(Last Updated On: )
کسی زمانے میں ماہنامہ’’ایوان ِ اردو‘‘ ،دہلی میں ماہیے پر مضامین پڑھے تھے۔اس میں بار بار جناب حیدر قریشی ،جرمنی کانام بھی پڑھنے میں آتا تھا۔اس وقت ذہن میں یہ بات تھی کہ جرمنی تو غیر اردو علاقہ ہے پھر وہاں سے یہ آوازکس طرح گونج رہی ہے۔کون شخص ہے وہ جو اس علاقے سے اتنے لگائو سے اردو کی خدمت کر رہا ہے۔بڑی حیرت ہوتی تھی۔پھر ایک عرصہ بیت گیا۔لیکن ماہیا اور اس سے جڑی تحریک کارعب اب بھی میرے دل و دماغ کے کسی کونے میں باقی تھا۔مجھے طبعیات،ریاضی اور اردو سے دلچسپی ہے۔نیٹ پر اردو کی سائٹس کی تلاش کے دوران جناب خورشید اقبال صاحب کی ’’اردو دوست ڈاٹ کام‘ ‘سائٹ ہاتھ لگی ۔ یقین جانیے نیٹ پر اس سائٹ کو دیکھ کر میری خوشی اورحیرت کا ٹھکانہ نہ رہا۔حیرت اس لیے ہوئی کہ میں یہ سمجھتاتھا کہ نیٹ پر اردو کے تعلق سے کوئی کام کیوں کر ہوا ہوگا؟اردو والے توعموماً مفاد پرست اور قدامت پسندہوتے ہیں۔پھر مجھے اپنا خیال بدلنا پڑا۔مجھے خوشی ہوئی کہ اردو والے نہ تو مفاد پرست ہیں اور نہ ہی قدامت پسند ۔ بلکہ وہ بھی زمانے کے ساتھ ہیں اور اپنا خوں ِ جگر بالکل مفت جلا رہے ہیں۔’’ارددوست ڈاٹ کام‘‘ سے ہی میرا تعارف ’’جدید ادب ڈاٹ کام‘‘ سے ہوا۔پھر جھٹکا لگا کہ اردو کا ایک مکمل،ضخیم اور معیاری رسالہ اور وہ بھی بالکل مفت آن لائن اور کتابی شکل میں دستیاب ہے۔یہ ہے مختصر سا احوال ’’جدید ادب ‘‘،جرمنی سے شناخت کا۔
میراجیؔ کی سوّیں سال گرہ کے موقع پرجاری کیا گیا’’ جدید ادب ‘‘،جرمنی کا شمارہ نمبر۱۹(جولائی۔دسمبر2012)بحیثیت میراجی ؔ نمبر میرے پیشِ نظر ہے۔ رسالہ کے چھ سو صفحات میراجیؔ کے لیے وقف ہیں۔اس کی دستاویزی حیثیت کا اندازہ ان عنوانات سے ہوتا ہے: (۱)حیدر قریشی کی گفتگو،(۲) میراجی ؔ کے کوائف،(۳)میراجی ؔپر تحقیقی ، تنقیدی اور تخلیقی کام،(۴)میراجیؔ شناسی اور وزیر آغا؛چھ مضامین ، (۵) میراجیؔ کی شخصیت اور شاعری؛سات مضامین،(۶)میراجی ؔ کی تنقید اور ترجمہ نگاری ؛پانچ مضامین ، ( ۷ ) میراجیؔ:نئے لکھنے والوں کی نظر میں؛چودہ مضامین،(۸)میراجی ؔ کی شاعر ی کا انتخاب ، (۹)میراجی ؔ کے انیس گیت ، (۱۰)میراجیؔ کی تیرہ غزلیں ، (۱۱)میراجی کی اسّی نظمیں ،( ۲ ۱ )میراجیؔ کی نثر کا انتخاب،(۱۳) میراجیؔ کو منظوم خراج ِعقیدت[۲۴غزلیںاور۵ نظمیں ] ، (۱۴)مختلف زبانوں میں میراجیؔ کی نظموں کے تراجم [جملہ آٹھ زبانیں : انگریزی ، جرمن ، روسی،ڈچ،اٹالین ،عربی،ترکی ،فارسی] ، (۱۵) انگریزی میں تین مضامین اور آخر میں (۱۶) شمس الرحمٰن فاروقی کا مضمون: میراجیؔ:سو برس کی عمر میں۔
