(Last Updated On: )
ان دنوں ہندوستان میں آزادی کا امرت مہوتسو منایا جا رہا ہے جس کا مقصد ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے ان جانبازوں کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے جن کے لہو سے لفظ آزادی لکھا جا سکا۔ہم نے آزاد ہندوستان میں آنکھ کھولی اور اپنے بزرگوں سے جنگ آزادی کے قصے سنے۔ہمارے بعد کے لوگوں کو قصہ سنانے والے بھی اب نہیں رہے۔اس صورت حال سے نمٹنے کا کتابیں بہترین ذریعہ ہیں۔افسوس کہ آزادی کی جنگ میں والہانہ کود پڑنے والوں کا ہمارے پاس کوئی مستند ریکارڈ موجود نہیں ہے۔جس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ زمینی لڑائی لڑنے والوں نے سر سے کفن باندھ رکھا تھا۔ان کے گھر سے باہر نکل جانے کے بعدان کے اہل خانہ پر کیا گذری ، کسے خبر ۔آزادی کے متوالے تو پھانسی کے تختوں کی نذر ہوئے یا توپوں کی آتش ان کے جسم و جان سے فرو کی گئی۔ایک ہی وقت اور ایک ہی موقعے پر ہزارہا ہزار جانیں تلف ہو گئیں۔ ان کے اہل خانہ پیٹ کی روٹی اور سر کی چھت کو ترس گئے۔ایسے سنگین حالات میں بھلا شہید ہونے والوں کا حساب کون رکھتا۔آزادی حاصل ہو جانے کے بعد آج بھی ا ن مجاہدین کی نسلیںاپنی بود و باش کے لئے تگ و دو کر رہی ہیں۔
مسلم مجاہدین آزادی کے تعلق سے گذشتہ دنوں ایک معلوماتی کتاب ـ’لہو بولتا بھی ہے‘ منظر عام پر آئی جسے سید شاہ نواز قادری اور کرشن کلکی نے مل کر لکھا۔یہ کتاب ۲۰۱۸ء میں لوک بندھو راج نرائن کے ٹرسٹ نے شائع کی۔اس پر سابق چیف جسٹس راجیندر سچر کا مقدمہ اور عبید اللہ خان اعظمی صاحب کے پیش لفظ کے ساتھ ہی مولانا محمدافروز قادری، رگھو ٹھاکر ، پروفیسر راج کمار جین ، سید نصیر احمد، سید شاہ نواز احمد قادری اور کرشن کلکی کے خیالات درج ہیں۔یہ کتاب ہندی اردو دونوں زبانوںمیں شائع ہوئی۔ اس کے ہندی ایڈیشن کی رسم اجراء کے بعد اردو روزنامہ آگ کے سنڈے میگزین ، ہندی روزنامہ یگ جاگرن اور سوتنتر بھارت نیوز پورٹل نے قسط وار اس کے مضامین شائع کئے۔اس کتاب میں ۱۷۶۸؍ مجاہدین آزادی کا تذکرہ ہے جن میں ۴۳ ؍ خواتین اور ۱۷۲۵؍ مرد ہیں۔جنگ آزادی میں مسلم خواتین کی حصے داری کی جستجو میں پروفیسر عابدہ سمیع الدین کی کتاب ’ہندوستان کی جنگ آزادی میں مسلم خواتین کا حصہ ‘ بھی معاون ثابت ہوتی ہے۔یہ کتاب ۱۹۹۰ء میں ادارۂ تحقیقات اردو ، پٹنہ سے شائع ہوئی ۔اس کتاب میں ان تمام خواتین کا ذکر موجود ہے جن کے نام ’ لہو بولتا بھی ہے ‘ میں درج ہیں۔پروفیسر عابدہ سمیع الدین کی دوسری کتابیں ’قومی محاذ آزادی اور یو پی کے مسلمان صحافی، قومی محاذ آزادی اور مسلم شعرائے اتّر پردیش، قومی محاذ آزادی اور یو پی کے مسلمان وغیرہ ہیں ۔ اس طرح کی دیگر کتابیں بھی لکھی گئیں مگر مجاہدین آزادی کے اعداد و شمار دیکھتے ہوئے ناکافی ہیں۔آزادی کا امرت مہوتسو وہ موقعہ ہے جب ہمیں مجاہدین آزادی کی زندگی سے متعلق اطلاعات فراہم کرنے کی جانب کام کر نے کے ساتھ ہی جتنی معلومات دستیاب ہیں انھیں آزادی کے امرت مہوتسو سے منسلک کر دینا چاہئے۔
