بال اس کے کھچڑی تھے۔ جُھریوں نے رخساروں پر کام شروع کر دیا تھا۔ ہم ریل کار کے اے سی پارلر میں اس میز کے گرد بیٹھے تھے جو درمیان میں ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ دو بچے تھے۔ ایک دس سال کی بچی۔ ایک چھ سال کا بچہ۔ وہ خود ایک کتاب پڑھ رہا تھا۔ دونوں بچے اپنی اپنی سٹوری بک میں محو تھے۔ میں اخبار چاٹ چکا تھا اور باہر دیکھ رہا تھا۔ کھیت مکان درخت مویشی نہریں گزرے جا رہے تھے۔ قدرت کے تخلیق کردہ۔
حسن کو انسان نے اپنی پیدا کردہ آلودگی کے ساتھ خوب مکس کیا تھا۔ لہلہاتے کھیت اور ساتھ ہی کوڑے کے ڈھیر۔ کیچڑ میں لپٹے ننگ دھڑنگ، نیم برہنہ بچے جن کے والدین اینٹوں کے بھٹوں پر نسل درنسل وہ مزدوری کر رہے تھے جسے غلامی بھی کہا جاسکتا ہے۔
اقبال نے پروردگار کو بڑے اعتماد سے کہا تھا:
توشب آفریدی چراغ آفریدم
سفال آفریدی ایاغ آفریدم
بیابان و کہسار و راغ آفریدی
خیابان و گلزار و باغ آفریدم
کہ تو نے رات بنائی تو میں نے چراغ بنایا۔ تو نے مٹی بنائی، میں نے اس سے پیالہ تخلیق کیا۔ تو نے صحرا پہاڑی اور خارو خس بنائے۔ میں نے وہاں شاہراہیں اور باغات بناڈالے۔
مگر یہ دعوے پرانے ہو چکے ہیں۔ اب ہم زمین کے اس حصے میں استعمال شدہ شاپنگ بیگوں کی فصل بو رہے ہیں اور شاہراہوں کے کناروں پر بدصورت، کالی گندی، ورکشاپوں کی نہ ختم ہونے والی قطاریں باندھ رہے ہیں۔
چائے دینے والے سست رفتار لڑکے سے پانی لانے کا کہا تو کھچڑی بالوں والے اس شخص نے جس کے رخساروں پر جھریوں نے کام شروع کر دیا تھا، اپنے بیگ سے پانی کی بوتل نکالی اور مجھے پیش کی۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں اپنی اس عادت کو فوراً بروئے کار لایا جس سے گھر والی تنگ ہے۔ ہر شخص کے ساتھ گفتگو کا سلسلہ شروع کرنا اور پھردنیا و مافیہا سے بے خبر ہو جانا!
بات چیت کا سلسلہ چلا تو اس نے بتایا کہ یہ بچے اس کی پوتی اور پوتا ہیں۔ دو دن پہلے صوبائی دارالحکومت کے سکول بند کر دیئے گئے تو پوتی نے فون کیا ’’دادا ابو، چھٹیاں پھر ہوگئی ہیں۔ آپ آ کر ہمیں اسلام آباد لے جائیے‘‘ اور دادا ابو چل پڑے!