حیدر قریشی کی اردو زبان سے محبت قابل ِ قدراور قابل ِتحسین ہے ۔ اردو زبان کے تئیں آپ کی خدمات کو بھلایا نہیں جا سکتا۔ویسے بھی اردو قوموںکی نہیں انسانوں کی زبان ہے ۔ روس کی اردو ادیبہ ڈاکٹر لڈ میلا وسلٔیسوا نے جناب حیدر قریشی صاحب کے بارے میں لکھا کہ ــ’’مجھے پہلے کی طرح آپ کے کام کی صلاحیت کے معجزے پر حیرت بھی ہے اور صد رشک بھی ۔ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ 24گھنٹوں کو 48گھنٹوں یا اس سے بھی زیادہ کس طرح بنا لیتے ہیں ؟ اگلی ملاقات ہوگی ان شاء اللہ توآپ سے یہ منتر سیکھنے کی کوشش کروں گی۔‘‘ روس کی مذکورہ مشہور و معروف ادیبہ کا یہ اعتراف حیدر قریشی صاحب کے بے لوث و ٹوٹ کر کام کرنے کے جذبہ کو دکھاتا ہے۔
حید ر قریشی صاحب کی جمالیاتی حس غضب کی ہے۔میراجیؔ کی رنگا رنگ شخصیت کو ابھارنے کے لیے آپ نے میراجیؔ کا اتنا ہی دیدہ زیب اور رنگین سر ِ ورق بنایا ہے۔اور میراجی ؔ کی شخصیت و فن کو رنگوں کی زبان میں بیان کرنے کی بہت عمدہ کوشش کی ہے۔ سر ِ ورق پر دیا گیا میراجی ؔ کا شعر ؎
چاند ستارے قید ہیں سارے وقت کے بندی خانے میں
لیکن میں آزاد ہوں ساقی! چھوٹے سے پیمانے میں
ان کی شخصیت کا صحیح ترجمان ہے۔اس محنت کے لیے بھی آپ کو داد دینے کے لیے جی چاہتا ۔ وطن سے دوری کا درد کسے نہیں ستاتا۔میراجی نےؔ تو سب کچھ تج دیا تھا۔پھر اسے یہ درد کیسے نہیں ستاتا !اس نے ڈوب کر اور بہت ڈوب کر نظم ’’مجھے گھر یا دآتا ہے‘‘لکھی۔نظم کی ابتدایوں ہوتی ہے:
’’سمٹ کر کس لیے نقطہ نہیں بنتی زمین؟کہہ دو!
یہ پھیلا آسمان اس وقت کیوں دل کو لبھاتا تھا؟
ہر اک سمت اب انوکھے لوگ ہیں اور ان کی باتیں ہیں
کوئی دل سے پھسل جاتی کوئی سینہ میں چبھ جاتی
انہی باتوں کی لہروں پر بہا جاتا ہے یہ بجرا
جسے ساحل نہیں ملتا‘‘
نظم کا تیسرا حصہ ہے:
’’سمٹ کر کس لیے نقطہ نہیں بنتی زمین،کہہ دو!
وہ کیسی مسکراہٹ تھی ،بہن کی مسکراہٹ تھی
میرا بھائی بھی ہنستا تھا
وہ ہنستا تھا،بہن ہنستی ہے اپنے دل میں کہتی ہے
یہ کیسی بات بھائی نے کہی،دیکھو
وہ امّاں اور ابّا کو ہنسی آئی
مگر یوں وقت بہتا ہے تماشا بن گیا ساحل
مجھے ساحل نہیں ملتا‘‘
اس نظم کا انتخاب بھی بہت معنی خیز ہے۔حیدر قریشی وطن سے دور جرمنی میں سکونت پذیر ہیں۔انہیں بھی اپنے گھر کی یاد آتی ہوگی ۔ انہیں بھی وطن سے دوری کا درد ستاتا ہوگا ۔ لہٰذا احقر کی نظر میںآپ نے میراجیؔ کی زبان میںاپنے اسی درد کی عکاسی اس نظم کو سر ِ ورق کے پیچھے دے کر کی ہے۔میراجی ؔ کی یہ نظم وطن سے دورہر شخص کے دل کی آواز بن گئی ہے۔ اس نظم کی ٹیپ کی سطر ہے ’ مجھے ساحل نہیں ملتا‘۔
میراجی ؔ پر بہت کچھ لکھا گیا لیکن ہمیشہ ان کی متنازعہ شخصیت ابھر کر سامنے آئی اور ان کا فن پیچھے رہ گیا۔شمار ہ میںشامل متذکرہ بالا عنوانات کی فہرست سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس نمبر میں ان کی شخصیت سے زیادہ ان کے فن پر روشنی ڈالی گئی ہے۔اس لحاظ سے یہ نمبر منفرد اور کافی اہم ہو گیا ہے۔ڈاکٹر جمیل جالبی کے مرتب کردہ میراجیؔ کے کوائف اس نمبر میں شامل ہیں۔مصر کے ہانی السعید نے میراجیؔ پر ہوئے تحقیقی ،تنقیدی اور تخلیقی کام کا احوال ِ واقعی پیش کیا ہے۔اس فہرست کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ میراجی ؔ پر سب سے زیادہ کام پاکستان میں ہوا۔ ہندوستان میں کمار پاشی اور ساہتیہ اکادمی،دہلی نے آپ پر کتابیں شائع کیںاور ’شعر و حکمت‘ حیدر آباد،دکن نے میراجی ؔ نمبر نکالا۔اور مغربی زبانوں میں بھی میراجیؔ پر کام ہو ا۔
