جیک دی رپر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ Jack the Ripper
جدید سائنس نے سو سال پرانے معمے کو حل کردیا۔
نا معلوم قاتل جس نے سو سال پہلے لندن کی خواتین میں دہشت پھیلا رکھی تھی لیکن پکڑا نہیں جا سکا!!
دنیا کی تاریخ میں ایسے کئی پراسرار افراد کا ذکر ملتا ہے جن کی حقیقت آج تک ایک راز ہے یہ اشخاص بغیر کسی شناخت کے دنیا کے سامنے آتے ہیں' تاریخ میں جگہ بناتے ہیں اور پھر اچانک غائب ہوجاتے ہیں٬ ان کے بارے میں کوئی نہیں جانتا کہ وہ کون تھے؟ اور کہاں سے آئے؟ اور کہاں چلے گئے؟
انہیں پُراسرار لوگوں میں سے ایک نام ہے ۔
Jack the Ripper
۔جیک دی رپر
(Jack the Ripper)
برطانیہ میں سامنے آنے والے اس مشہور زمانہ قاتل نے 1888ء تا 1891ء لندن میں دہشت پھیلائے رکھی اور کم از کم گیارہ عورتوں کو مار ڈالا۔ اس نے جس وحشیانہ و بہیمانہ انداز میں عورتوں کو قتل کیا، اس سے پتا چلتا ہے کہ وہ ذہنی طور پہ شائد بیمار تھا۔جیک دی رپر پہلے اپنی شکار کی بے حرمتی کرتا، پھر اس کا گلا کاٹتا، بعدازاں پیٹ پھاڑ کر اندرونی اعضا مثلاً دل، گردے، پھیپھڑے وغیرہ نکال ڈالتا اور فرار ہوجاتا۔سبھی قتل لندن کے علاقے، وائٹ چیپل
(Whitechapel district)
میں انجام پائے۔
1891ء کے بعد جیک دی رپر غائب ہوگیا۔جس طرح وہ اچانک نمودار ہوا تھا،اسی طرح یکایک منظر عام سے غائب ہو گیا۔ لندن پولیس اگلے کئی برس تک سرتوڑ کوشش کرتی رہی کہ کسی بھی طرح قاتل کی اصلیت جان لے، مگر اسے ناکامی ہوئی۔ دوران تفتیش کئی لوگوں پہ شک کیا گیا،مگر کسی پہ الزامات ثابت نہیں ہو سکے۔
رفتہ رفتہ قاتل کا عرف جو اخبارات نے اس کو نام دیا تھا یعنی ’’جیک دی رپر‘‘ بین الاقوامی شہرت حاصل کرگیا۔ اس پُراسرار کردار پر کئی فلمیں بنیں اور سیکڑوں جاسوسی ناول بھی لکھے گئے۔
ایرک ماریا ریمراک
(Erich Maria Remarque)
مشہور جرمن ناول نگار گزرا ہے۔ اس کے ایک ناول ’’آل کوائٹ آن دی ویسٹرن فرنٹ‘‘ کی بنیاد پر اسی نام کی مشہور جنگی فلم بنائی گئی۔ ریمراک انسانی نفسیات کی باریکیوں کا نباض تھا۔ اس کا قول ہے:’’ انسانی فطرت بہت پُراسرار ہے۔ یہ اسی وقت اپنے اصل روپ میں آشکارا ہوتی ہے جب انسان پر حاوی ہو جاتی ہے۔‘‘
یہ قول بڑامعنی خیز ہے۔ وجہ یہ کہ انسانی فطرت خیر اور شر کا مجموعہ ہے۔ فطرت اگر انسان کے کنٹرول میں رہے، تو عام طور پہ خیر کا پلّہ بھاری رہتا ہے۔ لیکن اگر فطرت انسان پر غلبہ پالے، تو فطرت کا منفی رخ یعنی شر اس پر حاوی ہوجاتا ہے۔ ایسا انسان پھر حیوان بن کے ہر قسم کا جرم اور گناہ کر بیٹھتا ہے۔ یہی کچھ اس جیک دی رپر کے ساتھ ہوا ہوگا۔
چند سال پہلے ایک شوقیہ جاسوس "رسل ایڈورڈز" نے انکشاف کیا تھا کہ اس نے یہ معمہ حل کرلیا ہے۔ اور اس وقت کا ایک یہودی نائی، ہارون کوسمنسکی
(Aaron Kosminski)
حقیقی جیک دی رپر تھا۔یہ شخص مشکوک افراد کی فہرست میں شامل بھی تھا۔بلکہ لندن پولیس کے اسسٹنٹ چیف کانسٹیبل، سر میلویل میکنٹن
(Sir Melville Macnaghten)
نے اپنے ایک میمو میں اسے ہی قتال کا ذمے دار بھی ٹھہرایا تھا۔لیکن ثبوت ناکافی ہونے کی وجہ سے اس کو گرفتار نہیں کیا جاسکا۔
