جدیدادب جرمنی کے تین اداریے
اداریہ
بیسویں صدی کے آغاز میں اردو ادب میں ’’پیرویٔ مغربی‘‘کا رجحان غالب تھا۔اس کے نتیجہ میں بعض نئی اصناف متعارف ہوئیں اور اردو ادب کا حصہ بنیں۔نئے افکار وخیالات نے بھی ادب پر اپنے اثرات مرتب کئے لیکن ایک عرصہ کے بعد ’’پیرویٔ مغربی‘‘کا رویہ فیشن اور نقالی کی حد تک چلا گیا۔
مغربی معاشرے کے اپنے تقاضے اور اپنی ترجیحات ہیں اور ہمارے معاشرے کی تمام تر خامیوں کے باوجود کچھ اپنی روایات ہیں۔علوم سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ایک زمانے سے مختلف اقوام ایک دوسرے کے علوم سے استفادہ کرتی آرہی ہیں۔لیکن جب اچھے بھلے دانشوراور تخلیقی اذہان بھی دوسروں کے افکار اور ادب کی محض نقالی کرنے لگیں تو اس سے نہ تو وہ کسی عالمی سطح پر خود کو جوڑ پاتے ہیں اور نہ ہی اپنی مقامی جڑیں مضبوط رکھ پاتے ہیں۔
مغربی دانشوروں نے ایک طویل عرصہ تک مشرقی افکار وخیالات سے استفادہ کیا ہے لیکن ان سے فیض یاب ہونے کے باوجود انہوں نے نقالی کی راہ نہیں اپنائی جبکہ پمارے ہاں یہ المیہ ظاہر ہوا کہ ہمارے بعض دانشوراور تخلیق کار مغربی چکا چوند سے مرعوب ہو کر ان کا’’ترجمہ‘‘ بن کر رہ گئے ۔ادب کے کسی بھی بڑے دھارے میں ہماری شمولیت ہماری اپنی مقامیت اور اپنی جڑوں کی بنیاد پر ہونی چاہئے۔
متعدد منفی رویوں کے دوش بدوش ہمارے ہاں یہ صحت مند رویہ بھی دیکھنے میں آیا کہ ہمارے بعض دانشوروں اورتخلیق کاروںنے مغربی افکار سے استفادہ تو کیا لیکن ان کے نتائج اپنے طور پر اخذ کئے۔مغربی اصناف سے اردو زبان کو فیض یاب تو کیا لیکن اس انداز میں کہ ان اصناف کو اپنی دھرتی سے جوڑا،ان اصناف کے بنیادی خدوخال کو قائم رکھتے ہوئے ان پر اپنا مقامی رنگ چڑھایااور یہ سب کچھ تخلیقی ریاضت کے ساتھ کیا۔
اور اب کہ بیسیوں اپنے اختتام کے آخری کنارے پر کھڑی ہے تو اردو ادب میں یہ خوش کن منظر دیکھنے میں آرہا ہے کہ پیرویٔ مغربی کے رویے کے ساتھ ساتھ ہمارے دانشوراور تخلیق کار اپنی مقامیت اور اپنی لوک جڑوں کی طرف بھی خصوصی توجہ کرنے لگے ہیں۔بیسویں صدی کی آخری دَہائی میں پنجاب کے لوک گیت ماہیے کی اردو ادب میں وسیع پیمانے پر پذیرائی اسی رویے کی ایک روشن مثال ہے۔توقع کی جا سکتی ہے کہ ہمارے تخلیق کار اپنی مقامیت کی طرف مزید توجہ کریں گے،اس اعتماد کے ساتھ کہ ان کی جو بھی عالمی شناخت بنے گی،اپنی مقامیت اور اپنی جڑوں سے پھوٹنے والی شناخت سے ہی بنے گی۔
جدید ادب جرمنی۔ شمارہ نمبر ۱۔مئی ۱۹۹۹ء
جدیدادب جرمنی کے پہلے دور میں صرف دو شمارے شائع ہوسکے تھے۔یہ پہلے شمارے کا اداریہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گفتگو!