خطوط کسی شخصیت کے مکان کی کھڑکیاں ہیں۔اس سے اس شخصیت کے مزاج اور فکر کا پتا چلتا ہے۔ شایداسی پیش ِنظر اس نمبر میں میراجیؔ کے نام ن۔م۔راشد کا خط اور میراجی ؔ کے بارے میں اخترالایمان کے خط کو فہرست میں اوّلیت کا مقام دیا گیا ہے۔ان خطوط سے میراجیؔ کی شخصیت اور فن کے بہت سے گوشے سامنے آتے ہیں ۔ مثلاً میراجی ؔکی مشرق و مغرب کے ادب پر گہری نظر تھی۔وہ مغرب کی نقالی کو پسند نہیں کرتے تھے ۔ میراجیؔ کی تنقیدی بصیرت بڑی روشن اور دو ٹوک تھی۔
ڈاکٹر وزیر آغا نے میراجی ؔ شناسی کے ذیل میں بہت کام کیا ہے۔جناب طارق حبیب صاحب نے اپنے مضمون [’’میراجیؔ شناسی‘‘ میں ڈاکٹر وزیر آغا کا حصہ]میں لکھا کہ ڈاکٹر وزیر آغا نے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ نظیر اکبر آبادی،محمد حسین آزاد، الطاف حسین حالیؔ ، اسمٰعیلؔ میرٹھی،چکبستؔ،تلوک چند محرومؔ،محمد اقبالؔ اور ن۔م۔راشدجیسے شعرا کے یہاں دھرتی سے وابستگی کی مثالیں تو ملتی ہیں لیکن دھرتی سے اٹوٹ اور جذباتی ہم آہنگی میراجی ؔکے یہاں اس صورت میں ظاہر ہوتی ہے کہ آپ نے اپنی نظموں میں ہندو دیومالائی عناصر، اساطیر،بدھ مت اور وشنو مت کے ذکر کے ذریعہ اپنی روح کو دھرتی کی روح سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔اسی لیے میراجیؔ کو دھرتی پوجا کا شاعر کہاگیا ہے۔
اس کے بعد میراجیؔ کی شخصیت کے گوناگوںپہلو اور ان کے فن ِ شاعری و نثر نگا ر ی پر مختلف ادیبوں نے بڑی عرق ریزی سے خامہ فرسائی کی ہے۔بعضوں نے ان کی تنقیدی بصیرت و حسّیت پر اظہار ِ خیال کیا ہے۔
جناب حیدر قریشی صاحب کی یہ بڑی کشادہ دلی ہے کہ آپ نے اپنے اس دستاویزی مجلّہ میںمیراجیؔ پر لکھنے والے نئے قلمکاروں کو شامل کر کے ان کی ہمت افزائی کی ہے۔یعنی نئے چراغوں کی تازہ دم روشنی میں میراجیؔ شناسی کے نئے گوشوں کی جویائی کا کام آپ نے انجام دیا ہے۔یقیناًاس قابل ِ قدر اقدام سے میراجیؔ فہمی کے ذیل میں نئے جہانوں کی سیاحی کا سالطف حاصل ہوگا۔اس باب کے تحت اس شمارہ میں جملہ چودہ(۱۴) مضامین شامل ہیں۔جس میں سے دو مضامین خود جناب حیدر قریشی صاحب کے ہیں۔یعنی جناب حیدر قریشی صاحب نے خود کو نئے لکھنے والوں کی فہرست میں رکھا ہے!!یہ بڑی حیرت میں ڈالنے والی بات ہے۔بڑے لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں۔یہ طرز ِعمل شرافت ، سادگی،انکساری وغیرہ پر دال ہے۔جناب معید رشیدی صاحب نے اپنے طویل مضمون میںمیراجیؔ کے ابہام کے سایوں کی جمالیاتی دھوپ چھائوں کوبڑے خوبصورت انداز میں موئے قلم سے مصوّر کیا ہے۔