جدیدادبی تھیوریز اورپاکستانی لکھاریوں پر ان کے اثرات
(زندہ لوگ کے اجلاس کی کارروائی)
…………….
’’زندہ لوگ‘‘ کا اجلاس آج بھی حسبِ معمول ادبی، علمی،دلچسپ اورہرلحاظ سے نہایت نفع بخش تھا۔زندہ لوگ کے اجلاسوں میں کبھی بھی گفتگو کا موضوع پہلے سے طے نہیں ہوتا۔دوستانہ انداز کی محفل کا سا انداز ہوتاہے۔ گفتگو کبھی کبھار گرماگرم بحث بھی بن جاتی ہے اور کبھی علمی مذاکرے کی سی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ معروف نظم گو شاعرجناب علی محمد فرشی موجود ہوں تو ضرور کوئی گرماگرم بحث چھڑہی جاتی ہے۔ آج بھی گفتگو کا قبل ازطعام حصہ فرشی صاحب اور مظہر صاحب کے درمیان نثری نظم کے موضوع پربحث کی صورت اختیارکرگیا۔
آج کی بحث کے دوران میں سوچ رہا تھا کہ نثری نظم کو فی الحقیقت تسلیم کرلیے جانے کا عرصہ آزاد نظم کے مقابلے میں کہیں زیادہ طویل ہوچلاہے کیونکہ آج بھی اس کے عین وجود پر سوال اُٹھتے اور اس کے بے شمار پہلوؤں کو شک کی نگاہ سے دیکھاجاتاہے۔ معلوم نہیں یہ سلسلہ کب تک چلے گا۔ معلوم نہیں اسے منوانے کے لیے ابھی لوگوں کو کتنی کتابیں اور لکھنا پڑیں گی یا پھر ڈاکٹرناصرعباس نیّر کے بقول ہمیں اس کی تفہیم کا منطقی فہم حاصل کرنے کے لیے ابھی ارتقأ کی ضرورت ہے؟
آج کی بحث نثری نظم سے شروع ہوکر ’’ادبی نظریات‘‘ کی درآمدوبرآمداور ان کے اطلاقات کے معاملات تک پھیل گئی۔لیکن جس عرصہ میں نثری نظم کی بات ہوتی رہی کچھ چیزوں نے مجھے چونکایا۔ مثلاً علی محمد فرشی صاحب کا یہ کہنا،
’’نثری نظم کا بھی اپنا ایک عروض ہے‘‘
دماغ پر کافی زور دینے کے بعد بھی میں یہ بات نہ سمجھ سکا اور نہ ہی فرشی صاحب بہت سی باتیں بیان کرنے کے باوجود اِس خیال کو واضح کرسکے۔ یہاں تک کہ جنابِ جلیل نےباقاعدہ ریاضیاتی ناپ تول کے ذریعے نثری نظم کے عروض والے معاملے کو نمٹایا۔عالی صاحب نے فرمایا،
’’عرض یہ ہے جناب کہ رباعی کے جیسے اکیس وزن بنائے ہوئے ہیں لوگوں نےجبکہ بنیادی ایک ہی ہے۔جوعربی کےاِس کلمہ کے وزن پر ہے، ’’لاحول ولاقوۃ الّاباللہ‘‘۔ اس مثال کی موجودگی میں میری بات سمجھیں۔ مسئلہ اُس وقت پیدا ہوگا نثری نظم میں کہ مثلاً فرض کریں بنیادی آہنگ بارہ ہیں اورایک شخص نے اپنی نثری نظم میں، ایک جملے میں ایک استعمال کیا ، دوسرے میں کوئی دوسرا کیا، تیسرے میں کوئی تیسرا کیا، اس سے اس کے جو امکانات وجود میں آئیں گےوہ لامتناہی ہوجائیں گے۔یعنی اگر آپ یہ کہیں کہ تیسرے میں پھر پہلے والا واپس آجاتاہے۔ پانچویں میں پھر دوسرے والا واپس آجاتاہے۔ اس طریقے کی جیومیٹری آپ اس کے وزن کی بنائیں گے تو اس کی تو لامتناہی قسمیں ہوجائیں گی‘‘