اردو زبان کے اس وقت تین بڑے مراکز قرار دئیے جا سکتے ہیں۔پاکستان،ہندوستان اور برِ صغیر سے باہر کی تمام بکھری ہوئی پاکٹس۔تینوں میں بحیثیت زبان اردو کو اپنی بقا کے مسائل کا سامنا ہونے کے باوجود ان کی نوعیت خاصی الگ الگ سی ہے۔ہندوستان میں سیاسی وجوہ کی بنا پر چند مخصوص لابیوں کی طرف سے اردو کو مسلمانوں کی زبان قرار دے کرمارنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں،لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود اردو ابھی تک اپنے سخت جان ہونے کا ثبوت دے رہی ہے۔پاکستان میں باوجود اردو کو قومی زبان ماننے کے عملاََ اسے’ عوام کالانعام‘تک ہی رکھا گیا ہے۔مقتدر اشرافیہ طبقہ نے انگریزی کو ہی اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے اور اسی کے وسیلے سے ہی کوئی سماجی ترقی اور سیاسی فیض حاصل کیا جا سکتا ہے۔یوں پاکستان میں اردو کی سلامتی کو کوئی خطرہ نہ ہونے کے باوجود اس کی زبوں حالی ہندوستان میں اردو کی صورتحال سے بھی زیادہ بڑا المیہ ہے۔
ہندوستان میںجہاں اردو دشمنی میں اسے مسلمانوں کی زبان قرار دینے کی کوشش کی گئی وہیں مسلمان ادیبوں نے بھی نا انصافی پر غم و غصہ کے باعث اردو کو مسلمانوں کی زبان مان کر مذہب کی طرح اس کے تحفظ کو جزوِ ایمان بنا لیا ۔لیکن دوسری طرف یہ انوکھا منظر بھی ہے کہ ہندوستان کا بنگال تو اردو کا قلعہ بنا ہوا ہے اور مسلمان بنگلہ دیش میں کوئی اردو بولنے والا ڈھونڈے سے بھی شاید ہی ملے گا۔ چند برس پیشترماریشس میں اردو کو مسلمانوں کی زبان کے طور پر آگے لایا جانے لگا تو وہاں باقاعدہ ایک عرب ملک کی امداد سے اردو کے مقابلہ پر عربی کو مسلمانوں کی زبان کے طور پر بڑھاوا دینے کی مہم شروع کر دی گئی۔یوں اردو کے فروغ کی مہم کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
عربی بولنے والے ممالک میں اردو کے پھلنے پھولنے کی تھوڑی بہت گنجائش موجود ہے۔لیکن مغربی ممالک میں جہاں ساؤتھ ایشیا کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے،ان کے بچوں میں اردو کے نفوذ کے امکانات بہت کم رہ گئے ہیں۔اگرچہ نائن الیون کے واقعہ کے بعد بعض گھروں میں اپنی جڑوں کی فکر کرنے کے نتیجہ میں اپنی زبان کی طرف بھی دھیان گیا ہے اور اس کے لئے کچھ کرنے کی خواہش بھی بڑھی ہے لیکن عملاََ یہاں کی نئی نسل کا اردو کے تئیں وہی رویہ ہے جو ہندوستان میں اردو کے کئی نامور شاعر و ادیب گھرانوں کی اولاد کا ہے۔ان شاعروں اور ادیبوں میں ممتاز ترقی پسند بھی شامل ہیں اور جدید بھی،جن کی اولادیں اردو سے نابلدہو چکی ہیں، ہوتی جا رہی ہیں ،
کیا اردو کے تینوں مراکز کی کوئی ایسی کانفرنس بلائی جا سکتی ہے جو منتظمین کی ذاتی نمود و نمائش سے اُٹھ کر عملاََ اردو کو درپیش ان مسائل کے حل کے لئے ٹھوس اقدامات طے کرے اور تینوں سطحوں پر پھر اس کے لئے مثمر بہ ثمرات عمل کیا جا سکے؟اگر ایسا ہوتا ہے تو ترقی پسند مصنفین کی پہلی کانفرنس کے بعد یہ دوسری ایسی کانفرنس ہو گی جو نشستند، خوردند، برخاستند سے بڑھ کر اردو زبان کے لئے واقعتاََ کچھ کر سکے گی۔ لیکن کیا اردو کی بقا اور ترقی چاہنے والے اس حیثیت میں ہیں کہ ایسا سب کچھ کر سکیں؟اردو ادب کی بقا اردو زبان کی بقا اور ترقی ہی سے وابستہ ہے۔
جدیدادب جرمنی۔شمارہ نمبر۸۔جنوری تا جون ۲۰۰۷ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گفتگو!
