قائد اعظم محمد علی جناح محض ایک شخصیت کا نام نہیں ہے یہ ایک ایسی ہستی کا نام ہے جس نے ایک تاریخ رقم کردی کروڑوں مسلمانوں کو مشکلات اور مصائب کے اندھیروں میں امید کی نئی کرن دی۔جینے کا حوصلہ دیا جدوجہد کی طرف راغب کیا۔ باہمت اور بلند کردار کی قیادت ہی وہ سب کچھ کرسکتی ہے جو جناح نے کردکھایا۔ یہی وجہ ہے کہ 1928 میں 14 نکات پیش کیئے۔ 1934 میں مسلمانوں کے حقوق کی جدوجہد کو تیز تر کردیا اور مسلم لیگ کو نمائندہ جماعت بنادیا۔1940 میں قرارداد پاکستان پیش کی۔18 جولائی 1947 کو آزادی ہند کے قانون نفاز ہوا۔ اور یوں 14 اگست 1947 کو پاکستان معرض وجود میں آیا۔ ایک خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔
ملک بنا تو بابائے قوم نے اپنی قوم سے فرمایا کہ آج سے آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے اپنی مسجدوں میں جانے کے لیئے آزاد ہیں ۔مذہبی رواداری کا درس دینے والے قائد نے اس مملکت کے اندر رہنے والے لوگوں کو نوید دی کہ اب ان کو اپنے مذہبی عقائد کے مطابق زندگی گذارنے کی آزادی حاصل ہوگی۔اس خطہ ارضی میں رہنے والوں کو ترقی کے یکساں مواقع میسر آئیں گے۔قانون سب کے لیئے برابر ہوگا۔ریاست کا کام افراد کی فلاح وبہبود کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ریاست ہی ہر شہری کے جان ومال کے تحفظ کی زمہ دار ہوگی۔اقوام متحدہ کے منشور کے حامی اقوام عالم میں اپنا امن پسند کردار ادا کرنے کے خواہش مند قائد کو زندگی نے مہلت نا دی اور یوں مملکت تو قائم رہی مگر خواب بکھر گئے۔
ہندو ساہوکاروں کے چنگل سے نکلنے والے اپنے ہم مذہب اور ہم نسل لوگوں کے چنگل میں پھنس گئے ۔ملکی وسائل اور زرائع روزگار اور کاروبار پر ہندو بنیئے کی طرح مسلم بنیئے نے قبضہ جمالیا۔متحدہ ہندوستان کے پریشان حال مسلمان کو الگ ملک میں بھی سکھ اور چین کا ایک پل نصیب نہیں ہوا۔غریب اسی طرح زیرعتاب رہا جیسا کہ ماضی میں تھا۔وسائل پر انہی کا تصرف قائم رہا جو بااثر تھے طاقتور تھے دولت مند تھے۔قانون کا رویہ بھی ماضی کی طرح امیر سے ادب واحترام والا اور غریب کے ساتھ درشت اور کھردرا رہا۔غریب کی عزت وعصمت ماضی کی طرح پہلے غیر مذہب اب ہم مذہب افراد کے ہاتھوں پامال ہوتی رہی۔
نیا ملک بھلے بن گیا مگر حالات نہیں بدلے بلکہ پہلے سے بھی بدتر ہوتے گئے۔حالات کی ستم ظریفی اور حالات کی تلخیوں کا دکھ مزید شدت اختیار کرگیا جب ظالم کوئی غیر نہیں بلکہ اپنا تھا۔تقسیم کے باوجود بھی کچھ نہیں بدلا ہاں اگر کچھ بدلا ہے تو صرف کردار بدلے ہیں ۔پہلے ان کرداروں کے نام ہندووں والے تھے اب مسلمانوں والے ہیں۔جبکہ مظلوم کا کردار نہیں بدلا اور وہ وہی رہا جو ماضی میں تھا۔لہذا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ظالم اور استحصالی طبقے کا رنگ ، نسل اور مذہب کیا ہے اور کیا فرق پڑتا ہے کہ مظلوم کون سی زبان بولتا ہے ۔طبقات میں تقسیم شدہ معاشرے کی یہی پستی ہوتی ہے کہ یہاں پر انسان نہیں اس کا طبقہ دیکھا جاتا ہے اور یہی طبقہ عزت وزلت کی بنیاد بنتا ہے۔