فرشی صاحب کے ساتھ بحث کی ایک دلچسپ بات یہ ہوتی ہے کہ وقفے وقفے سے کوئی نہ کوئی چٹکلہ ،لطیفہ یا بذلہ سنجی کا باہمی مظاہرہ بھی جاری رہتاہے۔ مثلاً مظہرصاحب کا یہ جملہ کہ،’’بھئی ہم گاؤں کے لوگ ہیں۔ ہمارے ہاں تو بچہ بھی سُر میں روتاہے‘‘۔اِسی طرح آج جب پہلے فرشی صاحب نے مظہرصاحب سے کہا، ’’ہمارے ادیبوں میں وہ آداب ہی نہیں رہے۔ بات کو درمیان میں کاٹ دیتے ہیں۔ایک سلیقہ ہوتاہے بات کا۔ پہلے کہنا ہوتاہے، قطع کلامی معاف اور پھر بات کاٹنا ہوتی ہے‘‘ تو کسی نے فرشی صاحب سے اذراہِ تفنن کہہ دیا، ’’فرشی صاحب! آپ خودبھی تو بات کاٹ دیتے ہیں‘‘۔ اس پر فرشی صاحب نے کہا،
’’ہاں نا! کاٹ دیتاہوں۔ اگر میں بات نہ کاٹوں تو سامنے والا تو مسلسل بولتاہی رہے گا‘‘
فرشی صاحب کا انداز ایسا تھا کہ محفل میں زوردار قہقہہ بلند ہوا۔ہنستے ہنستے جناب افتخار عارف نے ایک واقعہ سنایا اور بتایا کہ ان کے ایک دوست نے میر کا شعروزن سے خارج کرکے سنایا ، جس پر افتخار صاحب نے وزن درست کرکے شعردہرایا۔ تب ان کے دوست نے پھر وزن توڑ کرلیکن بہ آواز بلند شعر پڑھا، جس پر افتخار صاحب نے برجستہ کہا، ’’جی جی درست! لیکن آواز اونچی کرکے پڑھنے سے بھی شعر میں وزن نہیں آسکا‘‘۔
بہرحال کافی دیر تک نثری نظم ہی زیرِ بحث رہی۔ڈاکٹرنوازش نے اپنی طرف سے بات کرتے ہوئے کہاکہ،
’’ہمیں کیا اعتراض ہوسکتاہے۔ اب تک تو نہیں دیکھیں لیکن اگر کوئی بڑا شاعر کل کو کوئی یادگار نثری نظم کہہ دے تو ہم اسے اچھی شاعری تسلیم کرنے سے کیونکر انکار کرسکتے ہیں‘‘
ڈاکٹرصاحب کی بات سے ایک خیال کے تحت میں نے عرض کی،
’’لیکن ایسے نثرپارے تو عرصہ سے موجود ہیں جنہیں نثری نظموں کی بڑی شاعری شمار کیا جاسکتاہے۔ مثلاً محمد حسین آزاد کی نثر ہی لے لیں‘‘
مجھے محمد حسین آزاد کا ایک اقتباس یاد تھا سو میں نے اپنی بات کی تائید میں پڑھ دیا،
’’دنیا دو رنگیِ زمانہ
عبرت و دید
حسرت و نس
بُو قلمُو
آئندوزند کا بازار ہے
کس و ناکس دوچار ہے
جسے دیکھا آزاد نہ پایا‘‘
تب عالی صاحب نے میری تائید فرمائی اور ساتھ ہی کہا،
’’آپ کی یہ بات بڑی جاندار ہے کہ محمد حسین آزاد نے اگر اِسے نثری نظم سمجھ کر نہیں لکھا تو کیا یہ نثری نظم کے معیار پر پوری نہیں اُترتی؟ ناولوں تک میں ایسے ایسے اقتباسات آجاتے ہیں جو پورے کے پورے نثری نظمیں کہلانے کے حقدار ہوتے ہیں‘‘
میں نے جب کہا کہ نثری نظم پر مہمل نگاری کا رجحان غالب ہے تو عالی صاحب نے فرمایا،
