علامہ شبلی نعمانی قصبہ اعظم گڑھ میں واقع شبلی منزل میں اپنی کتاب شعرالعجم کی تصنیف میں مشغول تھے۔ ایک روز کام میں مصروف تھے کہ کسی ضرورت کے تحت اٹھ کر زنان خانے میں چلے گئے۔ اندر ایک تخت بچھا تھا جس پر پائوں لٹکا کر بیٹھ گئے۔ داہنی طرف نظر پڑی، بندوق رکھی تھی۔ انہوں نے یونہی اسے اٹھا لیا۔ قریب ہی ان کی بہو بیٹھی تھیں۔ '' لائیے میں اسے اندر رکھ آئوں''۔ ان کی بہو نے کہا۔
'' یہ بندوق ہے، عورتوں سے تو اٹھ بھی نہیں سکتی۔ '' انہوں نے مزاحا'' کہا۔
'' اب عورتیں اتنی کمزور بھی نہیں ہوتیں۔''ان کی بہو نے کہا اور بندوق ان کے ہاتھ سے لینی چاہی۔ غلطی سے ہاتھ لبلبی پر پڑا اور بندوق سر ہو گئ۔بڑے چھروں کی بندوق تھی اور فاصلہ بہت کم۔ نشانہ ٹھیک ان کے پائوں پرلگا۔ ٹخنے کی ہڈی چکنا چور ہوگئ۔ ایک جھٹکا سا لگا۔ شبلی کی سمجھ میں بھی نہیں آیا کہ کیا ہو گیا۔ بہو کی چیخوں سے کہرام برپا ہو گیا۔ بندوق چلنے کی آواز اور پھر یہ چیخیں۔ ملازم اور باہر کے بہت سے آدمی دوڑ کر اندر آگئے۔ ۔ ایک نوکر نے جوتے سے پائوں نکالنا چاہا تو ایڑی جوتے ہی میں رہ گئ۔ ان کا پائوں بری طرح کٹ چکا تھا۔ خون بری طرح بہہ رہا تھا، کوئ ایک گھنٹے بعد ان کا بیٹا اور چھوٹا بھائ جنید سول سرجن کو لے کر آئے۔ ۔۔ سرجن نے پائوں کی حالت دیکھ کر کہا کہ پائوں کاٹنا پڑے گا ، اب جڑ نہیں سکتا۔ ۔ شبلی کو بے ہوشی کی دوا پلا کر بےہوش کردیا گیا۔ چونکہ ہڈیاں اوپر تک چور ہو گئے تھیں اس لئے نصف پنڈلی جدا کر دی گئ۔
پاوں کی یہ باقیات گھر کے ہی ایک کونے میں دفن کردی گئ تھیں-
یہ خبر پورے ہندوستان میں پھیل گئ۔ ا حباب اور معتقدین کے تار آنے لگے۔ نواب سید علی حسن خان نے یہ قطعہ تحریر کیا۔
ع
شبلی ترے قوم پر بہت احساں ہیں
باتیں تری دردِ قوم کی درماں ہیں
اک پائوں اگر گیا تو کچھ رنج نہ کر
اس ایک قدم پہ لاکھ سر قرباں ہیں
تین ماہ بستر پر رہے لیکن اس حال میں بھی شعرالعجم کی تصنیف کا سلسلہ جاری رکھا۔ جب زخم ٹھیک ہو گئے تو مصنوعی ٹانگ بنوانے بمبئی گئے۔ یہ پائوں صحیح نہیں بنا تھا اس لئے چلنے پھرنے میں بہت تکلیف ہوتی تھی۔ حیدرآباد کی مجوزہ یونیورسٹی کے سلسلے میں مشاورتی اجلاس میں شبلی کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ اس قیام کے دوران افسرالملک بہادر نے سرکاری کارخانے سے دوسرا پائوں بنوا کر پیش کیا جو زیادہ آرام دہ اور ہلکا تھا۔
کوئ اور ہوتا تو پائوں کٹنے کے ساتھ دل کے حوصلے کا ساتھ بھی چھوٹ جاتا۔ لیکن انہوں نے اس حادثے کو دوسرے پائوں کی نوک پر رکھا اور ندوہ کےعملی کاموں میں مصروف ہو گئے۔
سید سلیمان ندوی کی تصنیف حیات شبلی سے ماخوذ
سرگزشت
مولانا شبلی نعمانی کے ساتھ ایک حادثہ پیش آیا کہ شکاری سے بھری ہوئی بندوق چل گئی جس سے ان کا ایک پاوٴں بری طرح زخمی ہوگیا۔ بالآخر اسے کاٹنا پڑا۔ کچھ شعراء اس حادثہ فاجعہ پر بھی طبع آزمائی کرنے سے باز نہیں رہے۔ کیا کیا مضامین باندھے گئے۔ کسی نے کہا ”عزم وہمت کا قدم زمین پہ گاڑ دیا“۔
کسی نے یہ مضمون باندھا کہ ”سیرت نگار نبوی نے حوروں کی پابوسی کے لئے پہلے ہی ایک پاوٴں اوپر بھیج دیا“
اقبال سہیل نے کہا:
تھا اہل عدم کو بھی اشتیاق پابوس
اک پاوٴں وہاں بھی چاہئے تھا جانا
شبلی نے ان مضامین کے جواب میں لکھا
شبلی نامہ سیہ را بجزائے عملش پابریدند و صداخاست کہ سرمی باید
شبلی کے کالے کرتوتوں کی وجہ سے اس کا پاوٴں کاٹ دیا گیا تو اوپر سے آواز آئی پاوٴں نہیں ،سر چاہئے۔
حیوانی جبلت، مکھیوں کا دیوتا، مکڑیوں بھرا جزیرہ اور ہم
( نوبل انعام یافتہ ولیم گولڈنگ کے ناول ’ لارڈ آف فلائیز ‘، 1954ء پر تبصرہ ) یہ پچھلی صدی...