آپ نے کہا کہ ابہام لفظ کے خمیر میں ہے اور یہ مانوس و ناموس کے درمیان کا ایک سلسلہ ہے۔لہٰذا اسی تناظر میں میراجیؔ کو سمجھا جا سکتا ہے۔ جناب قاسم یعقوب صاحب نے بھی میراجی ؔکی نظموں کی چیستانی صورت ِحال پر اظہار ِ خیال کیا ہے ۔ آپ نے لکھا کہ ’میراجیؔ کو پڑھتے ہوئے شدید قسم کے فنّی ابہام کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ‘ (ص۱۸۶)۔اور آگے لکھا کہ’میراجی کو سمجھنے کے لیے ان کی نظموں کو نظم کے دائرے سے نکال کر گیت کے قریب لانا ہوگا۔ نظم ِ میراجی کا سارا Textureگیت کی فضا کے قریب ہے۔وہ گیتوں میں اپنے اہداف کے بہت قریب کھڑے نظر آتے ہیں۔گیت ہی اصل میں ان کے فن کا اظہاریہ ہے۔‘(ص۱۹۳)۔محترمہ ہاجرہ بانو صاحبہ کے مضمون میں اردو زبان کی شیرینی کاسا لطف پایا جاتا ہے۔سید اختر علی (راقم الحروف)نے اپنے مضمون ’میراجیؔ کی نظم ’’سمندر کا بلاوا‘‘اور اس کے رنگ‘میں میراجیؔ کے لفظ اور معنی کے ستون پر ایستادہ خیالات کے پُل کو مجسّم کرنے کی کوشش کی ہے۔
میراجیؔ کی مقبولیت کا اندازہ ان کو پیش کیے گئے منظوم خراج ِ عقیدت سے بھی ہوتا ہے۔شمارہ میں شامل چوبیس(۲۴) غزلیں اور پانچ(۵) نظمیں اس بات کی شاہد ہیں۔ان غزلوں میں سے چند اشعار پیش ِ خدمت ہیں:
ایک تھا جوگی سدھ بدھ اپنی رفتہ رفتہ بھول گیا
عشق میں ایسا ڈوب گیا وہ نام ہی اپنا بھول گیا
(افضل چوہان،ص۴۸۴)
میراجی کی غزلیں نظمیں ہیں برجستہ افضل جی
جب بھی پڑھنے بیٹھا ہوں میں اپنا لکھا بھول گیا
(افضل چوہان،ص۴۸۴)
مجھے حیدرؔ نے دکھائی یہ زمیں میراجیؔ
مرے اقبال میں اس کی بھی خطا شامل ہے
(ڈاکٹر ریاض اکبر،ص۴۸۰)
کچھ تو خبر لے ،نقش ِ پا کا یونہی ساتھ نبھانے میں
کتنی سانسیں ٹوٹ چکی ہیں تیرے آنے جانے میں
(وسیم فرحت کارنجوی،ص۴۸۸)
شمارہ کے آخر میں ’’انتظاریہ‘‘کے تحت جناب شمس الرحمٰن فاروقی صاحب کا مضمون ’’میراجیؔ:سو برس کی عمر میں‘‘ شامل ہے۔یہ مضمون میراجیؔ سے محبت رکھنے والوں کے لیے واقعتاً ’انتظاریہ ‘ہی ہے۔کیونکہ اس مضمون میں میراجیؔ کی شخصیت اور ان کے فن کے تعلق سے ان کے ہم عصر ادیب و شعرا ء و بعد کے ادیب و شعراء کی آراء کا اجمالی یا تفصیلی ذکر آگیا ہے۔جناب شمس الرحمٰن فاروقی صاحب نے لکھا کہ محمد حسن عسکری صاحب وہ واحد خاکہ نگار ہیں جنھوں نے میراجیؔ کی شخصیت کے متنازعہ پہلوئوں سے پہلو تہی کرتے ہوئے ان کے فن کے گوشوں کو زیادہ اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔
بہر حال اردو دنیا میں’ جدید ادب ‘کا یہ شمارہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔اور شمارہ کے بیک کَوَر کے اندر دیے گئے میراجیؔ کے ’گیت‘ کے آخری سطور
رات نئی،رات نئی،
رات نئی اب آئے گی
چندر ماں کو ساتھ لائے گی
نور کی ندی بہہ نکلے گی ایسا رنگ جمائے گی۔
کے مصداق یہ شمارہ بھی خوب رنگ جمائے گااور اس سے پاکیزہ نور ِ ادب چہار سو پھیل جائے گا۔==