’’یہ تو کسی بھی قسم کی شاعری کے لیے اُس وقت کہاجائےگا جب وہ مہمل ہوگی۔ تب چاہے وہ غزل یا آزاد نظم ہو لکھی جانے کو و وہ بھی مہمل لکھی جاسکتی ہے۔جبکہ اچھی خصوصیات کی حامل شاعری کا ذکر ہوگا تو ممکن ہے آپ کو اچھی شاعری نثری نظم میں بھی مل جائے‘‘
اِس بات کے ساتھ سب نے اتفاق کیا۔ میں نے بھی اتفاق کیا اور عرض کی،
’’بے شک یہ بات صحیح ہے۔میرا مدعا فقط یہ تھا کہ نثری نظم پر اہمال کا غلبہ ہے۔ جہاں تک اچھے کلام کی بات ہے میں خود تسلیم کرتاہوں کہ نثری نظم میں بھی اچھی نظم کا امکان ہے۔ میں خود سرائیکی کے ایک شاعر ڈاکٹراَشولعل فقیر کی نثری نظموں کو جب بھی پڑھتاہوں مجھے اُن میں بھرپور نظم دکھائی دیتی ہے۔ مثلاً اَشو لعل فقیر کی یہ نظم ہی دیکھ لیجے،
چندر بادشاہ جاگداپئے
نانگ بادشاہ سُتا پئے
ڈُو چار نال بلیاں ہِن
ہِک ادھ نال کُتا پئے
بندہ چھینڑو کوئی نی‘‘
عالی صاحب نے مزید فرمایا،
’’ہم نثری نظم کے آہنگ کی بات کررہے تھے۔بعض نثری نظموں میں کسی غزل کی ردیف کی طرح کوئی مصرع یا مصرعے کا ٹکڑا بار بار دہرایا جاتاہے۔ اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں آپ کو ہر ایسی نظم غزل کی طرز پر لکھ کر دے سکتاہوں۔ مثلاً ایک نثری نظم میں اگر یہ مصرع بار بار آرہاہے کہ، ’مجھے زہرلگتاہے‘، ہر دوچارسطروں کے بعد اگر یہ جملہ آرہاہے تو آپ اِسے ردیف بنالیں اور باقی مصرعے جو اس سے پہلے وارد ہوں انہیں غزل کے مصرعوں کی طرح لکھ لیں تو کیا وہ ایسی غزل نہ بن جائے گی جو وزن کے بغیر ہو؟‘‘
میں دل ہی دل میں یہ سوچ کر مُسکرا دیا کہ، ’’یہ تو نثری غزل ہوگئی۔ اور اگر یہ نثری غزل ہے توپھر اب تک کتنی ہی نثری غزلیں لکھی بھی جاچکیں جن کے خالقِین کو اندازہ تک نہیں کہ انہوں نے نثری نظم نہیں بلکہ نثری غزل لکھ ڈالی ہے‘‘
عالی صاحب نے مزید بات جاری رکھی،
’’دیکھیے جناب! جب ہم کوئی چیز دوسروں سے لیتے ہیں۔ وہ چاہے ایک لفظ ہو یا ایک صنف، ہم نہ چاہتے ہوئے بھی اُسے بدلتے ہیں۔مثلاً آزاد نظم کے زمانہ ٔ آغاز میں یہ بات عام تھی کہ نظم کو غزل سے جُدا کرنا ضروری ہے اور اس لیے اِس میں سے قافیہ اور ردیف نکال دو! لیکن وقت نے ایسا نہ ہونے دیا اور قافیہ اور ردیف اپنی طاقت سے واپس نظم میں لوٹ آئے اور پھر کوئی آ ایسی نظم نہ لکھی جانے لگی جو قافیوں سے بالکل ہی محروم ہوتی۔تخلیق کار کو تخلیقی ہونا چاہیے ۔ باقی یہ لکھنے والے پر چھوڑ دینا چاہیے کہ وہ کون سا طریقہ اور اسلوب اختیار کرتاہے اپنے خیال کو بیان کرنے کے لیے‘‘
عالی صاحب کی بات مکمل ہوئی تو میں نے عرض کی،