بات اس طرف نکل پڑی کہ معمول کی چھٹیاں تو دسمبر میں ہو چکی تھیں اور سکول کھل گئے تھے۔ تو یہ ’’سردیوں‘‘ کی وجہ سے سکول اچانک پھر کیوں بند کر دیئے گئے اور کیا پہلے جنوری کے اواخر میںکبھی سردی نہیں پڑی تھی؟
کھچڑی بالوں والا شخص کھڑکی کے شیشے سے باہر دیکھ رہا تھا۔ جھٹپٹے کا سماں تھا۔ باہر کے مناظر نے دھندلانا شروع کر دیا تھا۔ ڈبے میں لگے قمقموں میں روشنی یک دم تیز ہوگئی۔ اس کے رخساروں پر جھریاں پہلے سے زیادہ پھیلی ہوئی اور گہری لگ رہی تھیں۔ اس کی آنکھوں میں ایک ڈرا دینے والا خالی پن دکھائی دینے لگا جو پہلے نہیں تھا! اچانک محسوس ہوا کہ یہ شخص کہیں درد سا محسوس کر رہا ہے۔ جیسے آپ کا ناخن زخمی ہو، جیسے پائوں کے انگوٹھے میں شدید درد ہو رہا ہو، جیسے سانس لیتے ہوئے پسلی میں بل سا پڑ جائے اور اذیت ہونے لگے، جیسے زبان پر چھالا ہو اور درد کی نوعیت بتائی نہ جاسکے! نہیں معلوم یہ اس کی خود کلامی تھی یا وہ مجھ سے مخاطب تھا۔ لیکن میں ہمہ تن گوش ہو گیا۔
میںایک چھوٹے سے دورافتادہ گائوں میں پیدا ہوا، جس کے ٹاٹ سکول میں پہلی جماعت پڑھی۔ صحن کے کونے میں پڑا گھڑا، جس کا منہ توڑ کر کھلا کیا گیا تھا اور جس کے گندے پانی سے ہم تختیاں دھویا کرتے تھے، میری یادوں کا پکا پکا حصہ ہے۔ ایک دورافتادہ قصبے میں سکول کی تعلیم مکمل کی! ہمارے گھر میں بجلی نہیں تھی کہ اس وقت بجلی کے دو بلب بھی صرف ان گھروں میں ہوتے تھے جو بہت زیادہ امیر تھے! میں اور میرے ہم جماعت راتوں کو لالٹین کی روشنی میں پڑھتے تھے۔ ہم بان کی کھردری چارپائیوں سے سرد راتوں کو گدے ہٹا دیتے تھے تاکہ نیند ہم پر غالب نہ آ سکے۔ آدھی رات کو بھوک لگتی تو اسی لالٹین کے اوپر ننھی سی رکابی میں گڑ رکھ کر پتیسہ نما شے بناتے اور کھا لیتے۔ گرمی کی چلچلاتی دوپہروں میں ہم درختوں کے سائے کے ساتھ ساتھ چارپائیاں گھسیٹتے اور ہوم ورک کرتے جاتے۔ ہم میں سے اکثر کے پاس سکول یونیفارم کا ایک ایک جوڑا تھا۔ ملیشیا کی شلوار قمیص! جوتوں کا ایک ایک جوڑا! ہم کپڑوں کو کوئلوں والی استری سے خود استری کرتے تھے۔ ہمارے جوتوں کا اکلوتا جوڑا ہمیشہ صاف رہتا۔ ہم نے سنا تھا کہ پاکستان بنا تو حکومت کے دفتر خیموں میں لگتے تھے اور کاغذوں پر پن کے بجائے کیکر کے کانٹے استعمال ہوتے تھے۔ ہم نے محدود… انتہائی محدود وسائل کے ساتھ پڑھا۔ ہماری سب سے بڑی عیاشی دال والے پراٹھے تھے اور گائوں سے آنے والے ستو! ہمارے اساتذہ ہمیں گرما کی تعطیلات میں مفت پڑھاتے۔ ہم نے امتحانوں میں پوزیشنیں لیں۔ ہم نے مقابلے کے امتحان دیئے اور ان نوجوانوں کے ساتھ مقابلہ کیا جو آکسفورڈ اور لندن سے پڑھ کر
آئے تھے۔ ہمارے ذہن میں ایک ہی نصب العین تھا کہ ہم اس ملک کو خیموں اور کیکر کے کانٹوں سے آگے لے جائیں اور ہماری اگلی نسل بان کی کھردری چارپائیوں کو کیکر کے ڈھلتے سایوں کے ساتھ نہ کھینچتی پھرے بلکہ ترقی یافتہ ملکوں کے بچوں کی طرح میز کرسی پر برقی قمقموں کی روشنی میں پڑھے۔ ہم نے دیانتداری سے ملازمتیں کیں۔ ریاست کے اربوں کھربوں روپے بچائے۔ ہم بڑے بڑے عہدوں پر پہنچے مگر چائے کی پتی، بسکٹوںکے ڈبے، دو چپاتیاں اور پلیٹ بھر سالن ہمیشہ گھر سے لائے۔ ہم نے کالم نگاری کی تو کاغذ اور قلم سرکاری کبھی نہ استعمال کیا۔ ہم میں ایسے بھی تھے جو ایک صفحہ فوٹو کاپی بھی ذاتی استعمال کا سرکاری مشین پر نہیں کراتے تھے۔ ہمیں معلوم تھا کہ اسی سیٹ اپ میں کروڑوں بنانے والے بھی ہیں۔ ایسے بھی تھے جن کے گھروں میں ڈانس فلور تھے اور سربراہان ان کی بیگمات کے ساتھ رقص کرتے تھے۔ ایسے بھی تھے جو ملک سے کئی کئی سال فرار رہ کر کرپشن کے مقدمے ’’ختم‘‘ کروا دیتے تھے۔ مگر بخدا ہمیں کبھی ان کے مال و دولت پر رشک نہ آیا۔ ہمیںمعلوم تھا کہ سکون کی نیند خلاق عالم نے ان کے نہیں، ہمارے مقدر میں لکھی تھی!