ہوا یہ کہ جیک دی رپر کی ایک مقتولہ، کیتھرین ایڈوز
(Catherine Eddowes)
کے قریب سے خون آلودہ شال ملی۔ اپنے افسر کی اجازت سے سارجنٹ آموس نے وہ شال اپنے پاس رکھ لی۔ اس کی بیوی درزن تھی۔ اسی دوران جیک دی رپر مشہور شخصیت بن گیا۔ چناں چہ سارجنٹ آموس نے شال بغیر دھوئے بطور نشانی اپنے پاس رکھ لی۔
یہ شال پھراس کے وارثوں نے بھی سنبھال کر رکھی۔ 2007ء میں برطانوی تاجر اور شوقیہ جاسوس، رسل ایڈورڈز
Russell) (Edwards
نے سارجنٹ آموس کے وارث، ڈیوڈ میلویل
(David Melville-Hayes)
سے یہ شال منہ مانگے دام دے کر خرید لی۔
رسل ایڈورڈز بچپن سے جیک دی رپر کیس کا شیدائی تھا۔ اس کی شدید تمنا تھی کہ وہ کسی طرح سیکڑوں برس پرانا یہ معّمہ حل کردے کہ جیک دی رپر آخر کون شخص تھا! جب اسے شال کے متعلق علم ہوا، تو رسل کو خیال آیا، ہوسکتا ہے کہ اس پر قاتل کا ڈی این اے بھی مل جائے۔ چنانچہ رسل نے شال خریدلی۔
اس نے پھر شال ڈاکٹر جاری لوہیلینین (Dr Jari Louhelainen) کے حوالے کر دی۔ ڈاکٹر جاری ایک جینیات داں ہے۔ وہ قدیم جائے واردات سے جینیاتی شہادتیں اکٹھی اور ان کا تجزیہ کرنے میں عالمی شہرت رکھتا ہے۔
ڈاکٹر جاری نے جدید ترین آلات سے سوا سو سال پرانی شال کا معائنہ کیا۔ اور واقعی انہیں اس پر سے دو انسانوں کا ڈی این اے مل گیا۔ وہ اپنے خصوصی آلات کی مدد سے دونوں ڈی این اے کے نمونے حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
اب کیتھرین ایڈوز اور ان لوگوں کے وارثوں کی تلاش شروع ہوئی جن پہ پولیس کو شک تھا کہ وہ جیک دی رپر ہو سکتے ہیں۔ ان کی کھوج میں چار برس بیت گئے۔ کیتھرین ایڈوز کے وارث پہلے سامنے آئے۔ اسی رسل نے ہارون کوسمنسکی کی بہن، مٹلیڈا کے وارثوں کو بھی ڈھونڈ نکالا۔
جب مٹلیڈا کے وارث کا ڈی این اے شال والے ایک ڈی این اے سے ملایا گیا تو دونوں ’’100 فیصد‘‘ مماثل نکلے۔ یوں جدید سائنس نے سوا سو برس قدیم عالمی شہرت یافتہ معّمہ حل کردیا۔ شال کا دوسرا ڈی این اے کیتھرین کے وارثوں سے میچ کرگیا۔اس طرح حقیقی جیک دی رپر دنیا والوں کے سامنے آگیا۔
ہارون کوسمنسکی 1865ء میں پولینڈ میں پیدا ہوا۔ اس کا یہودی باپ درزی تھا۔ 1881ء میں والدین کے ساتھ لندن، برطانیہ چلا آیا اور بہ حیثیت نائی کام کرنے لگا۔ وہ شروع سے نفسیاتی مریض تھا۔ کئی کئی ماہ نہ نہاتا۔اسے کھانے کی گری ہوئی چیزیں کھانے کا خبط تھا۔ خود لذتی کا اتنا زیادہ شکار تھا کہ اسی عادت نے اسے دیوانہ بنادیا۔ خیال ہے کہ دیوانگی کی اسی حالت میں اس نے عورتوں کو نشانہ بنایا۔
فروری 1891ء میں اسے پاگل خانے داخل کرایا گیا۔ اس کے فوراً بعد لندن کے علاقے، وائٹ چیپل میں قتال کا سلسلہ رک گیا۔ کوسمنسکی کی پوری زندگی پھر پاگل خانے ہی میں گزری۔ دور جدید کے ماہرین طب کا خیال ہے کہ وہ شیزوفرینیا کا مریض تھا۔ انسانی تاریخ کا یہ خوفناک قاتل مارچ 1919ء کو چل بسا۔
بشکریہ:
https://www.express.pk/story/292905/
https://www.facebook.com/sana.u.khan.733/posts/10208526620023445