’’سر! میری دانست میں معنی کے خاتمے سے تخلیق کی ملکیت کا مسئلہ بھی تو پیدا ہوجاتاہے۔ تخلیق کس کی ہے؟ قاری کی یا اس شخص کی جس نے تجرید کے نام پر نثری نظم لکھ ڈالی؟‘‘
عالی صاحب نے اِس سوال کا جواب یوں دیا کہ،
’’کسی بھی مواد میں قاری اپنی طرف سے کچھ نہ کچھ ضرور شامل کرتاہے۔ معنی میں قاری کا حصہ تو ہمیشہ رہےگا‘‘
تب میں نے اپنی بات کی وضاحت میں کہا کہ،
’’میرا مدعا ایسی تخلیقات سے ہے جس کے خالق کو علم نہیں کہ وہ تخلیق کررہاہے۔ مثلاً اگر ہم ایک کھیل کھیلنا شروع کردیں اور فعول فعلن کے وزن پر ہم میں ہرایک، دودولفظ بولتا چلاجائے اور ہم یہ کام ایک دائرے میں کسی انتاکشری کی طرح کھیل رہے ہوں تو یقیناً آخر میں ایک نظم وجود میں آجائے‘‘
عالی صاحب نے فرمایا،
’’اگر اس نظم کو ایڈٹ کیاگیا تو وہ تخلیق بن جائے اور ابہام نہ رہیگا اور اگر فرض کریں ایڈٹ نہ کیا تو اس کے مکمل مواد سے معنی برآمد ہونا ضروری ٹھہرے گا کیونکہ اگر کسی کسی حصے سے معنی برآمد کیا گیاتو باقی حصوں کو فقط تجریدی کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکےگا اور نظم ناکام سمجھی جائےگی‘‘
ہمارے مکالمے میں جناب افتخار عارف نے حصہ لیتے ہوئے فرمایا،
’’صرف مشق کی جو آپ بات کررہے ہیں تو ایک زمانے میں اخبار کے تراشوں میں سے لفظوں کو کاٹ کاٹ کر بھی شاعریاں بنائی جاتی رہی ہیں‘‘
عالی صاحب نے یہ سن کر فرمایا،
’’یہ وہی کمپیوٹر کے ذریعے شاعری کرنے والی بات ہوئی نا۔ حقیقت یہ ہے کہ تخلیق کی لاجک کوئی نہیں ہوتی۔جیسے جینئس کیسے پیدا ہوتاہے؟ اس بات کو دریافت کرنے کا کوئی طریقہ ابھی موجود نہیں اسی طرح تخلیقی واقعہ جب ہوجاتاہے تو اس کی کوئی منطق نہیں ہوتی۔بات کچھ یوں ہے کہ،
’ادبی تھیوریاں تخلیق پیدا کرتی ہیں یا نہیں لیکن تخلیقی واقعات ادبی تھیوریاں ضرور پیدا کرتے یا بدل دیتے ہیں۔ مثلاً میں آپ کو ایک مثال دیتاہوں۔اقبال اُس دور میں اُمید کی شاعری کررہے ہیں جب ہماری غزل رورہی ہے۔ ایساواقعہ پیش تو اس لیے آیا کہ ایک بڑا تخلیق کار پیدا ہوگیا لیکن وہ جس پس منظر میں پیدا ہوا اس پس منظر میں تخلیق کار کا تجزیاتی مطالعہ نئی تخلیقی تھیوری کو وضع کردیتاہے۔پہلے یہ کہاجاتاہےکہ ادب تصویر ِحیات ہے یا تفسیر حیات ہے پھرجب کوئی بڑا ادبی واقعہ ہوجاتاہے تو کہا جاتا ہے، نہیں جناب، ادب تعبیرِ حیات بھی ہے اورپھر جب اقبال جیسا کوئی شخص اپنی تخلیقی صلاحیت کے استعمال سے پوری قوم کو وجود میں لے آئے تو کہاجانے لگتاہے کہ ادب تخلیقِ حیات بھی ہے۔چنانچہ تخلیقی واقعات تو آپ کی تھیوریاں بدل دیتے ہیں‘‘
عالی صاحب نے بات مکمل کی تو جناب افتخار عارف نے فرمایا،
