں لیتے ہیں ۔ ایسے واقعات بھی پیش آئے جس میں بچے تشدد سے جان سے بھی گئے ۔ مگر ان کے خلاف مظبوط کیس نہیں بنپاتا ہے ۔ کیوں کہ بچے کے والدین کچھ رقم لے کر خاموش ہوجاتے ہیں اور کورٹ میں راضی نامہ داخل کروا دیتے ہیں ۔ اس کی مثال اسلام آباد کے اس کیس کی ہے جس میں ایک بچی پر تشدد میں ایک جج اور ان کی اہلیہ کے خلاف بنا تھا ۔ اس میں بھی سپریم کورٹ کے حکم اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی کوشش کے باوجود کوئی خاص کاروائی نہیں کرسکی ۔ کیوں بچی کے والدین نے پیسے لے کر راضی نامہ کرلیا ۔
سندھ اور بلوچستان ساحلی علاقوں میں گھروں میں کام کرنے والے عموما کام کرنے والے شیدی یا حبشی النسل ہیں ۔ یہ پہلے غلام تھے مگر یہ اب آزاد ہیں ۔ تاہم ان کی اچھی خاصی تعداد اب بھی اپنے قدیم مالکوں کے ساتھ منسلک ہے تاہم انہیں غلام یا ملازم نہیں کہا جاسکتا ہے ۔ ان میں عورتیں اور بچے گھر کے فرد کی طرح رہتے اور بہت کم معاوضہ اور کھانے پر مگر مطعین رہتے ہیں ۔ یہ مالکوں کے بھی وفادر رہے ہیں ۔ کیوں کہ مالک بھی ان کا خیال رکھتے ہیں ۔ تاہم آہستہ آہستہ اس کا رواج کم ہوتا جارہا ہے ۔
اس وقت بھی ہمارے ملک میں انسانوں کی خرید و فروخت کی کئی صورتیں ہیں ۔ مثلاً دور دراز یا کسی صنعتی علاقوں میں کسی خاص کام کے لیے کاریگر نہیں ملتے ہیں اور لوگ وہاں جانے پر راضی بھی نہیں ہوتے ہیں یا کسی خاص کام کے کاریگروں کی کمی ہوتی ہے تو ٹھیکہ دار یا کام لینے کاریگروں کو بھاری رقم دیتے ہیں ۔ اب یہ رقم ایڈوانس دی جاتی ہے اور کاریگروں کے معاوضہ میں سے ہر ماہ کچھ رقم کاٹ لی جاتی ہے ۔ مگر پہلے یہ رقم کاٹی نہیں جاتی تھی ۔ بلکہ اس کاریگر کی قیمت سمجھی جاتی تھی ۔ کاریگر کو معاوضہ تو ملتا تھا مگر اس معاوضہ میں اس رقم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا ۔ کاریگر مالک کے پاس کام کرنے پر مجبور ہوتا ۔ کام چھوڑنے کی صورت میں کاریگر کو دی گئی رقم کی ادائیگی کرنی ہوتی تھی ۔ اس کاریگر کو مالک سے کو کوئی دوسرا شخص رقم ادا کرکے خرید سکتا تھا ۔ اس طرح اس کاریگر کو نئے مالک کے پاس کام کرتا تھا ۔ یعنی یہ بھی خرید فروخت کی ایک شکل ہوتی تھی ۔ ایسا بھی ہوتا تھا کہ کسی اچھے کاریگر دوسرا شخص زیادہ رقم دے کر لے جاتا تھا ۔ یہ صورت زیادہ تر صنعتی کاموں میں ہوتی تھی ، جہاں کاریگروں کی کمی ہوتی تھی اور مالک کو ڈر ہوتا تھا کہ کوئی دوسرا شخص اس کاریگر کو لے جائے گا ۔ یہ طریقہ کار غلامی کے قریب اس لیے ہے کہ اس میں کاریگر مجبور ہوتا ہے کہ مالک کے پاس کام کرے ۔
غلامی کی کچھ یہ صورتیں ہیں جو کہ ہمارے ملک میں پائی جاتی ہیں ۔ اس میں ایک اہم صورت یعنی طوائف کی خرید یا فروخت ذکر نہیں ہے ۔ کیوں کہ یہ طوالت کیس وجہ سے اس کا کسی اور موقع پر ذکر کیا جائے گا ۔