سود و زیاں کا حساب کرنے کی مہلت ملی بھی تو کہاں،ہسپتال کے صاف شفاف چمکتے ہوۓ
ہوۓ سفید بستر پر؟
جیت کی سرشاری میں گم وہ اپنے لطیف جذبات سے کتنا دور نکل آیا کبھی یہ بھی سوچنے کا وقت نہ ملا،اور آج جب اسے بیماری نے کام سے وقفہ لینے پر مجبور کیا تو اعصاب ساتھ چھوڑ چکے تھے ،وقت کا اژدھا کتنا کچھ نگل چکا تھا مگر پھر بھی خالی پیٹ تھا .وہ سوچ رہا تھا کیا اب زندگی اتنی مہلت دے گی کہ کچھ خاموش سوالوں کے جواب دیۓ جاسکیں کچھ ان کہی باتوں کو لفظوں کا روپ دیا جاسکے،اس لمس کو روح میں سمونے کے لیۓ چند لمحے مل پاٸیں گےجس کی حسرت میں عمر کا بہترین حصہ گنوا دیا ،زندگی بھر خوب سے خوب تر کی جستجو میں کہیں چھپے ہوۓ سایوں کی حقیقت جان سکے گا یا وہ بھی محض ایک پرچھاٸیں بن کر وقت کی دست برد کا شکار ہو جاۓ گا ؟
کہابھی تھا اسے مرنے نہ دینا
وہ سپنا خا اوڑھے سوگیا ناں
اس کی سوچ پھر وہیں آگٸ کہ اس سارے سفر میں کیا کھویا کیا پایا ،کس جذبے اور ولوے کے ساتھ سفر کا آغاز کیا اور اب پیچھے مڑ کر دیکھو تو اپنا سایہ بھی ساتھ نہیں
کیا اب سفر ختم ہو گیا یا کچھ باقی ہے؟
زندگی اور حالات کا چکر کہاں جا کر رک یہ آج سے پہلے اس نے کبھی سوچا ہی نہ تھا
خبر تحیر عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا جو رہ سو بے خبری رہی