’’ایک چھوٹی سی بات کاذکر کرتاہوں۔ اقبال نے جب یہ نعت لکھی کہ،
لوح بھی تُو قلم بھی تُو تیرا وجود الکتاب
گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
تو اس میں ایک شعر اقبال نے کہا،
’’سِطوتِ سنجروسلیم تیرے جلال کی نمود
فقرِ جنید و بایزید تیرا جمال بے نقاب
اب سطوتِ سنجروسلیم کے الفاظ میں اہلِ زبان کے نزدیک تجسیدِ صوتی اور تجسیدِ حرفی بھی تھی لیکن پھر بھی اقبال نے اس مصرعے کو بدل دیا اور شوکتِ سنجروسلیم کردیا۔ کیونکہ جس جلال کا ذکر کیا جارہاتھا وہ شوکت کے لفظ سے ہی ادا ہوسکتاتھا۔ معنی کی اوّلیت کی اِس بات میں مثال ہے‘‘
عالی صاحب نے فرمایا،
’’میں اقبال کے حوالے سے یہ بھی کہنا چاہونگا کہ جب کسی بڑے جینئس کے سامنے بڑے بڑے سوال آجاتے ہیں تو وہ عموماً قنوطی ہوجاتاہے۔ قرۃ العین کے ہاں، مجید امجد کے ہاں ، یہاں تک کہ منٹو کے ہاں یہی رجحان غالب ہے۔ لیکن اقبال وہ شخص ہے کہ جس کے سامنے ان سے بھی کہیں بڑے بڑے سوال آئے لیکن اقبال کی رجائیت پسندی پر آنچ نہ آئی۔ اب اِسی ضمن میں یہ بھی سنتے جائیے کہ ایک مرتبہ یوسف حسن نے مجید امجد پر مضمون لکھا، جس کا عنوان تھا، ’مجید امجد کی بے بس آگہی‘، تب میں نے اُن سے کہا کہ، اگر تو آپ اُس سطح کی آگہی کی بات کررہے ہیں جس سطح کی آگہی کے لیے بڑے بڑے سوالات کا اُٹھ جانا ضروری ہوتاہے پھر تو ٹھیک ہے لیکن اگر آپ مجید امجد کو ترقی پسندوں والوں آگہی میں بے بس سمجھتے ہیں تو پھر آپ اُن کے ساتھ زیادتی کررہے ہیں‘‘
اس دوران گفتگو کئی چھوٹے چھوٹے موضوعات سے ہوتی ہوئی اُس وقت جدیدیت کے نام پر ہونے والے نظریاتی جدال تک آپہنچی جب میں نے عرض کی کہ،
’’سر! ہم اس بحث میں ایک بات کو یکسر نظر انداز کردیتے ہیں کہ یہ بحث جو ہم نثری نظم یا ادبی تھیوریز کے موضوع پر چھیڑے بیٹھے ہیں یہ بنیادی طور پر دو فکری و نظریاتی گروہوں کے اختلاف کا قصہ ہے جن کا اختلافی رشتہ آپس میں شاعری پر موقوف نہیں بلکہ یہ ایک طرف فکرِ اجتماعی کےنمائندوں اور دوسری طرف بے رُوح وجودیت سے شروع ہوکر جدیدیت اور پھرمابعد جدیدیت تک آپہنچنے والی مادہ پرستانہ ذہنیت کی جنگ ہے۔اِن کا آپسی جھگڑا شاعری نہیں ہے۔ اِن کی جنگ اجتماعیت پسندوں اورانفرادیت پسندوں کی جنگ ہے‘‘
میری بات ختم ہوتے ہی عالی صاحب نے فرمایا،
’’جی بالکل! یہی ہماری نابینگی ہے۔ ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا۔ ہمیں بحثیں دی جاتی ہیں۔ فلوٹ کردی جاتی ہیں۔اورہم دس دس سال اُن کی جگالی کرتے رہتے ہیں ‘‘
میں نے عرض کی،
