جابر بن حیان بریانی والا
میری پریشانی عروج کو پہنچی ہوئی تھی۔ سوچا پروفیسر صاحب سے ڈسکس کرتے ہیں۔ اگرچہ پروفیسر صاحب انتہائی احمقانہ اوربونگی دلیلیں گھڑتے ہیں لیکن پھر بھی پتا نہیں کیوں میں بلاوجہ ان کی طرف دوڑا چلا آتا ہوں۔ میرے چہرے پر تذبذب دیکھ کر پروفیسرصاحب مسکرائے۔ ان کی یہ مسکراہٹ مجھے زہر لگتی ہے۔ دنیا کے ہر بندے کو کوئی نہ کوئی مسئلہ ہے، یقیناًپروفیسر صاحب کو بھی ہوگا بلکہ ہونا چاہیے لیکن حرام ہے جو وہ چہرے سے ظاہر ہونے دیں۔ ایسا لگتا ہے کرائے کے گھر میں چالیس سال پرانے سکوٹر کے ساتھ انتہائی خوشگوار زندگی بسر کر رہے ہیں۔میں نے کبھی انہیں کسی فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ میں بھی نہیں دیکھا‘ ڈرائنگ روم کے صوفے اتنے پرانے ہیں کہ کبھی کبھی شک ہونے لگتا ہے کہ پروفیسر صاحب کی دادی جان جہیز میں لائی ہوں گی۔ خیر۔۔۔میں نے بے چینی سے سوال کیا’’پروفیسر صاحب! آپ نے ٹی وی چینل دیکھے ہیں؟‘‘۔ انہوں نے اثبات میں سرہلایا’’روز دیکھتا ہوں‘‘۔ میں نے سرکھجایا’’تو پھر آپ یہ بھی دیکھتے ہوں گے کہ فحاشی کتنی بڑھ گئی ہے، اشتہاروں میں جوان لڑکیاں ناچتی پھرتی ہیں‘ ڈراموں میں ٹائٹ لباس پہنے خواتین نظر آتی ہیں‘ انتہائی ہولناک اور نازک موضوعات پر ڈرامے دکھائے جارہے ہیں۔ رشتوں کا کوئی تقدس ہی نہیں۔اور پھر دیکھئے کئی چینلز پر پانچ وقت کی اذان بھی نشر نہیں کی جاتی۔ ‘‘ پروفیسر صاحب نے عینک درست کی’’تم کبھی بینک گئے ہو؟‘‘۔ میں گڑبڑا گیا’’جی ۔۔۔گیا ہوں لیکن اس کا میرے سوال سے کیا تعلق؟‘‘۔
’’بہت گہرا تعلق ہے۔۔۔کیا بینک میں اذان ہوتی ہے؟‘‘۔ میں نے آنکھیں پھا ڑیں’’بینک کا اذان سے کیا تعلق‘ اذان تو مسجد میں ہوتی ہے ‘‘۔ پروفیسر صاحب نے جواب دینے کی بجائے کندھے اچکا دیے۔ میرا خون کھول اٹھا‘ بات میری سمجھ میں آگئی تھی۔ ’’یعنی آپ کا مطلب ہے کہ اذان صرف مسجد میں ہی ہونی چاہیے؟۔۔۔چلیں اس مسئلے کو چھوڑیں ‘ وہ جو میں نے فحاشی والی بات کی ہے اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟‘‘۔ پروفیسر صاحب نے سگریٹ سلگائی۔’’کیا تم چاہتے ہو کہ ایسے ڈرامے نشر کیے جائیں جو بہرحال فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھے جاسکیں‘ ان میں لباس کا خاص خیال رکھا جائے‘ گفتگو میں کوئی نامعقول لفظ استعمال نہ ہو۔‘‘ میں نے ٹیبل پر ہاتھ مارا’’بالکل ۔۔۔آپ صحیح پہنچے ہیں۔‘‘ انہوں نے کچھ دیر سوچا ‘ پھر گہرا کش لیا’’تو کیا ایسے بورنگ ڈرامے تم دیکھنا پسند کروگے؟‘‘۔ میں نے اپنا سر پکڑ لیا’’پروفیسر صاحب میں تو ترس رہا ہوں کہ کوئی چینل تو صاف ستھرا ڈرامہ دکھائے‘ میں سب کچھ چھوڑ کر صرف وہی چینل ٹیون کرلوں گا‘ باقی کوئی چینل نہیں دیکھوں گا‘ لیکن یقین کیجئے ایسا چینل ڈھونڈے سے بھی نہیں مل رہا۔‘‘پروفیسر صاحب ہمیشہ کی طرح مکارانہ انداز میں مسکرائے’’اگر ایسی بات ہے تو سمجھو تمہاری مشکل حل ہوگئی ‘ایساایک چینل موجود ہے۔‘‘’’کون سا؟‘‘ میں چونکا۔۔۔!!!
