12 فروری 1968 کو 102 سویڈش بسیں اسٹاک ہوم سے کراچی پہنچیں۔ ان کا استقبال مغربی پاکستان روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے عہدیداروں نے ویسٹ وہارف پر کیا تھا ۔ یہ بسیں اُن621 بسوں کا حصہ تھیں جو سویڈش حکومت نے کراچی کی شہری حکومت کو بطور تحفہ دیں تھیں۔ یہ بسیں "برانڈ نیو" نہیں تھیں بلکہ کافی عرصہ تک سٹاک ہوم کی سڑکوں پر چلتی رہیں تھیں۔
1967 میں سویڈن میں ٹریفک کا نظام تبدیل کردیا گیا تھا۔ نئے ڈرائیو سسٹم کے مطابق "رائٹ ہینڈ ڈرائیو" کی جگہ "لیفٹ ہینڈ ڈرائیو" سسٹم رائج کر دیا گیا، جس کی وجہ سے یہ بسیں وہاں کی شاہراہوں پر مزید نہیں چل سکتی تھیں۔
کراچی پہنچنے والی ان 102 بسوں کے بعد مزید 419 بسیں بھی جون 1968 تک کراچی پہنچا دی گئیں۔
یہ "بسیں" جن میں سے ہر ایک بس میں 80 مسافروں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی، خاصی آرام دہ تھیں۔ ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی نے کچھ بسیں "کراچی یونیورسٹی " کے لیے بھی مختص کر دی تھیں۔ ان بسوں کے دروازے بند ہوتے تھے، جس کے بعد ہی یہ چلتی تھیں اور اگر کوئی سیڑھی پر کھڑا ہو تو دروازہ بند نہیں ہوتا تھا۔ جب کہ پوری بس کے شیشے جامد تھے، مگر چند ہی ماہ میں ہم انہیں اپنی ڈگر پر لے آئے، دروازے بند ہونا "بند" ہو گئے یعنی کہ وہ کُھلے کے کُھلے رہ گئے اور جامد شیشے توڑ دیے گئے۔ افسوس کہ "ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی کراچی" ان بیش قیمت بسوں کی مرمت اور دیکھ بھال کا خاطر خواہ انتظام نہیں کر سکی، جس کے نتیجے میں بہت جلد یہ ہمارے شہر کی شاہراہوں سے غائب ہو کر کباڑخانے کی زینت بن گئیں.
کچھ لوگ یہ بھی بتاتے ہیں کہ ان بسوں کی نشستوں کو اکھاڑ کر انہیں باقاعدہ گھریلو فرنیچر کے طور پر معمولی سی آرائش کر کے شہر کے "بازاروں" میں فروخت بھی کیا گیا۔
“