’’سر! ہمارے یہاں کا المیہ یہ ہےکہ ہمارے ہاں کا پوسٹ ماڈرنسٹ خود دہرے نظریاتی افکارکاشکارہے۔ اور دونوں نظریات ایک دوسرے کے دشمن نظریات ہیں۔ ایک طرف تو وہ خود کو کامریڈ کہتاہے اور پروگریسو رائٹر ہے جب کہ دوسری طرف اس کے پا س آرگومنٹ تو مغربی سرمایہ دارنہ الحادوالاہے۔ وہ جب مذہب کی مخالفت کرتاہے تو رچرڈڈاکنز کے دلائل اس کا مواد ہیں لیکن جب وہ اپنی پہچان کرواتاہے تو کہتاہے وہ کامریڈ ہے اور سُرخہ ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی سینے کے اندر دو دشمن پل رہے ہوں؟ وہ کیسے اشتراکیت اور سرمایہ داری کو ایک ساتھ اپنے ذہن و قلب میں جگہ دیے ہوئے ہے؟ مجھے آج تک یہ بات سمجھ نہیں آسکی۔ پوری دنیا کے کسی اور ملک کا کامریڈ ایسا نہیں ہے، صرف پاکستان کا ایساہے‘‘
تب عالی صاحب نے فرمایا،
’’میں آپ کو اس کی ایک زندہ مثال دیتاہوں۔ ڈاکٹر صلاح الدین درویش نے ایک کتاب لکھی، ’فکر اقبال کا المیہ‘۔ اور اس میں کچھ اس طرح کا بیان دیا کہ ’سرمایہ دارانہ نظام انسانیت کا محسن ہے، اور یہ کہ جو لوگ سرمایہ دارانہ نظام کی مخالفت کرتے ہیں اُن کی سوچ غلط ہے۔ غالب قوموں کو حق ہے کہ وہ وہاں جائیں جہاں کے ریسورسز ابھی ایکسپوز نہیں ہوئے‘ اچھا جناب! تو اس کتاب کا دیباچہ روش ندیم نے لکھاہے جو مصنف کی طرح خود بھی پروگریسو ہیں۔ لیکن روش ندیم نے سرمایہ دارانہ نظام پرمصنف کی بات پر کچھ بھی تبصرہ نہ کیا اور مصنف کے دہرے پن سے چشم پوشی برت لی۔ اس کتاب پر یوسف حسن صاحب نے تقریر فرمائی تو انہوں نے بھی مصنف کے اس طرح کے خیالات پر کوئی تبصرہ نہ کیا۔ تب یہ خاکسار ہی تھاجو دونوں طرف سے بولا۔ مذہب کی طرف سے بھی اور اشتراکیت کی طرف سے بھی۔ یہ کیسا دہرا پن ہے؟ ہماری سمجھ سے باہر ہے‘‘
اِس دوران افتخار عارف صاحب نے مجھے مخاطب کرکے سوال کردیا،
’’ادریس آپ ہمیں یہ سمجھائیں کہ کیا یہ لٹریری تھیوری کو ئی ایٹم بم ہوتی ہے کہ جس کی وجہ سے ادب کو مسمارکردیاجاتاہے؟ کیا کوئی ایسی تھیوری نہیں ہے جس سے ہم کلاسیکی لٹریچر کی ایپری سی ایشن کرسکیں؟کوئی ایسی تھیوری جو تمام زمانوں کے ادب کو سمجھ سکے؟
عالی صاحب نے سوال سمجھنے میں میری مدد فرمائی اور کہا،
’’ادریس صاحب! آپ یوں سمجھ لیں کہ افتخار صاحب یہ پوچھ رہے ہیں کہ کیا کوئی ایک تھیوری مثلاً فمینزم کو ہی لے لیں، تو کیاکوئی ایک تھیوری ہمیں ادب کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کےلیے کافی ہوسکتی ہے؟ ‘‘
عالی صاحب کی بات کے بعد جناب افتخار عارف نے اپنے سوال کو مزید تفصیل سے بیان کیا،