’’ سرکاری ٹی وی ‘‘۔پروفیسر صاحب نے گویا دھماکا کیا اورمیرے حلق سے چیخ نکل گئی’’لاحول ولا قوۃ۔۔۔یعنی آپ کا مطلب ہے ۔۔۔یعنی اب ہم۔۔۔گویا کہ ۔۔۔خیر چھوڑیں!یہ بتائیں کہ یہ ملک صحیح معنوں میں اسلامی ملک کیسے بنے گا؟‘‘ اب کی بار پروفیسر صاحب چونکے’’کیا مطلب؟ یہ اسلامی ملک ہی تو ہے۔‘‘ میں نے منہ بنایا’’صرف نام کی حد تک‘‘۔ پروفیسر صاحب آگے کو جھکے’’تم کبھی مسجد گئے ہو ‘ نماز پڑھنے؟‘‘میں گڑبڑا گیا’’ہاںآں۔۔۔کئی دفعہ ‘ لیکن آپ نے یہ کیوں پوچھا؟‘‘ وہ غور سے میری طرف دیکھتے ہوئے بولے’’تمہیں کبھی کسی نے مسجد جانے سے منع کیا؟ عید کے موقع پر عید گاہ جانے سے منع کیا؟ ہر اسلامی تہوار یہاں جوش و خروش سے منایا جاتا ہے‘ زکوٰۃ خیرات کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے‘ ابھی پیچھے رمضان گذرا ہے ‘ ہر گلی محلے میں روزہ داروں کے لیے انواع و اقسام کی مفت افطاریوں کا اہتمام کیا گیا‘ تمہیں روزے رکھنے سے کوئی نہیں روکتا‘مساجد اتنی زیادہ ہیں کہ ہر اذان کے وقت چاروں طرف سے اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہورہی ہوتی ہیں۔ہر گھر میں قرآن پاک موجود ہے۔ بچوں کو قرآن پاک کی تعلیم دینے کے لیے بڑی آسانی سے قاری یا قاریہ دستیاب ہیں۔ہر پیدا ہونے والے مسلمان بچے کے کان میں اذان دی جاتی ہے۔عقیقہ کرنے سے کوئی نہیں روکتا۔ نکاح پڑھے جاتے ہیں‘ جنازے پڑھے جاتے ہیں۔ قبرستانوں میں فاتحہ خوانی سے کوئی نہیں روکتا‘دن رات عمرے پر جانے والوں کا رش لگا رہتا ہے‘ حج پر جانے والوں کی درخواستیں تعداد سے بھی زیادہ موصول ہوتی ہیں۔بزرگان دین کے مزارات پر دن رات چراغاں ہوتاہے‘ لنگر بانٹا جاتاہے‘ ہر فرقہ کے ماننے والے اپنے اپنے مطابق عبادات کرتے ہیں‘ اُ ن کے الگ الگ ٹی وی چینلز ہیں‘ ویب سائٹس ہیں‘جگہ جگہ تسبیح‘ ٹوپیاں‘ جائے نماز اور اسلامی کتب فروخت ہوتی ہیں۔ختم نبوتﷺ پر ہر مسلک کا مکمل ایمان ہے۔جا بجا درود اور نعت خوانی کی محافل ہوتی ہیں‘ اخبارات میں اسلامی مضامین شائع ہوتے ہیں‘ دینی سوالات کے جوابات دیے جاتے ہیں‘ حفاظ کرام کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ دینی مدارس ہیں‘ ملنے جلنے والے ایک دوسرے سے السلام علیکم کہتے ہیں۔