ادب میں سامنے کی حقیقت کے عقب میں موجود حقیقت تک رسائی کی تخلیقی کاوش ایک طرح سے صوفیانہ رویہ رہا ہے۔موجود مادی کائنات کے پارٹیکلزکی تہہ میں اس کے عقبی بھید موجود ہیں لیکن تاحال سائنس پارٹیکلز سے کوارکس (کلرز) تک پہنچ کر رُک جاتی ہے اور اس سے آگے اس کے ہونٹوں پر بھی ایک حیرت انگیز مسکراہٹ ہی رہ جاتی ہے۔ ہمارے جو صاحبانِ علم مادی دنیا سے ماورا کسی حقیقت کو مجہولیت سمجھتے ہیں،انہیں اپنی رائے رکھنے کا حق حاصل ہے۔لیکن یہ ذہن میں رہے کہ ماورائیت کی پرچھائیوں کو مس کرنے کا تجربہ نہ رکھنے والے صاحبانِ علم اپنے علم کی حد کو کائنات کے بھیدوں کی آخری حدنہ سمجھیں۔ ایسے احباب کو ان کے مادی ذہن کے مطابق ہی بتانا مناسب ہے کہ انسانی دماغ کی کار کردگی کو دیکھیں تو اس کا ۱۰ فی صد ہی ابھی تک کارکردگی کا مظاہرہ کررہاہے۔اس ۱۰ فی صد دماغی کارکردگی نے انسان کو کتنی حیرت انگیز ترقیات کے دور تک پہنچا دیا ہے۔اس سے دماغ کا جو ۹۰ فی صد حصہ بظاہر خاموش پڑا ہے،اس کی بے پناہی کا کچھ اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔اچھے تخلیق کاروں کو اس ۹۰ فی صد سے کبھی کبھار جو کچھ ملتا ہے،اس کا اندازہ تخلیق کار ہی کر سکتے ہیں۔سو ماورائیت تو ہمارے باہربے پناہ کائنات سے لے کر ایٹم کے اندر اس کے بلڈنگ بلاک کی تلاش تک مسلسل موجود ہے۔اور انسانی دماغ کا ۹۰ فی صد خاموش حصہ بجائے خودہمارے اندرماورائیت کی کارفرمائی کا زبردست ثبوت ہے۔
ماورائیت کے نام پر یا صوفیانہ رمزیت کے نام پر اگر بعض لوگ سطحی یا بے معنی تحریریں پیش کر رہے ہیں تو اس نقلی مال کا مطلب بھی یہ نکلتا ہے کہ اصل بھی موجود ہے۔اصل کرنسی ہوتی ہے تو اس کی جعلی کرنسی بنانے والے اپنا کام دکھاتے ہیں۔حقیقت کے عقب میں موجود حقیقت کی جستجو رکھنے والوں کو ایک طرف تو مذہبی نظریہ سازوں کا معتوب ہونا پڑتا ہے دوسری طرف وہ لوگ بھی ان کے در پَے رہتے ہیں جو بظاہر خود کو مذہبی نظریہ سازی کے استحصالی طرز کا مخالف کہتے ہیں۔لیکن عجیب بات ہے کہ حقیقت کے عقب میں موجود حقیقت اور زندگی کو اس کے وسیع تر مفہوم میں جاننے کی کوشش کرنے والوں کو دونوں طرف کے لوگوں سے ایک جیسی ملامت کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ مذہبی نظریہ سازوں کے مخالف ترقی پسند وں کا رویہ تو بعض اوقات خود مولویانہ طرزِ عمل سے بھی زیادہ مولویانہ ہوجاتا ہے۔امید ہے ہمارے ایسے صاحبانِ علم اپنے رویوں پر نظر ثانی کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جدیدادب جرمنی۔شمارہ نمبر۱۱۔جولائی تا دسمبر ۲۰۰۸ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