’’ہمارے کچھ دوست ہیں۔ ادریس صاحب سے سینئر دوست، اور مجھ سے جونیئر۔ اُن کا کہناہے کہ وہ پوسٹ ماڈرنسٹ ہیں۔ توجناب جب میں اُن سے کہتاہوں کہ اچھا !کوئی شعر سنائیں تو وہ اشعار تو وہی سناتے ہیں جوکلاسیکی روایت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ ایسا تو نہیں ہوا کہ وہ جدید ادبی تھیوریز کے نمائند ہ ہیں تو کوئی اور چیزسنائیں جو میرے لیے کسی اور تھیوری کی موجودگی میں سمجھنا لازمی ہو۔آپ میری بات یوں سمجھ لیں۔مثلاً ایک تھیوری ہے ادب کی، کہ ادب کو زمانے سے جُڑا ہونا چاہیے۔ اب ہم اس تھیوری کی مدد سے مِیر سے لے کر اقبال تک سب کو سمجھ سکتے ہیں اور دیکھ سکتے ہیں کہ آیا اُن کی شاعری زمانے سے جڑی ہوئی ہے یا نہیں؟ہم جانتے ہیں کہ زمانے سے جڑے ہونے کا مطلب ہے کہ اس ادب کو زمانے کی آئینہ داری کرنا چاہیے۔اور ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ادب اپنے عہد کی آئینہ داری کرتا ہے۔میں جب لکھنؤمیں تھا۔ جب پڑھ رہا تھا تواُس وقت یہ سب لوگ زندہ تھے۔ جو وجودی فلسفہ کے بڑے بڑے نام ہیں۔ سارتر زندہ تھا، ہائیڈگرزندہ تھا۔ ہمیں یہ سب لوگ پڑھائے گئے۔’ کیرکے گاڈ‘ سے لے کر ہائیڈگر تک۔ ہمیں ان کے تمام ترنظریات پڑھائےگئے۔ لیکن مجھے یاد نہیں پڑتا کہ شعر کہتے ہوئےپوری زندگی میں کبھی ایسے وجودی نظریات نے میرے کلام پرکوئی اثرڈالا ہو۔میں فلسفے کا طالب علم ہوں۔ مجھے پوری باریکی کے ساتھ وجودیت سے جدیدیت تک تمام خیالات سے آگاہی ہے لیکن میں نے تو مذہب کے حوالے سے بھی لکھا اور اپنے بزرگوں کے حوالے سے بھی اور اپنے عہدکے سماجی مسائل کے حوالے سے بھی، اور اسی کو ضروری سمجھا۔ اور یہی کچھ ہمیں آتا تھا۔ تو میرا کہنا یہ ہے کہ ایسے دوست جو خود کو پوسٹ ماڈرن کہتے ہیں، مثلاً اگر میں ظفراقبال صاحب سے یا ساقی فاروقی سے کہوں کہ آپ جو نئے تجربات کررہے ہیں تو کوئی شعرسنائیے تو شاعری تو کلاسیکی روایت میں ہی سناتے ہیں۔ جو دوسری غزلیں ہیں اُن کی، وہ نہیں سناتے۔اس کا کیا مطلب ہوا ؟ سوال یہ ہے کہ اگر مجھے راشد سمجھ آرہاہے۔ میراجی سمجھ میں آرہاہے۔تو آپ کیوں سمجھ میں نہیں آرہے۔اُس میں میرا نقص ہے۔شاید میری جو سماعت ہے وہ کسی اور سمت کی اسیر ہے۔میری سماعت کی حدود ہیں۔ کچھ میرے افکار کی حدود ہیں۔چنانچہ میں جاننا چاہتاہوں کہ جو موجودہ تھیوریز ہیں۔وہ کیا ہیں؟ وہ مجھے بتادیں‘‘
میں افتخار عارف صاحب کے سوال کا جواب دینے میں ناکام رہا۔ میں اصل میں آخر تک اُن کے سوال کو ٹھیک سے سمجھ نہ سکا۔ کافی دیر ادبی تھیوریز کے موضوع پر ہی بات جارہی۔ پھر رفتہ رفتہ گفتگو نہ جانے کیسے حسن عسکری، سلیم احمد اور رینے گینوتک آپہنچی۔عالی صاحب نے ، افتخار عارف صاحب کو مخاطب کرکے ایک بات بتائی کہ،