قرآن خوانی کا اہتمام ہوتا ہے۔۔۔پھر تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو کہ اس ملک میں اسلامی نظام نہیں؟‘‘۔۔۔میں نے دانت پیسے’’حضورِ والا! یہ جو ملاوٹ ہوتی ہے‘ یہ جو چور بازاری ہے‘ یہ جو غیبت کا بازار گرم ہے، یہ جو ہم فیس بک اور ٹوئٹر کے اسیر ہوکر رہ گئے ہیں۔۔۔کیا یہ ٹھیک ہے؟‘‘۔ پروفیسر صاحب اطمینان سے بولے’’تو چھوڑ دو۔۔۔اس حوالے سے بھی تم پر کوئی قدغن نہیں۔۔۔ویسے کیا وجہ ہے کہ ایک ایسا معاشرہ جہاں اسلامی تعلیمات کی کھلی آزادی ہے‘ جہاں اسلام کے حوالے سے اتنا کچھ کیا جارہا ہے‘ روزانہ کروڑوں لوگ دُعائیں کرتے ہیں‘ یہ کیوں نہیں قبول ہورہیں؟حالانکہ اپنے تئیں تو ہم اسلام کا قلعہ ہیں۔لاکھوں لوگ مدرسوں سے فارغ التحصیل ہوئے۔۔۔کہاں گئے؟ معاشرے میں ان کا اثر نظر کیوں نہیں آتا؟اسی طرح لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگ نمازیں ادا کرتے ہیں لیکن عملی زندگی میں خدا سے کیا گیا اُن کا وعدہ کہیں دکھائی کیوں نہیں دیتا؟ چلو میں تم سے ایک سوال کرتا ہوں‘ تم نے شب برات پر کسی سے معافی مانگی؟‘‘۔ میں نے سینہ پھلایا’’جی ہاں۔۔۔میں نے اپنے بیوی بچوں سے‘ دوستوں سے اور ہمسائیوں سے معافی مانگی‘‘۔ پروفیسر صاحب کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی’’اور وہ جو تمہاری اپنی خالہ کے بیٹے سے شدید لڑائی ہوئی تھی؟‘‘۔ میں پھٹ پڑا’’اُس سے میں کیوں معافی مانگوں‘ قصور اُس کا تھا‘ وہ معافی مانگتا‘‘۔ پروفیسر صاحب نے سگریٹ کی راکھ ایش ٹرے میں پھینکی’’گویا تم نے اُن سے معافی مانگی جو پہلے ہی تم سے راضی تھے‘ ‘۔پروفیسر صاحب کی باتیں ناقابل برداشت ہوتی جارہی تھیں لہذا میں نے بمشکل خود پر قابو پاتے ہوئے آخری سوال پوچھا’’یہ بتائیں کہ کیا اس وقت ساری دنیا مسلمان سائنسدانوں کے دریافت کردہ علم کی بدولت ترقی نہیں کر رہی؟‘‘۔ انہوں نے لمباسا آخری کش لیااور بولے’’جابربن حیان کو جانتے ہو؟‘‘۔ میں نے کچھ دیر دماغ پر زور دیا اور پھر مجھے یاد آگیا’’ہاں ہاں ۔۔۔جانتا ہوں ‘ اچھی طرح جانتا ہوں۔۔۔وہی ناں جس کی بریانی بڑی مشہور ہے۔۔۔‘‘ پروفیسر صاحب نے سرہلایا ’’بالکل وہی ‘‘۔۔۔اور سگریٹ ایش ٹرے میں مسل دیا۔۔۔!!!
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“