جب تک فری اکانومی رہے گی، کارل مارکس زندہ رہے گا۔
سب سے دلچسپ بات یہ ہے کے فری اکانومی کے گُرو یا ماسٹر, John Maynard Keynes ، سے لے کر Adam Smith سے Milton Friedman، اور David Ricardo وغیرہ اور اب تک ہاورڈ سکول آف اکانمسٹس سے لے کے شکاگو اسکول آف اکانومسٹس تک ہمیشہ بدلتے رہے ہیں ۔ سرمایا دارانہ نظام کو تازہ دم کرتے جا رہے ہیں ۔ لیکن کیمیونزم میں کارل مارکس one and only سوشلسٹ اکانومی کا چیمپین رہا ہے اپنی سالگرہ کے دو سو سال بعد بھی ۔
دراصل معیشت کا تعلق انسانی نفسیات ، مارکییٹ کے حالات ، قدرتی ریسورسز ،آفات ، حکمرانوں کی پالیسیاں ، آبادی کا تناسب ، مانگ ، فیشن وغیرہ وغیرہ سے ہوتا ہے جس کا احاطہ کرنا ایک آدمی یا ایک نظام کا کام نہیں ۔ اتنے سارے variables میں صرف ایک ہی constant ہوتا ہے انسان بزات خود ۔
میرے لاہور کے گھر کی لائبریری میں کارل مارکس کے Das Kapital کے سارے volume موجود ہیں اور اکثر ان کو پڑھتا بھی ہوں خاص طور کارل مارکس پر جو اثر Hegel, Spinoza, Voltaire اور Shakespeare کا تھا وہ influence انسانی نفسیات سمجھنے کے لیے اسے بھی بہت کام آیا مجھے بھی اکثر ۔
یہ بات تو درست ہے کے سرمایہ دارانہ نظام کے استحصال کے کارل مارکس نے بخیے اُکھیڑ دیے لیکن اس کے متبادل استحصال سے پاک نظام دینے میں ناکام رہا۔ مارکس نے ٹھیک کہا تھا کہ سیٹھ چاہے بھی تو اپنے مزدور سے مہربان نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ اپنے ساتھ والے سیٹھ سے مقابلے میں ہے ۔ یا اسے ٹیکس اور بجلی بھی چوری کرنی پڑے گی اگر ساتھ والا کر رہا ہے ۔ یہ ایک بہت ظالم مقابلہ ہے جسے اقبال نے ٹھیک کہا۔
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت ۔
منافع در منافع ، سرمایہ در سرمایہ ، اسے قائم رکھنے کی شرط ہے ۔ آپ دیکھیں کسی بھی فیکٹری میں مزدوروں کی تنخواہ اس فیکٹری کے ٹوٹل منافع کا بمشکل ۲% ہوتی ہے امریکہ میں یہاں ۳ سے ۴ فیصد ہے ۔ کتنا بڑا استحصال اور ظلم ہے مزدور پر ۔ اور کارل مارکس ہی کے مطابق پھر پسے ہوئے مزدور کو مزید مزہب کی گولی افیم کی صورت میں دے دی گئ ۔
لیکن کارل مارکس کا اپنا ماڈل each according to his ability and needs بھی بلکل فیل ہو گیا ۔ایک تو وہ انسان کی اپنی creativity کو ختم کر رہا تھا دوسرا انسانوں کو اس طرح تولنا یا ناپنا نا ممکن ہے ۔ نتیجہ وہی ہوا کہ Spinoza اور Hegel سے متاثر ہونے والا کارل مارکس کمیونسٹ یا سوشلسٹ دنیا کے بدترین ڈکٹیٹر دنیا کو دے گیا ۔ وہ خود دل کا بہت اچھا انسان تھا متوسط گھرانے میں پیدا ہوا لیکن اپنے امیر دوست فریڈریک انجیلزکی ساری وراثتی دولت اس بحث میں پُھوک گیا ۔ فُٹ پاتھیا بن گیا ۔ میرا اس کی کوشش اور ریسرچ کو بہت سلام ۔
کارل مارکس کی ریسرچ سے آ گے بڑھنا چاہیے تھا ۔ افسوس ہوتا ہے کہ یا تو ہم نے اسے مکمل ہی ایک مقدس صحیفہ مان کر پوجنا شروع کر دیا یا یکسر اس کے خلاف زہریلا پراپیگنڈا شروع کر دیا ۔ کامریڈ جو پیدا ہوئے ان کو جیلیں اور سزائیں دی گئیں ۔
ایک شام میں Caspian Sea کے ساحل پر بیٹھا ایک اسی طرح کے پاکستانی کامریڈ جو روس سے تازہ تازہ سوشلزم پر ڈگری لے کے آیا تھا بیٹھا تھا ۔ وہ رو رہا تھا کہ کارل مارکس کا عشق مروا گیا ، کہیں کے نہیں رہے ۔ اچھے بھلے جھنگ کی زمیندار فیملی سے تعلق تھا ۔ مزدور کے لیے پیٹ میں مڑوڑ اٹھے ۔ وہ بیلارس سے آزربائیجان شفٹ ہوا تھا ۔ ایک روسی سے شادی کی ۔ دو بچے تھے ۔ کوئ ملازمت نہیں تھی ۔ خود ایک مزدور کی حالت پر آ گیا جس کی حالت بدلنے وہ روس پڑھنے آیا ۔ میں نے کہا دیکھو کارل مارکس میرا بھی ہیرو ہے اس نے کنوئیں میں چھلانگ لگانے کا نہیں کہا تھا ۔ جو کام ہماری اسلامی جمیعت کی اسٹوڈنٹ ونگز کرتی ہیں وہی کالجوں میں کامریڈ کرتے ہیں دماغ بند کرنے کا ۔ تمہے اپنا دماغ کھولے رکھنا چاہیے تھا ۔ کارل مارکس نے ایک بہت اہم lead دی ہے ۔ ایک نیا پس منظر دکھایا ۔ کیا خوبصورت نقشہ کھینچا مادر پدر آزاد سرمایہ دارانہ نظام کا ۔ اس سے آگے بڑھنا چاہیے تھا۔
معیشت پر در اصل کوئ بھی بحث حتمی نہیں ہو سکتی کیونکہ variables بہت ہیں البتہ انسانی نفسیات کا اس سے بہت گہرا تعلق اور اثر ہے ۔ میں ابھی بھی اسلامی معاشی نظام کو بہترین سمجھتا ہوں جس کو عملی طور پر حضور صلعم نے نافذ کر کے دکھایا ۔ اس لیے نافذ عمل نہیں کے اس سے سیٹھ اور شہزادوں کی جان جاتی ہے ، لہٰزا خادم رضوی اور دیگر چندہ گروپ ڈسکس بھی کرنا پسند نہیں کرتے ۔ میں نے غالبا دو مہینے پہلے اپنے ایک بلاگ میں اس کے خدو خال بیان کیے تھے ۔ میرے ماضی کے بلاکوں میں جھانک لیں اگر خواہش ہے جاننے کی ۔ یا جاوید غامدی صاحب کے اس پر بہت سارے لیکچر ہیں یو ٹیوب پر دیکھ لیں ۔
آپ سب خوش رہیں ۔ اب سے کچھ ہی دیر بعد یہاں امریکہ میں محترم ٹرمپ ایران کے لیے کوئ امن کا پلان اناؤنس کرنے والے ہیں جس سے پورے خطہ میں ایک خوشگوار تبدیلی متوقع ہے ۔ دعا کریں ایسا ہی ہو ۔ کل بات کریں گے اس پر ۔ اللہ نگہبان ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