’’افتخار صاحب! میں نے برہان احمد فاروقی صاحب سے ایک سوال کیا۔ وہ میرے استاد ہیں۔ میں نے پوچھا کہ اگر’’رینےگینو‘‘ کا مسئلہ توحید ہی تھاجوموجود تھی عیسائیت میں بھی، چینی تہذیب میں بھی، ہندوؤں میں بھی تو وہ عیسائیت سے مسلمان کیوں ہوا؟۔۔۔۔۔۔۔‘‘
عالی صاحب کی بات ابھی مکمل نہ ہوئی تھی کہ فرشی صاحب نے نہایت جوشیلے انداز میں اُن کی بات کاٹ دی اور فرمایا،
’’جناب! یہ آپ بالکل غلط بات کررہے ہیں۔ رینے گینو عیسائیت کو تہذیب نہیں مانتا‘‘
عالی صاحب نے تہذیب کا لفظ اپنے بیان سے خارج کرکے دوبارہ بات کی اور کہا،
’’لیکن وہ یہ تو مانتاہے نا کہ توحید اُس میں بھی ہے، عیسائیت میں بھی؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
فرشی صاحب نے فوراً کہا،
’’نہیں! وہ یہ بھی نہیں مانتا‘‘
بس پھر کیا تھا۔ کافی وقت اسی بات میں گزرگیا۔ عالی صاحب مسلسل اصرار فرماتے رہے کہ ’’میں آپ کو ابھی دکھادیتاہوں‘‘۔ اس وقت بجلی نہیں تھی اور یوپی ایس بھی ڈاؤن ہوگیا تھا۔ عالی صاحب کوئی کتاب نہ نکال سکتے تھے۔ بس اتنی سی دیر تھی لیکن فرشی صاحب آخر تک مان کر نہ دیے۔
آج کی گفتگو میں عالی صاحب نے جب یہ کہا کہ ان ادبی تھیوریز کی موجودگی میں طبقاتی شعور کی گفتگو کہیں دب کر رہ گئی۔ پروگریسو رائٹرز تو موجود ہیں لیکن اب کبھی طبقاتی شعور کا سوال نہیں اُٹھایاجاتا۔ نقصان کس کا ہوا؟ آج نوآبادیاتی نظام یا مابعد نوآبادیاتی نظام کے حوالے سے جتنی گفتگوئیں چل رہی ہیں ان میں کہا جارہاہے کہ استعمار آپ کے محاورے پر بھی حکمرانی کرتاہے۔ آپ کی علامات پر بھی حکمرانی کرتاہے اور آپ کے خیالات پر بھی۔آپ اس سے باہر نہیں جاسکتے۔اور دیکھیں! جس سلطنت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا اور جس کا بیانیہ پوری دنیا پر حاوی تھا۔تو اگر کانٹینٹ کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا تو پھر آج وہ امریکہ کا دُم چھلا کیوں بناہواہے؟
رپورٹ ٹائپ کرتے کرتے جب میں نے ابھی ورڈ کی فائل میں الفاظ کی گنتی کی تو یہ چارہزار کے قریب ہوچکے تھے۔ اور مجھے محبوب ظفر صاحب کی ہدایت یاد آگئی کہ خلاصہ بہت لمبا نہ لکھا کریں۔ آج تو ہدایت پر عمل نہ کرسکا کہ روانی میں لکھتا چلا گیا۔ لیکن انشااللہ آئندہ عمل کرونگا۔لیکن ابھی رپورٹ کافی رہتی ہے اور مجھے طوالت کے ڈرسے اسے یہیں ختم کرنا پڑرہاہے۔
والسلام
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“