مگر یہ تو اب معلوم ہوا کہ ہم جن سہولتوں سے محروم تھے، ہماری اگلی نسل کو وہ حاصل ہوگئیں مگر جو سہولت ہمارے پاس موجود تھی، ہمارے بچے اسی کو کھو بیٹھے! ہماری اگلی نسل کو میز کرسی مل گئی۔ تختیوں اور سلیٹوں کے بجائے سکول بیگ آ گئے۔ برگر اور سنیک میسر ہوگئے۔ لیپ ٹاپ اور آئی پیڈ مل گئے۔
اب وہ سکولوں میں مخصوص ویگنوں اور کاروں میں آتے جاتے ہیں۔ ان کے پاس رنگین ٹیلی ویژن، ایئرکنڈیشنر اور ہیٹر ہیں۔ اب نہانے کے لئے وہ گرم پانی کی بالٹیاں نہیں اٹھاتے، ایک گراری گھماتے ہیں تو سر پر لگی چھلنی سے آسودگی بخش پانی برسنے لگتا ہے۔ اب صبح صبح مائی ڈوری گندگی کا ٹوکرا، پہلو میں رکھے، آ کر اوپر کی منزل کے کونے میں واقع لیٹرین میں نہیں جاتی، اب حمام خواب گاہ کے اندرہی ہے اور بٹن دبانے سے کموڈ دُھل کر آئینے کی طرف صاف ہو جاتا ہے۔
یہ سب کچھ ہماری اگلی نسل کو مل گیا مگر یہ اس سکیورٹی سے، اس امن سے محروم ہوگئے، جو ہمیں حاصل تھی۔ ہماری درسگاہوںپر کبھی کوئی حملہ آور نہیں ہوتا تھا۔ ہم سردیوں میں اس وقت پیدل اکیلے جاتے تھے۔ جب ابھی کچھ کچھ اندھیرا ہی ہوتا تھا۔ اور واپسی پر ہمیںدور دور تک دہشت گردی کا ڈر نہ ہوتا تھا۔ یہ بچے، جو اس ڈبے میں بیٹھے ہیں، انہیں ہماری دیانت اور ہماری محنت مشقت کا کیا فائدہ ہوا؟؟ یہی کہ ان کے سکول بند کرکے انہیں ان کے گھروں میں بٹھا دیا گیا۔ ان کے اساتذہ اور استانیوں کو حکم دیا جا رہا ہے کہ کتابیں رکھو اور کلاشنکوفیں سنبھالو۔ ان کی درسگاہوں کے اردگرد دیواریں نہیں، فصیلیں بنوائی جا رہی ہیں۔ ہم نے پوری پوری زندگیاں لگا کر اس ملک کو آگے بڑھایا۔ مگر اب اسی ملک کی ترقی سے فائدہ اٹھانے والے، اسی ملک کی ہوا چاندنی دھوپ اور پانی سے پرورش پانے والے، اسی ملک کے بچوں کو نشانے پر رکھ کر لبلبی دبا رہے ہیں! تو گھاٹے میں تو ہم مڈل کلاسیے اور لوئر مڈل کلاسیے رہے جن کے بچے دبک کر گھروں میں بیٹھے ہیں۔ حکمرانوں کے بچے بھی محفوظ ہیں اور مدارس بھی۔ کوئی نہیں حملہ آور ہوتا!
کھچڑی بال اور مسلسل کام کرتی جھریاں!! اب باہر مکمل اندھیرا تھا! بچے سٹوری بکس بند کرکے سیٹ سے ٹیک لگائے، آنکھیں موندے، بیٹھے تھے۔ کیا وہ کوئی خواب دیکھ رہے تھے؟ آنے والے دنوں کا خواب؟ جب وہ محفوظ ہوں گے؟؟
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“