متحدہ ہندوستان میں سرکاری نوکریوں اور کاروبار میں پیچھے رہ جانے والے غربت وافلاس میں زندگی گذارنے والے مسلمان اپنے ملک میں بھی اشرافیہ کے سامنے اچھوت کے سوا کچھ نہیں ہیں۔دو وقت کی روٹی کو ترستے یہ بدنصیب آج بھی قابل علاج بیماریوں کے باوجود سسک سسک کرزندگی گذارنے پر مجبور ہیں ۔دووقت کی روٹٰی کو ترستے کروڑوں انسان بھوک سے تنگ آکرآئے روز خود کشیاں کررہے ہیں ۔جلوت میں تن ڈھانپنے کے لیے خلوت میں برہنہ ہونا ضروری پوچکا ہے ۔سفید پوشی سوائے جرم کے کچھ نہیں ہے ۔ایک زلت آمیز زندگی کروڑوں انسانوں کا مقدر بن چکی ہے اور انسان یہ زندگی گذار رہے ہیں۔
آزادی کے 75 سال بعد بھی حکومتوں نے اگر کچھ دیا ہے تو سوائے لنگر خانوں اور سرائے ہی دئیے ہیں ۔قوم کو چند ہزار روپے کی مالی امداد کے نام پر لائنوں میں لگا دیا گیا ہے ایک بہت بڑے کاروباری کے لنگر خانوں کے باہر کھانے کے لیے اپنی باری کے منتظر بدنصیب اس کو قسمت کا لکھا سمجھ کر بس انتظار کیئے جارہے ہیں۔آج بھی سیلاب میں بستیاں پانی میں بہہ جاتی ہیں آج بھی وبائی امراض میں لوگ لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اورپھر اس تقسیم کوتقسیم خداوندی کا نام دینے والے ملاں عرش سے اترتے من وسلویٰ سے لطف اندوز ہورہے ہیں ۔نا مندر محفوظ ہیں نا ہی مسجدیں محفوظ ہیں اور ناہی انسان کو اپنے عقائد کے تحت زندگی گذارنے کی آزادی ہے
سات دہائیوں بعد بھی آزادی کے نام پر قوم کو پرانے ترانے کا تحفہ نئی موسیقی کے ساتھ دیا گیا ہے۔سیاسی اشرافیہ کی طرف سے پیغام ملا ہے کہ سجدہ شکر بجا لائیں کہ آج کے دن آزاد ہوئے تھے ۔اور خلق خدا حیران وپریشان کہ کس سے آزاد ہوئے اور کیسی آزادی ملی ہے ۔حالات تو جوں کے توں ہیں بلکہ پہلے سے مزید دگرگوں ہیں۔پھر یہ آزادی کا نعرہ کیسا ہے ۔کہاں ہے وہ آزادی جس کی نوید قائد نے سنائی تھی۔کیا سال کے ایک مخصوص دن میں آزادی کا جشن منا لینے سے آزادی حاصل ہوجاتی ہے ۔اگر حالات ایسے ہی رہنے تو تھے اس آزادی حاصل کرنے کا کیا فائدہ ہوا کیوں اتنی جدوجہد کی گئی۔کیوں لاکھوں انسانوں کی قربانیاں دی گئیں کیوں گھربار چھوڑ کر ہجرت کی گئی۔ یہ کیسی آزادی ہے جس میں نصف آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہے۔یہ کیسی آزادی ہے جس میں انسانی زندگی بچانے والی ادویات نہیں خریدی جاسکتی ۔کیوں عوام کے پیٹ بھوکے ہیں کیوں عزتیں محفوظ نہیں ہیں کیوں وسائل چند ہاتھوں تک محدود ہیں ۔کہاں ہے قائد کا وہ آزاد ملک جہاں سب کو برابر ہونا تھا جہاں سب کے لیے قانون ایک ہونا تھا۔جہاں انسان کی بلا رنگ نسل اور مذہب عزت وتکریم ہونی تھی۔یہ بھوک ننگ افلاس قائد کے آزاد ملک کی نشانیاں تو نہیں تھیں۔زبان ، مسلک اور قومیت کے نام پر قتل وغارت قائد کا خواب ہرگز نہیں تھا۔75 ویں سالگرہ منانے والے حکمرانوں کے لیئے ایک ہی پیغام ہے کہ جب تک جنتا بھوکی ہے یہ آزادی جھوٹی ہے ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...