’لہو بولتا بھی ہے ‘ میں جن خواتین کے حالات درج کئے گئے ہیں ان میں سے زیادہ تر قد آور سیاسی رہنمائوں کے اہل خانہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ انھیں کے درمیان کچھ بالکل عام سی خواتین کے کارنامے درج ہیں جو چونکانے والے ہیں اورساتھ ہی ہمیں طشت میں سجا کر مل گئی آزادی کے بارے میں پلٹ کر سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہ تمام خواتین بیسویں صدی کے ہندوستان میں علمی ، سماجی ، تعلیمی اور سیاسی میدان کی جانباز ، سرگرم اور بے خوف حصے دار تھیں۔انھوں نے عام گھریلو خواتین میں سیاسی اور سماجی بیداری پیدا کی۔ان کی جاں فشانی کو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پروفیسر عابدہ سمیع الدین کی کتاب کا آغاز مندرجہ ذیل شعر سے ہوتا ہے جو قابل غور ہے :
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نےوہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے
اسی شعر سے’ لہو بولتا بھی ہے ‘کی شروعات ہوتی ہے اور مسلم خواتین کے زیر سب سے پہلے سبز پوش خاتون کا نام آتا ہے جو پردہ پوش ہونے کے باوجود مردانہ جنگی لباس پہن کر کبھی پیدل تو کبھی گھوڑے پر سوار ہو کر ایک پلٹن کی قیادت کرتی تھیں ساتھ ہی تلوار اور بندوق چلانے میں ماہر تھیں ۔ان کا اصل نام و پتہ معلوم نہیں۔ہاں انگریزوں سے لڑتے ہوئے گرفتار ہوئیں ۔ قید کی گئیں اور پھر ان کی کوئی خبر نہیں لگی۔اصغری بیگم کا تعلق مظفر نگر سے تھا ۔ ۱۸۵۷ء میں وہ انگریزی فوج سے مزاحمت کے جرم میںگرفتار ہوئیں اور زندہ جلا دی گئیں۔ان کے ساتھ رحیمی بیگم تھیں جنھیں گرفتار کر پھانسی دے دی گئی۔مائی بختاور ایک سندھی کسان کی بیٹی تھیں۔آپ جنگ آزادی کے لئے عورتوں کا حوصلہ بڑھاتی تھیں۔۱۹۴۶ء کی بات ہے جب زمینداروں نے لاشاری کے کسانوں کے اناج پر زبردستی قبضہ کرنا چاہا تو گائوں والوں کے ساتھ مل کر آپ نے بڑی بہادری سے ان کا مقابلہ کیا ۔پولیس نے نہتھے کسانوں پر فائرنگ کی جس میں ۲۴ ؍ جون ۱۹۴۶ء کو آپ شہید ہو گئیں۔ آخری وقت میں آپ نے کہا کہ دیکھو کسی بھی طرح وہ ہمارے اناج کو لے جانے میں کامیاب نہ ہونے پائیں۔مائی بختاور کی زندگی پر ۱۹۶۷ء میں ایک ڈراما بھی لکھا گیا۔ کلکتہ کی ماجدہ حسینہ بیگم پسماندہ طبقے کے حقوق کی لڑائی لڑ رہی تھیں۔آپ جنگ آزادی کے جلسوں میں بڑی تعداد میںخواتین کو ساتھ لے کر شامل ہوتی تھیں۔ترک موالات تحریک کا ساتھ دینے کی پاداش میں آپ تین ماہ تک جیل میں رہیں۔بیگم خورشید خواجہ نے الہٰ آباد میں بچیوں کی تعلیم کے لئے حمیدیہ اسکول قائم کیا تو وہیں جنگ آزادی میںالہ آباد میں ہی در بدر ہونے والی کنیز فاطمہ مجیب نے نہ فقط خود مدرسے میں تعلیم حاصل کی بلکہ گلی محلے کی لڑکیوں کو اپنے چھوٹے سے کرائے کے گھر میں بلا کر قرآن پڑھایا ۔انھیںا مور خانہ داری سکھائے۔ اس کے ساتھ ہی سلائی کڑھائی سکھائی جس کی بدولت وہ لڑکیاں اس مشکل وقت میں کچھ پیسے کما کر اپنا گھر چلانے کے قابل ہوئیں کیونکہ ان کے گھر کے مرد جیلوں میں زندگی گذار رہے تھے۔کنیز فاطمہ مجیب کو سب باجی کہتے تھے۔ان کا ذکر یہاں ضمناً آ گیا ۔’لہو بولتا بھی ہے ‘ میں یہ شامل نہیں ہیں۔حبیبہ خاتون مظفر نگر کے گوجر خاندان میں ۱۸۳۳ء میں پیدا ہوئی تھیں۔وہاں لڑکیوں کو باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔حبیبہ کے گائوں کے راستے انگریزفوجی گذرا کرتے تھے۔ایک دن ان لوگوں نے کچھ نوجوانوں کا پیچھا کیا۔وہ لوگ حبیبہ کے گائوں میں چھپ گئے۔انگریز فوجیں گائوں میں داخل ہونے والی تھیں کہ حبیبہ نے اپنی دو سہیلیوں کی مدد سے سڑک پر پیڑ گرا کر آگ لگا دی جس کی وجہ سے فوجی گھوڑے آگے نہ بڑھ سکے ۔ادھرموقعہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نوجوان مجاہدین کسی محفوظ جگہ پر چلے گئے۔ انگریزوں سے اس مزاحمت کے لئے حبیبہ گرفتار کر لی گئیں ۔انھیں جیل بھیجا گیا اور دسمبر ۱۸۵۷ء میں انھیں پھانسی دے دی گئی۔ اننت ناگ کی فریضہ خاتون ۱۳؍ جولائی ۱۹۳۱ء کو پولیس فائرنگ میں شہید ہو گئیں۔یہیں ساجدہ بانو جو مجاہدین کے ساتھ کام کر رہی تھیں ، مجاہدین کی لاشیں دیکھ کر تاب نہ لا سکیں اور دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہوئیں۔
’لہو بولتا بھی ہے ‘ میں بطور نمونہ ان خواتین کا ذکر کیا گیا ہے جو اپنے گھر میں ڈری سہمی بھلے ہی رہی ہوں مگر جب مادر وطن کی آن پر بن آئی تو انھوں نے بھی اپنی جان قربان کر دی۔علاوہ ان کے ان خواتین نے زبردست حصہ داری نبھائی جو متمول گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں اور جن کے افراد خانہ براہ راست سیاست اور جنگ آزادی کے منصوبوں سے جڑے ہوئے تھے۔ان کا ذکر وقتاً فوقتاً کیا جاتا رہاہے جیسے امجدی بیگم زوجہ محمد علی جوہر، سعادت بانو کچلو، زلیخا بیگم، خدیجہ بیگم، زبیدہ بیگم دائودی، کنیز سیدہ بیگم، عصمت آراابیگم، بی بی امۃ الاسلام، آمنہ قریشی، امینہ طیب جی، صوفیہ سوم، بیگم سکینہ لقمانی، شفاعت النساء بی بی، بیگم ماجدہ بانو، بیگم کلثوم سیانی، فاطمہ اسمٰعیل، بیگم سلطانہ حیات انصاری، بیگم صفیہ عبد الواحد، ہاجرہ زیڈ احمد، زہرہ انصاری، فاطمہ بیگم، بیگم خورشید خواجہ، نشاط النساء بیگم، منیرہ بیگم، بی اماں یعنی آبادی بانو بیگم، ریحانہ طیب جی، اکبری بیگم ، زاہدہ خاتون شیروانی، صغریٰ خاتون، عزیزن بائی، ارونا آصف علی، ثریا طیب جی ، انیسہ بیگم قدوائی اور رضیہ خاتون وغیرہ۔ان میں بیگم حضرت محل، فاطمہ شیخ اور بیگم رقیہ سخاوت حسین جیسی شخصیات شامل نہیں ہو سکی ہیں۔الغرض یہ چندمسلم خواتین کے نام ہیں جنھوں نے سامنے آ کر انگریزوں کا مقابلہ کیا۔ایسی خواتین ہر گلی ہر محلے میں رہی ہوں گی۔ہمیں ان کے حالات دنیا کے سامنے لانے ہوں گے۔یہی ان جانباز خواتین کے لئے ہمارا ادنیٰ سا خراج عقیدت ہوگا۔