مداری ڈگڈگی بجاتا تھا تاکہ پاس سے گزرتے ہوئے متوجہ ہوں۔ پھر وہ بکرے کو پائے پر کھڑا کرتا، یا بندر کے طے شدہ کرتب دکھاتا، یا منہ سے آگ نکالتا، آگ والے چھلے میں سے بھی گزر کر دکھاتا، دانتوں سے سائیکل اُٹھا وغیرہ۔ مداری پنجاب میں ایک ذات بھی تھی۔
غلام باغ کے مصنف نے جس شہوت رُبا دوا (ایفروڈیاسک) کا ذکر بار بار اور بھونڈے انداز میں کیا ہے، اُس کی مقبول صورت سانڈے کا تیل تھا جو لاری اڈوں کے قریب اور میلوں میں بساط بچھا کر بیچا جاتا تھا۔ بساطی بھی پنجاب کی ایک ذات تھی۔ وہ سانڈے چھوڑ دیتا جو گرد میں آہستہ آہستہ چلتے رہتے۔ کچھ لوگ وہیں بیٹھے رہتے کہ تماشا ختم ہو تو رازداری کے ساتھ دعا مانگیں اور اُسی رات کو بیوی کی دعائیں لیں۔
سپیروں کی ذات سپادھا تھی جو اپنے پاس گدڑ سنگھی موجود ہونے کا ذکر کرتا۔ طرح طرح کی باتیں مشہور تھی کہ اگر کسی کے پاس گدڑ سنگھی ہو تو اُس کی جانے کون کون سی جائز یا ناجائز تمنا پوری ہو گی، بہت سی دولت ملے گی۔ کہتے تھے کہ گدڑ سنگھی دیکھ یا چھو بھی لی جائے تو کافی ہے۔ خیال تھا کہ یہ سانپ کے منکے میں سے نکلتی تھی۔ کوئی کہتا کہ نارنجی رنگ کی ہوتی ہے۔ سپیرا کبھی نہیں دکھاتا تھا، لیکن ذکر ہر وقت کرتا۔
اب کے جدید دور میں مداری، بساطی اور سپادھے یونیورسٹی میں کمپنیوں کے ’’کامیاب‘‘ سی ای اوز اور موٹیویشنل سپیکرز یا کیریئر کاؤنسلر بن کر آتے ہیں۔ وہ نوجوانوں کو بتاتے ہیں کہ کیسے اُنھوں نے صفر سے آغاز کیا اور اب لاکھوں ڈالر کے شیئرز کے مالک ہیں، کہ اُنھیں زیادہ لوگوں کو اپنی کامیابی بتانے کا شوق نہیں، کہ زیادہ تر سامعین اُن کی بات توجہ سے نہیں سنیں گے، لیکن جو تھوڑے بہت سنیں گے وہ کامیاب رہیں گے۔
ان پرانے اور جدید مداریوں کا موازنہ کیا جائے تو بہت سے مراحل ایک جیسے لگیں گے: اول، وہ بس ایک دم آ جاتے ہیں؛ دوم، اُن کا حلیہ مخصوص قسم کا ہوتا ہے جو اُنھیں حاضرین سے جدا کرتا ہے؛ وہ آپ کی خواہشات کو ٹٹولتے ہیں جو کہ سب کی ہوتی ہیں؛ سوم، وہ اُن خواہشات کو پوری کرنے کی راہ بتاتے ہیں جو لامحالہ اُن کے اپنے فائدے کی ہوتی ہے۔
کامیابی کے خواہش مند اور اپنے کلاس فیلوز کی بڑی گاڑیوں جیسی گاڑیاں لینے کے متمنی طلبا ڈپریس ہو کر واپس آتے ہیں۔
اُن میں اپنی تعلیم سے بیگانگی پیدا ہوتی ہے۔ وہ بڑے خوابوں کے خواب دیکھنے لگتے ہیں۔
اس کے مقابلے میں ہمارے پاس بھی دینے کو محض افسانے ہی ہیں۔ کوئی سقراط کا ذکر، کسی لیونارڈو دا ونچی کا قصہ، کسی شاہ حسین یا ملامتی شاعر کا حوالہ، کسی فلسفی کا واقعہ، وغیرہ وغیرہ۔ یہ بہت قلیل ہے، لیکن قلیل بھی زبردست ہے اگر ہم اس تفہیم کو پھیلاتے رہیں۔ اس کے سوا کوئی حل بھی نہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...